تعلیم نسواں کے لئے عصری علوم کا مرکز ہے ماہل اعظم گڈھ کا سر سید گرلس کالج
کہتے ہیں”جس قوم کی عورتیں جاہل رہیں گی اس قوم میں جہالت نسلوں میں سفر کرےگی”
ممبئی (معیشت نیوز) اعظم گڈھ سے متعلق اقبال سہیل کا یہ مصرعہ تو زبان زد عام ہے ہی کہ ’’جو ذرہ یہاں سے اٹھتا ہے وہ نیر اعظم ہوتا ہے‘‘ لیکن عملی طور پر خطے نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ آج بھی اس کی گود میں ایسے ہیروز پرورش پا رہے ہیں جو پوری دنیا میں علاقے کا نام روشن کررہے ہیں۔یقیناً مردوں کے بالمقابل عورتوں کا علم سے شغف ،علمی میدان میں آگے بڑھنے کی للک اور سب سے بڑھ کر ایک اچھا معاشرہ بنانے کی خواہش ہی ہےجو خطے میں علم کی جوت جگائے ہوئے ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اعظم گڑھ کی تحصیل پھول پور کے ٹاؤن ایریا ماہل میں اہرولا روڈ پرواقع سر سید گرلس کالج بھی اسی ضروت کو پوری کر رہا ہے جس کے کہ علاقے کے لوگ متمنی ہیں۔دراصل یہ 2009 کا آغاز تھا جب 25 بچیوں سے کالج کی شروعات کی گئی تھی جو اب الحمدللہ سات سو کی گنتی پوری کر رہا ہے اور یہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ مستقبل کے سو خاندانوں کی علمی پیاس بجھانے کا انتظام کررہا ہے۔
کالج کے مینیجر محمد خالد مخدومی معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ کالج اعظم گڈھ کے جس نواحی علاقے میں واقع ہے وہاں کی آبادی چھوٹے چھوٹے گاؤں پر مشتمل ہے اور یہ پورا علاقہ ہندو اکثریتی علاقہ ہے جو تعلیمی و معاشی لحاظ سے انتہائی پسماندہ شمار کیا جاتا ہے- یہ بات افسوسناک ہی نہیں بلکہ قابل غور بھی ہے کہ غیر مسلموں کے مقابلےیہاں مسلمانوں میں تعلیم کا رجحان انتہائی کم ہےجس کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ مسلم نوجوانوں میں عرب ممالک جاکر پیسہ کمانے کاجوجنون بالغ ہونے سے پہلے ہی پیدا ہوجاتا ہے اورجس طرح وہ مار پیٹ کر کسی طرح پاسپورٹ کے لیے ضروری ہائی اسکول کی سرٹیفکٹ حاصل کرکےپیسہ کمانے نکل جاتے ہیں اس سے نہ صرف مسلم نوجوانوں کی اکثریت جاہل رہ جاتی ہے بلکہ جب وہ واپس آتے ہیں تو تعلیمی لحاظ سے اس قابل نہیں ہوتے کہ کوئی اچھی ملازمت ہی اختیار کر لیں۔لیکن اس کے بالمقابل بچیاں سنجیدہ ہوتی ہیں اوران کے اندر تعلیم حاصل کرنے کا جنون ہوتا ہےالبتہ گاؤں سے باہر عزت و وقار کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کا کوئی نظم نہ ہونے کی وجہ سے وہ اکثرکف افسوس مل کر رہ جایا کرتی ہیں۔حالانکہ تمام لوگ اس کہاوت سے اتفاق رکھتے ہیں کہ “ایک مرد پڑھتا ہے تو ایک فرد پڑھتا ہے لیکن ایک لڑکی پڑھتی ہے تو پورا خاندان پڑھتا ہے” اور اس طرح سماج میں تعلیم عام ہوتی ہے- یہی وہ عوامی خواہش تھی کہ جس کے مد نظر لڑکیوں کی اس ضرورت کو پوری کرنے اور سماج میں تعلیم عام کرنے کی غرض سے باہمی مشورہ اور اتفاق رائے سے سال 2009ء میں سر سید گرلس کالج کی ابتداکی گئی تھی‘‘۔
خالد مخدومی مزید کہتے ہیں کہ ’’ چونکہ بیشتر گاؤں میں درجہ پانچ تک کی تعلیمی سہولت میسر تھی جبکہ درجہ پانچ کے بعد ہی کی تعلیم بچیوں کے لیے مسئلہ تھی اس لیے ابتدا میں سر سید گرلس کالج میں درجہ چھ سے بارہویں تک ہی تعلیم کا نظم کیا گیا لیکن آج سر سید گرلس کالج میں یوپی بورڈ کے تحت .K.G سے B.A. BSc تک کی تعلیم دی جاتی ہے۔جبکہ سال 2015ء میں ہائی اسکول اور بارہویں جماعت تک کی منظوری حاصل ہوچکی ہے۔‘‘ کالج کے مینیجر محمد خالد مخدومی شروعاتی سفر کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’کالج کے لئے فنڈ اکٹھا کرنے کی ذمہ داری اگر میری تھی تو عملی طور پر کالج کو سنبھالنے کا بیڑا محمد غالب نے اٹھا رکھا تھا ،یہ انتھک کوشش ،جدوجہد کا معاملہ ہی ہے کہ آج سر سید گرلس کالج اپنا ایک مقام رکھتا ہے اور یہاں تک پہنچانے میں نائب مینیجر محمد غالب کا خون پسینہ شامل ہے”اسی طرح کالج کی تعمیر و ترقی میں ممبئی کے لیاقت علی خان، سہیل کزانی اور واپی میں مقیم موضع کنورا گہنی کے حاجی اسرارالحق(مرحوم) کا جوکردار رہا ہے اسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا-
خالد مخدومی کہتے ہیں ’’جس وقت کالج کا آغا ہوا اس وقت ہر طرف جھاڑجھنکار اورچٹیل زمین (بھٹے کی زمین) کے سواکچھ بھی نہیں تھا لیکن یہ اللہ کا کرم ہی ہے کہ اب بہت کچھ ہوگیا ہے لیکن ابھی بہت کچھ کیا جاناباقی ہے جیسے’’ کالج کی عمارت کے دوسرے منزلے پر 4200 مربع فٹ کے کثیر المقاصد ہال پر سلیب(لنٹر)‘‘، ’’ڈگری کالج کی علاحدہ عمارت پر پہلاسلیب اوردومنزلہ عمارت کی تکمیل،’’ آفس اور مہمان خانے کی دومنزلہ عمارت کی تعمیر‘‘’’ کالج کی موجودہ عمارت کا پلاسٹر اور رنگ و روغن وغیرہ کا کام اب اہل خیرحضرات کے ہی ذمہ ہے۔
کالج کی منفرد خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے خالد مخدومی کہتے ہیں’’ تیس کلو میٹر کے دائرے میں یہ لڑکیوں کا واحد سائنس ڈگری کالج ہے جہاں پردہ اور سخت نظم و ضبط کے ساتھ تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری ہے۔پردے کا عالم یہ ہے کہ تعلیم کے دوران کوئی مرد کالج کیمپس میں داخل نہیں ہوسکتاجبکہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسلم اور غیر مسلم بچیوں کی تعلیم کا نظم ایک ساتھ کیا گیا ہے تا کہ سر سید احمد خان علیہ الرحمة کی فکر پر گامزن رہتے ہوئے سر سید گرلس کالج گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ بنا ر ہےاور جس کی وجہ سے برادران وطن سے قریب ہونے اور بہت ساری غلط فہمیوں کو دور کرنے کا موقع ملتارہے‘‘۔اسی طرح یہ اتر پردیش کا واحد کمپیوٹر سینٹر ہےجواعظم کیمپس پونا کے ذریعہ قائم کردہ آٹھ سو مربع فٹ پر محیط اور 61 کمپیوٹرس پروجیکٹرسی سی ٹی وی پر مشتمل ہے، نصابی تعلیم کے علاوہ انگریزی اسپیکنگ کا بھی نظم بچیوں کی NEET کے لیے تیاری، سبھی خاص راستوں پر بچیوں کی آمدورفت کے لیے بس کا معقول انتظام،قابل اور تجربہ کار اساتذہ کے ذریعہ تعلیم،مسلم بچیوں کے لیے اردوعربی کی تعلیم کے ساتھ نماز کا انتظام وغیرہ
محمد خالد مخدومی مسلم سماج میں انگریزی تعلیم پر پیسہ نہ خرچ کرنے کے مزاج کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’مدارس کے جال نے قوم کو یہ باور کرادیا ہے کہ ثواب دارین صرف مدرسہ اور مسجد کی تعمیر میں ہےباقی سب دنیا داری ہے- اب اس واہمہ سے سہولت پسند امراء کو کیسے نکالا جائے یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ جنت تو ہر ایک کو مطلوب ہےحالانکہ اسلامی فقہ اکیڈمی کے مطابق’’عصری اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے نادار مسلم طلباء کو زکوۃ کی رقم دینا جائز ہے،مزید براں دارالعلوم (دیوبند) کے فتوے کے مطابق غریب و نادار مسلم طلباء کی کالج کی تعلیمی اور بس کی فیس بشرط تملیک زکوۃ کےمد سے دی جا سکتی ہے اور دارالسلفیہ بنارس کے مطابق زکوۃ کی رقم مسلم طلباء کی کالج کی تعلیم پر بلاشرط خرچ کی جا سکتی ہے- لہذامسلمانوں کو اگر دنیا و آخرت میں سرخروئی اور سربلندی حاصل کرنا ہے تو تعلیم کو ترجیحات کی پائیدان میں سب سے اوپر رکھنا ہوگا تبھی ہم یہ کہہ سکیں گے کہ ہم نے کچھ بہتر کام کیا ہے۔‘‘اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ جن نامساعد حالات میں ہم نے کالج کو کھڑا کیا ہے اور تعلیمی سلسلہ جاری ہے اس نے نہ صرف اہل علم کو ہماری طرف راغب کیا ہے بلکہ قابل قدر شخصیات نے ہمیں سراہا بھی ہے لہذامختلف علمی فنی،دینی و صنعتی شخصیات کو کالج میں مدعو کیا گیا اور ان کے خیالات و تجربات سے طالبات کو فیض پہنچانے کی کوشش کی گئی..مثلا” امریکہ میں مقیم اعظم گڈھ(موضع کنورا گہنی) کے ڈاکٹر فرینک ایف اسلام، اعظم کیمپس پونا کے روح رواں اورسر سید گرلس کالج میں PAI کمپیوٹر سنٹر قائم کرنے والےجناب پی اے انعامدار،کمپیوٹرای ٹیچنگ کے ماہر انجینئر شکیل احمد (اکولہ)شخصیت سازی کے لئے حوصلہ بخش مقرر سید سعید احمد پونا،مشہور اداکارہ اور سماجی خدمت گار شبانہ اعظمی،مشہور ماہر تعلیم اور تعلیمی راہنمامبارک کاپڑی،
جامعةالافلاح بلریا گنج کے سابق ناظم مولانا طاہر مدنی وغیرہ کا نام قابل ذکر ہے۔‘‘
خالد مخدومی کہتے ہیں جو لوگ ا س تعلیمی تحریک کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے تو انہیں چاہئے کہ مالی طور پر ہمارا تعاون کریں تاکہ ہم اپنے سلسلہ کو جاری رکھ سکیں۔ہمارا اکائونٹ نمبر درج ذیل ہے
SIR SYED EDUCATIONAL SOCIETY
A/C NO. 50100051655782,
HDFC BANK LTD
BR.SARAIMIR
RTGS/NEFT/IFSC,CODE: HDFC0002153
کالج میں اس وقت 157 غریب و نادار مسلم بچیاں زیر تعلیم ہیں جن کی سالانہ فیس Rs.3550 اور مجموعی فیس Rs.557350 ہے جو کہ زکوۃ مد سے ادا کی جاسکتی ہے-لہذا اہل خیر حضرات سے گزارش ہے کہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اس کار خیر میں اپنے نام کا بھی اندراج کروائیں-مزید معلومات کے لیے رابطہ کریں
محمد خالد مخدومی:موبائل نمبر: 919820801169+
ای میل km.khalid56@gmail.com