آخر اس بے حسی کا علاج کیا ہے؟

ممبرا رات میں

دانش ریاض
گذشتہ روزجامع مسجد نیرُل نوی ممبئی میں میں نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد کسی کے انتظار میں گیٹ پر کھڑا تھا کہ دفعتاً بارش شروع ہوگئی۔گیٹ کے پاس ہی بڑی سی چھتری لگی تھی لہذا میں اس کے سائے میں چلا گیا کہ اچانک میری نظر گیٹ پر کھڑی ایک ہندو عورت اوراس کے دو بچوں پر پڑی جو بارش میں بھیگ رہے تھے۔تین سال کا بچہ گود میں تھا جبکہ چھ سات برس کی بچی ساتھ ہی کھڑی تھی۔ پہلے یہ گمان ہوا کہ شاید یہ لوگ بھکاری ہوں جو بھیک مانگنے کے لئے کھڑے ہوں لیکن جب عورت کا خاوند اور بچوں کا باپ ایک بسلری کی بوتل لے کر آیا اور اس کا ڈھکن کھول کر کھڑا ہوگیا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ لوگ دراصل پانی میں دم کروانے اور بچوں کے لئے دعا کرانے آئے ہیں۔ بارش کی بوندیں گر رہی تھیں مسجد سے نمازی نکل رہے تھے اور مذکورہ جوڑے پر ایک نظر ڈال کر آگے بڑھ جا رہے تھے۔ تقریباً دس پندرہ نمازیوں کے گذر جانے کے بعد بھی جب کسی نے ان کی طرف نظر التفات نہیں کیا تو ان کی حسرت بھری نگاہیں مسجد پر ٹک گٰئیں۔چونکہ میں پاس ہی کھڑا تھا لہذا اس کرب کو محسوس کرتے ہوئے فوری ان کے پاس گیا اور حال احوال دریافت کرنے لگا۔ماں کہنے لگی “میرا یہ تین سالہ بچہ تین چار روز سے کچھ کھا پی نہیں رہا ہے۔ڈاکٹروں کو دکھایا تو ان کا کہنا تھا کہ اسے کوئی بیماری نہیں ہے لیکن نہ کھانے پینے کی وجہ سے کمزور ہوتا جارہا ہے، کسی نے کہا کہ شاید اس پر کوئی آسیبی اثر ہو اسی لئے یہاں دعا کرا نے آئی ہوں۔”مجھے بچپن کے وہ دن یاد آگئے جب محلہ کی مسجد کے باہر غیر مسلم مرد و عورت کی لمبی قطار لگتی تھی اور ہر نمازی نماز کے بعد قطار میں کھڑے ان لوگوں کو ایک پھونک مارتا اور آگے بڑھ جاتا تھا ۔ان کی پھونک کا اثر ہوتا تھا یا نہیں یہ تو نہیں معلوم لیکن سماج میں مسجدوں میں جانے والوں کے لئے شردھا قائم تھی۔لیکن آج جس بے رخی کے ساتھ لوگ دعا دئے بغیر اور پھونک مارے بغیر مسجد سے نکلتے رہے تو مجھے شدید تکلیف اس بات پر ہوئی کہ شردھا تو آج بھی نمازیوں پر قائم ہے لیکن نمازی ہی اس لائق نہیں رہے کہ انہیں یقین ہو کہ میری پھونک کا اس پر اثر ہوگابھی یا نہیں۔میں نے جیسے ہی دعائیں پڑھ کر بچوں پر دم کیا اور پانی کی بوتل پر پھونکا باپ نے فوراً ہی بوتل کی ڈھکن بند کر دی اور پھر وہ تمام اپنی بائک پر سوار ہو کر چلے گئے ۔یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن مسلم معاشرے کی تصویر کشی کے لئے کافی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *