Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

یہ رواداری نہیں دین بیزاری ہے

by | May 11, 2020

Muslim Youth Non Muslim Last Right

محمد ندیم الدین قاسمی
مدرس ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد
اسلام نے دیگر مذاہب کے احترام کا درس دیا اور اپنے ماننے والوں کو دوسرے مذاہب کے پیرؤں کے ساتھ بڑی ہی رحم دلی اور رواداری کی بڑی فراخ دلی کی تعلیم دی ہے کہ اُن کے ساتھ حسن ِسلوک کا معاملہ رکھاجائے اوران کی دل آزاری سے مکمل پرہیز کیا جائے ، ہمارے فقہاء کرام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ “اگر کسی شخص نے کسی یہودی یا آتش پرست کو “اے کافر ! “کہہ کر خطاب کیا،جس سے اس کی دل آزاری ہوئی ، تو ایسا خطاب کرنے والا بھی گنہگار ہوگا” (فتاوی عالمگیریہ ص ۵۹ ج ۵)لیکن رواداری اور حسنِ سلوک کا یہ مطلب ہر گزنہیں ہے کہ مذاہب کے درمیان فرق و امتیاز ہی ختم ہوجائے،اسلامی تشخص ہی باقی نہ رہے، رواداری کے نام پر غیروں کے کفریہ و شرکیہ شعائر وروایات کو اپنایا جائے اور رواداری کے جوش میں غیر مسلموں کے عقائد ومذہب ہی کی تائید شروع کردے ، یا اس عقیدہ پر مبنی مذہبی تقریبات میں بے محابا شریک ہو کران کے مذہب کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے، قرآن کریم نے اس سے سختی سےمنع کیا جیسا کہ”سورہ کافرون”کے شانِ نزول سے ظاہرہے کہ مشرکینِ مکہ نے جب یہ فرمائش کی کہ آپﷺہمارے بتوں کی کچھ دن پرستش کرلیں اور ہم آپ کے خدا کی ، تواللہ نے اس سے صاف منع کردیا کہ “تمہارے لئے تمہارادین ہے ،اور میرے لئے میرادین۔
اس لئے ہمارے لئے اس بات کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان بھی کہیں اور ایسے افعال بھی کریں جو خالص دوسرے مذاہب کے شعائر ہوں، یہ ہرگز رواداری نہیں ،بلکہ یہ مداہنت اورخود فریبی ہے، جب سے ملکِ ہندوستاں میں فرقہ پرست طاقتوں نے اقتدار سنبھالا اسلام اور مسلمان کے خلاف خوب نفرت پھیلائی،اور میڈیا نےبرادرانِ وطن کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر گھول دیا، جس کے نتیجہ میں کئی ایک مسلمانوں کا جانی ومالی نقصان ہوا، اور ہورہا ہے تو وہیں دوسری طرف ہندوستانی مسلمانوں نے نفرت کے بازار میں محبت کا دیپ توجلایا اور رواداری کی مثالیں بھی قائم کیں اور برادرانِ وطن کی دوریوں کو پاٹنے کی کوششیں بھی کیں۔لیکن روداری کے جوش میں اسلامی تعلیمات کو فراموش کردیا ،جیسا کہ اب ہندوستان میں چند دنوں سے رواداری دکھانے کے لئے مسلمانانِ ہند نے فخریہ انداز میں غیر مسلموں کے جنازوں کا کندھا دینا ،غیر مسلم میت کو مرگھٹ تک ارتھی لے کر پہونچانا، اور ہندوؤں کی طرح اسے جلا دینا شروع کیا ہے، کیا اسلام ان کو اس کی اجازت دیتا ہے؟ کیا یہ رواداری ہے؟ ہرگز یہ روداری نہیں،بلکہ” مداہنت “اور” تشبہ بالکفار” ہے،جو حرام ہے۔
ملا علی قاریؒ فرما تے ہے کہ” جو لباس میں یا وضع قطع میں یا رہن سہن میں غیروں کی مشابہت اختیار کرلےتو وہ گناہ میں ان کے ساتھ برابر کا شریک ہے”(مرقاۃ المفاتیح ۸/۱۵۵)مفتی کفایت اللہ صاحب ؒفرما تے ہے کہ” غیر مسلموں کی تجہیز وتکفین اور جنازہ کے ساتھ چلنے اور اُس کے جلانے میں شرکت کرنے یا اِس سلسلہ میں اُس کا مالی تعاون کرنے کی شرعاً اِجازت نہیں ہے، اِس لئے کہ یہ چیزیں اُن کے مذہبی شعائر میں داخل ہیں، اگر کوئی مسلمان اس میں شرکت کرے تو وہ سخت گناہ گار ہوگا، جس کے لیے اس پر توبہ و استغفار ضروری ہوگا۔(مستفاد ازکفایت المفتی:۴/۲۰۳)
اور مفتی شفیع صاحب ؒ “ولاتصل علی احد منھم” کی تفسیر میں فرما تے ہے” اگر کسی مسلمان کا کافر رشتہ دار مرجائے اور اس کا کوئی ولی وارث نہ ہو تو مسلمان رشتہ دار کو اسی طرح بغیر رعایت طریق مسنون کے گڑھے میں دبا سکتا ہے(معارف القرآن ولاتصح علی احد منھم مات) البتہ غیر مسلم کی عیادت وتعزیت میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ آپﷺ بنو نجار کے ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے جو غیر مسلم تھا مسند احمد : ۳/۱۵۲ اور ہدایہ میں ہے۔یہودی اور نصرانی کی عیادت میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ ان کے حق میں ایک طرح کی بھلائی اور حسن سلوک ہے ، اس سے ہمیں منع نہیں کیا گیا ہے ۔ ہدایہ : ۴/۴۷۲ ۔خلاصہ یہ کہ
۱۔غیر مسلم کی تجہیز وتکفین میں شریک ہونا اور مالی تعاون کرنا ہر گزجائز نہیں۔
۲۔غیر مسلم میت کو اولا ان کے ہم مذہب وارثوں کے سپرد کردیا جائے ، اوراگر کوئی نہ ہو تو ایک کپڑے میں لپیٹ کر بغیر کسی ہندوانہ رسم وطریق مسنون کے اسے زمین میں دبا دیا جائے۔
۳۔غیر مسلم میت کا احترام کرنا چاہیے ۔ جیسے ایک مرتبہ ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو رسول اکرمﷺ کھڑے ہوگئے ۔ صحابہ نے عرض کیا: یہ تو یہودی کا جنازہ ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا : آخر وہ بھی تو انسان تھا “ ان فیہ لنفساً” صحیح بخاری ، بحوالہ مشکوٰۃ : ۷۴۱ یعنی ہم نے انسانیت کا احترام کیا ہے اور انسان ہونے میں تمام نوع بنی آدم یکساں ہیں۔
۴۔غیر مسلم مریض کی عیادت کرنا ،اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا جائز ہے۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...