پاکستان کےسینئر بیوروکریٹ کالم نگار اوریا مقبول جان کے ساتھ خصوصی انٹرویو

اوریا مقبول جان
اوریا مقبول جان

انٹرویو: جمال عبداللہ عثمان

اوریا مقبول جان کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ کالم نگار، ڈرامہ نگار، شاعر اور سابق بیوروکریٹ۔ کیریئر کا آغاز تدریس سے کیا۔ سول سروس کے امتحان میں کامیابی کے بعد طویل عرصہ بلوچستان میں خدمات انجام دیں۔ مجسٹریٹ بھی رہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے کئی مشہور ڈرامے لکھے۔ پی ٹی وی کے دو ایوارڈز جیتے۔ شاعری کرتے ہیں۔ ایک مجموعہ ”قامت“ کے نام سے منظرعام پر آچکا ہے، جبکہ دوسرا تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔ کالم نگاری کا آغاز روزنامہ جنگ سے کیا۔ پاکستان کے مقبول ترین کالم نگاروں میں شمار ہوتا ہے۔ ملکی سطح پر دو بار بہترین کالم نگار کا ایوارڈ وصول کیا۔
اوریا صاحب دوٹوک انداز میں اپنی رائے کے اظہار کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی رائے سے اختلاف اور اتفاق کی گنجائش موجود ہے۔ تاہم وہ پوری دیانت داری کے ساتھ اپنی رائے پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک شاندار کیریئر گزارا۔ مختلف ادوار میں انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کی کوششیں بھی ہوئیں۔ لیکن ان کے مطابق ان کے طویل کیریئر میں تمام تر کوششوں کے باوجود کبھی ایک روپے کی مالی بدعنوانی ثابت نہیں ہوسکی۔
اختلاف معاشرے کا حسن ہوتا ہے۔ اُمید ہے اوریا صاحب کے انٹرویو کو اسی تناظر میں دیکھا جائے گا۔ اوریا مقبول جان کے مخالفین بہت سے اعتراضات اُٹھاتے ہیں، اس انٹرویو میں بھی ان سے کئی تلخ سوالات کیے گئے، جن کا انہوں نے خندہ پیشانی کے ساتھ جواب دیا۔چونکہ ہندوستان میں بھی اوریا مقبول جان کو پڑھنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے لہذا ادارہ ”دلیل“ پاکستان کےشکریہ کے ساتھ ہم اسے یہاں شائع کررہے ہیں۔ ’’ادارہ معیشت‘‘

سوال: اپنی ابتدائی زندگی سے متعلق کچھ بتائیں، کچھ خاندانی پس منظر بھی۔
اوریا مقبول جان: میں بہت سے نشیب وفراز سے گزرا۔ خاندان اوسط درجے کا تھا۔ آج جس جگہ ہوں، خاندانی پس منظر کی وجہ سے یہاں پہنچنے کا تصور بھی ممکن نہ تھا۔ معاشی حالات اچھے نہیں تھے۔ آپ کو کچھ پس منظر بتاتا ہوں شاید اندازہ ہوجائے۔ میرا پورا خاندان صدیوں سے قال اللہ و قال الرسول کے ساتھ وابستہ رہا۔ دادا عالم دین تھے، ’’مکیریا‘‘ سے ہجرت کرکے امرتسر آئے۔ وہاں کی مشہور مسجد ’’خیر الدین‘‘ میں خطیب ہوئے۔ یہاں کبھی مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ بھی جمعہ پڑھانے آتے۔ دادا کے بھائی مولوی احمد بخش بھی ساتھ تھے، وہ بھی مشہور خطیب رہے۔ غالباً 1858ء یا 59 کا سال تھا، جب یہ لوگ امرتسر آئے۔ انجمن اسلامیہ امرتسر کا قیام اسی عرصے عمل میں آیا۔ وہاں اسکول کی تعمیر ہوئی، دادا اور ان کے بھائی نے اسی اسکول میں تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ 1908ء میں دادا کا انتقال ہوا۔ اہلیہ بھی پہلو میں دفن ہوئیں۔ بعد میں، میں امرتسر گیا تو ان کے لیے وہاں کے مسلمانوں میں بہت احترام دیکھا۔ نانا بھی ایک مسجد کے امام تھے۔ تصوف سے گہرا تعلق۔
دادا کا انتقال ہوا تو والد صاحب صرف چھ ماہ کے تھے۔ دادی نے انہیں پالا پوسا، ان کی تربیت کی۔ 1947ء میں پاکستان بنا، تو والد صاحب ہجرت کرکے فیصل آباد آگئے۔ میری پیدائش بھی وہیں ہوئی۔ والد صاحب نے دو شادیاں کی تھیں، دوسری شادی سے میں ان کی پہلی اولاد تھا۔ بعد میں ہم گجرات آگئے، وہاں ابتدائی تعلیم شروع کی۔ گریجویشن ڈگری کالج گجرات سے کی۔ گریجویشن تک مگر کئی نشیب وفراز کا سامنا رہا۔ میں بارہ سال کا تھا، جب والد صاحب سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوگئے۔ ان کی معاونت ہر طرح سے شامل حال رہی، اس کے باوجود مگر بہت سی مشکلات سے خود نمٹنا پڑا۔ جزوقتی ملازمتوں کے ساتھ ماسٹرز کی ڈگری لی۔ میرے نمبر بہت اچھے تھے، کسی بھی ملازمت کے لیے میری پوزیشن مضبوط۔
باقاعدہ کیریئر کا آغاز ماسٹرز کے بعد کیا۔ مجھے یاد ہے ڈاکٹر رشید چوہدری مرحوم نے میرا زبانی امتحان لیا۔ وہ اس وقت ’’فاؤنٹین ہاؤس‘‘ لاہور کے سربراہ تھے۔ کافی متاثر ہوئے، کہا: کہیں اور نہیں جانے دوں گا۔ اسی دوران میں اقوام متحدہ کا ایک پروگرام شروع ہوا، اسے ریسرچرز کی ضرورت تھی۔ وہاں بھی اپلائی کیا اور منتخب ہوگیا۔ ایک ہی وقت میں دونوں کے ساتھ وابستگی اختیار کرلی۔ میری زندگی کے تین خواب تھے، جو اللہ نے پورے کیے۔ ان میں سے ایک لیکچرر شپ۔
یہ1979ء جنوری کا مہینہ تھا۔ میں نے بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ میں لیکچرر شپ کے لیے درخواست دی۔ اسی دوران میں اقوام متحدہ کے UNDP پروگرام میں بھی قسمت آزمائی کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 6 مارچ کو اقوام متحدہ کی طرف سے کال آئی کہ آپ کا انتخاب کرلیا گیا ہے۔ آپ چھ ماہ میں جنیوا رپورٹ کردیں۔ اسی تاریخ کو بلوچستان یونیورسٹی میں میرا انٹرویو تھا۔ مجھے آج بھی وہ منظر یاد ہے۔ سردیوں کا موسم، چاروں طرف شیشے کی کھڑکیاں، شفاف آسمان سے اُترنے والی سورج کی کرنیں، جو جسم کو عجیب سکون کا احساس دلارہی تھیں۔ انٹرویو سے فارغ ہوا، اوپر کی منزل سے نیچے اُترنے لگا تو بتایا گیا کہ آپ منتخب کرلیے گئے ہیں۔ شش وپنج میں مبتلا۔ ایک ہی دن میں دو پرکشش ملازمتیں۔ ایک طرف خواب کی تکمیل، دوسری طرف پُرآسائش زندگی میری منتظر۔ ایک طرف پینتیس ہزار کی ناقابلِ یقین سیلری اور دوسری جانب محض نوسو روپے تنخواہ۔ مجھے لیکن فیصلہ کرنے میں زیادہ دِقت نہ ہوئی۔ یہی طے کیا کہ لیکچرر شپ کے اپنے خواب کو تعبیر دوں گا۔ 18 مارچ 1980ء کو میں بلوچستان یونیورسٹی میں ملازم ہوگیا۔ شادی کوئٹہ میں ہی ہوئی۔ میں اور میری اہلیہ ایک ساتھ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ ساتھ ہی گھر تھا۔ پیدل آتے، پیدل چلے جاتے۔ اس دور کی بہت خوبصورت اور دلنشین یادیں آج بھی ذہن میں تازہ ہیں۔
سوال: سول سروس میں کب اور کیسے آئے؟ کیا لیکچرر شپ سے دل اُچاٹ ہوا؟
اوریا مقبول جان: اس کی کہانی بہت دلچسپ ہے۔ 1983ء میں ’’تحریک بحالی جمہوریت‘‘ چل رہی تھی۔ ضیاء الحق نے سندھ، بلوچستان کو خوش کرنے کے لیے خصوصی مقابلے کا امتحان کروایا۔ میری عمر اس وقت مقررہ حد سے گزرچکی تھی، تاہم اس اعلان کے ذریعے ایک دو سال کی رعایت دی گئی تھی۔ نتیجے میں ایک بڑی تعداد اکیڈمی میں وارد ہوگئی۔ تقریباً دو سو افراد۔ زیادہ تر کا تعلق سندھ اور بلوچستان سے تھا۔ جب اعلان ہوا،امتحان میں صرف ایک ڈیڑھ ماہ باقی تھا۔ غالباً جولائی کی آخری تاریخ کو فارم بھیجا۔ ستمبر کی پندرہ یا سولہ تاریخ کو امتحان تھا۔ اللہ پر توکل کرکے امتحان دے دیا۔ حیران کن طورپر کامیابی ملی اور 18 اکتوبر 1984ء کو سول سروس جوائن کرلی۔ دو سال اکیڈمی میں رہا۔مجھے پنجاب کا مزاج ویسے ہی راس نہیں آتا۔ ضیاء الحق ہمارے پاسنگ آؤٹ پریڈ میں آئے تھے، میں نے ان سے درخواست کردی کہ بلوچستان ہی میں میری تعیناتی کردیں۔ وہ بہت حیران ہوئے، مجھے ان کا جملہ آج بھی یاد ہے۔ کہنے لگے: ’’بلوچستان تو کوئی جانا پسند نہیں کرتا، لوگ سکھر سے آگے جانا نہیں چاہتے۔‘‘ خیر! ضیاء الحق نے آفتاب احمد سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو اسی وقت بلایا اور کہا: ’’اس بندہِ صحرائی کا آج نوٹیفکیشن ہوجانا چاہیے۔‘‘
لیکچرر شپ کے بعد سول سروس کا آغاز وہیں سے کیا۔ 24 سال گزاردئیے۔ پرویز مشرف نہ آتے تو شاید وہیں رہتا۔ وہ چاہتے تھے میں بلوچستان میں نہ رہوں۔ اس کی لمبی داستان ہے، اسے اب چھوڑتے ہیں، زندگی رہی تو پھر کبھی سہی۔
سوال: بیورو کریسی میں رہ کر شاعری اور لکھنے پڑھنے کا شغف کیسے پال لیا؟ کیا کوئی یہ خاندانی اثرات تھے؟
اوریا مقبول جان: میں بنیادی طور پر شاعر ہوں۔ مجھ سے کوئی پوچھے: میں کس صنف کو پسند کرتا ہوں تو وہ شاعری ہے۔ 1987ء میں میری پہلی کتاب ’’قامت‘‘ کے نام سے چھپ کر آئی، شاعری کا مجموعہ۔ شاعری کا آغاز کیسے کیا، یہ بھی دلچسپ کہانی ہے۔ اسکول کے زمانے میں تقریریں کیا کرتا تھا۔ علامہ اقبال کی برسی پر ایک بار تقریر کے لیے کہا گیا۔ اقبال کی شخصیت پر شعر تلاش کرنے تھے، جس سے تقریر کاآغاز کرتا۔ کافی تلاش کیا، مگر مایوسی ہوئی۔ چنانچہ خود ہی چند مصرعے لکھنے کی کوشش کی۔ جب تقریر اپنے ہی کہے ہوئے اشعار سے شروع کی تو اساتذہ کو خوشگوار حیرت ہوئی۔ تقریر کے بعد اساتذہ نے اس بارے میں پوچھا، انہیں بتایا تو انہوں نے کافی حوصلہ افزائی کی۔ اس وقت میں چھٹی کا طالب علم تھا۔ بعد میں گیارہویں جماعت سے میری غزلیں چھپنا شروع ہوئیں۔ شاعری میں سیاست بھی تھی اور رومانویت بھی۔ مگر رومانویت کا رنگ غالب تھا۔ پہلی کتاب ’’قامت‘‘ چھپی تو اس پر تبصرے یہی تھے کہ یہ ایک رومانوی شاعر ہیں۔
سوال: رومان کا ذکر آگیا، شاعری اور عشق کا آپس میں گہرا تعلق ہے، کبھی عشق بھی کیا؟
اوریا مقبول جان: میری شادی ہی عشق کے نتیجے میں ہوئی۔ اہلیہ کا قد کافی بلند تھا، سو پہلی کتاب کا نام بھی انہیں سامنے رکھ کر ’’قامت‘‘ رکھا۔
سوال: آپ نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامہ لکھا۔ کتنی تعداد ہے؟ ڈرامہ لکھناکیسے شروع کردیا اور کسی ڈرامے میں غالباً اداکاری بھی کی؟
اوریا مقبول جان: پہلی کتاب کی تقریب رونمائی میں جتنے آرٹیکلز پڑھے گئے، ان کا خلاصہ یہ تھا کہ ان کی شاعری ’’منظوم ڈرامہ‘‘ ہے۔ ڈرامہ لکھنے کا آغاز کچھ اس طرح سے ہوا، میں اس وقت اسسٹنٹ کمشنر کوئٹہ تھا۔ ’’پالیشا‘‘ کے نام سے ایک ڈرامہ چل رہا تھا۔ اس کا کاؤنٹر رول ایک ڈپٹی کمشنر کا تھا۔ Robert Sandman نام تھا۔ بعد میں وہ گورنر ہوجاتا ہے۔ اس کا کردار لکھنے کے لیے کچھ مشکل درپیش تھی۔ لکھنے والی ٹیم میں کمشنر عزیز لوری صاحب بھی تھے، پڑھے لکھے آدمی تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا۔ میں نے گزارش کی: ’’لکھ لوں گا، غیرحقیقی کردار مگر نہیں ہونے چاہییں۔‘‘ ہم دیکھتے رہے تھے کہ انگریز کو غیرحقیقی روپ میں پیش کیا جاتا تھا۔ مثلاً: ’’پالیشا‘‘ انگریز کے دفتر کے دروازے کو لات مارتے ہوئے اندر داخل ہوتا ہے اور کہتا ہے: ’’اوئے ڈپٹی کمشنر!‘‘ حالانکہ حقیقت کی دنیا اس سے بالکل مختلف ہے۔ پھر اس انگریز سے ایک خاص قسم کے لہجے میں اُردو بلوائی جاتی تھی۔
خیر! ہم نے رابرٹ سینڈمن کی بیوی کا فرضی کردار تخلیق کیا۔ وہ اسکاٹ لینڈ سے ہوتی ہے۔ اسکاٹ لینڈ والے برطانیہ کو پسند نہیں کرتے، نفرت کا رشتہ ہے۔ ہم نے اس کردار میں رابرٹ کی بیوی کو گھر کے اندر عوام کی ترجمانی کرتے دکھایا۔ انہی دنوں برطانیہ سے ایک اداکارہ آئی تھیں: کیتھرین بولڈن۔ یہ طے ہوا کہ اس سے انگریزی بلوائیں گے اور اُردو میں سب ٹائٹل چلا دیں گے۔ پاکستان میں اداکاروں کو تلاش کیا، لیکن جس کی انگریزی اچھی تھی، اس کی شکل وصورت کا مسئلہ بن جاتا۔ جس کا رنگ بہتر ہوتا، اس کی انگریزی میں دقت آرہی ہوتی۔ چنانچہ مجبوراً مجھے یہ کردار ادا کرنے کے لیے کہا گیا۔ یہ ٹی وی میں میرا پہلا اور آخری کردار تھا۔ اس کے بعد ڈرامہ لکھنے لگا۔ پہلی سیریز ’’روزن‘‘ آئی۔ ’’گردباد‘‘، جو بعد میں کتابی شکل میں بھی چھپا۔ ’’شہزاد‘‘ اور لاہور سینٹر سے ’’قفس‘‘ چلا۔ ’’قافلہ‘‘ کے نام سے سیریز لکھی۔ سترہ سال تک پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامہ لکھا۔ پی ٹی وی کے دو ایوارڈز جیتے: پہلا 1997ء، دوسرا 2007ء میں۔ دس سال سے کوئی ڈرامہ نہیں لکھا۔ البتہ 2013ء تک جو شاعری کی، وہ دوسرے مجموعے کی صورت چھاپنے کا ارادہ ہے۔
سوال: شاعری سے کالم نگاری تک کا سفر، شاعری بالکل ہی ترک کردی۔ شاعر پر کیفیت طاری ہوتی ہے، کیا وہ اب بھی ہوتی ہے یا کالم نگاری نے اسے ختم کردیا؟
اوریا مقبول جان: ہمارے ہاں شاعری سچ کم، یہ مظلومیت کا میڈیا زیادہ بن چکا ہے۔ غزل کے لفظ سے ہی آپ سمجھ سکتے ہیں۔ شاعری کے لیے کچھ خیال آتے ہیں، تو ان کا اظہار کالم میں کردیتا ہوں۔ کالم اسی لیے شروع کیا۔ جب میں ڈرامہ لکھتا تھا، اس میں کچھ کردار تخلیق کردیتا تھا جس کے ذریعے بات ہوجاتی۔ لیکن نائن الیون کے بعد سوچا کیا کرنا چاہیے؟ ابھی نوکری میں 17 سال تھے اور یہ دور کسی بھی سول سروس میں رہنے والے شخص کے عروج کا ہوتا ہے۔ اچھی پوسٹوں پر ترقی ہوجاتی ہے۔ کسی محکمے یا صوبے کی سربراہی مل جاتی ہے۔ میں نے شعوری فیصلہ کیا کہ بات دوٹوک کرنی ہے۔ یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ کسی شعر پر وقت کا حکمران پکڑ کرے اور اسے بتایا جائے میرے مخاطب آپ نہیں، ایوب خان تھے۔ حبیب جالب یہی کہتے تھے: تم لوگ انقلاب کا نام بھی ایسے لیتے ہو، جیسے ’’ہائے! میری جان انقلاب!‘‘
کالم لکھنا شروع کیا، پرویز مشرف کا دور تھا۔ بڑا ہی تکلیف دہ۔ پاکستان کے مسائل پر لکھا جا سکتا تھا، امریکا کا مگر نام لینا جرم تھا۔ آغاز ’’جنگ‘‘ سے کیا۔ ہفتے میں تین کالم طے تھے، تین میں سے بمشکل ایک چھپتا، دو مسترد ہوجاتے۔ یہ دو مضامین ہفت روزہ اخبار ’’ضربِ مومن‘‘ میں چھپنے کے لیے بھیج دیتا۔ بعد میں ’’حکمِ اذاں‘‘ کے نام سے جس کا مجموعہ بھی چھپ گیا۔ اس مرحلے میں کئی کٹھن مراحل کا سامنا کرنا پڑا۔ مثلاً: پرویز مشرف کے دور میں میرے پیچھے نیب لگادی گئی۔ دو سال تحقیقات ہوتی رہیں۔ روز مجھے بلاتے، بٹھاتے اور انکوائری کرتے۔ دو سال بعد نیب سربراہ نے معذرت کی۔ کہنے لگے: ’’ہم نہیں چاہتے تھے کہ آپ کے ساتھ یہ سب ہو، مگر ہم ایسا کرنے پر مجبور تھے۔ اوپر سے دباؤ تھا۔‘‘ دراصل پرویز مشرف مجھے فارغ کرنا چاہتے تھے، مگر اس انداز سے کہ میرے اوپر بدنامی کا داغ لگ جائے۔ اللہ نے میری نصرت کی۔ بدعنوانی کا معمولی الزام بھی مجھ پر ثابت نہیں ہوسکا۔ میں عزت اور احترام کے ساتھ اپنی مدتِ ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہوگیا۔
اس کے باوجود لکھنے سے باز نہ آیا۔ کبھی براہ ِ راست لکھتا، کبھی اپنی بات کہنے کے لیے تاریخ سے کوئی مثال لے آتا۔ مثلاً: ’’بہترین کالم نگار‘‘ کا پہلا ایوارڈ مجھے عدلیہ سے متعلق لکھے کالم پر ملا۔ 2002ء میں پی سی او کے تحت ججوں نے حلف اُٹھایا۔ پاکستان کے عدالتی نظام پر براہِ راست تنقید تو نہ تھی، تاریخ کے واقعات سے مگر میں نے ایسے واقعات چنے کہ بہت سوں کو ناگوار گزرا۔ مثلاً: میں نے لکھا سقراط کا مقدمہ جہاں لڑا گیا، وہ مقام محفوظ ہے، وکیل کا نام تاریخ میں موجود، بادشاہ کا نام ملتا ہے، اس جج کا نام مگر تاریخ کی کتابوں سے مٹ گیا۔ جتنے مشہور واقعات تھے، ان سب کا باری باری ذکر کیا اور لکھا یہ سب نام آج بھی محفوظ، ان کا فیصلہ سنانے والوں کے نام مگر تاریخ نے نفرت کے طورپر بھی محفوظ نہیں رکھے۔ اس کالم پر بہت شور شرابا ہوا۔ اس وقت بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک جج، جو اس وقت بڑا نام ہیں، نے توہین عدالت میں مجھے بلانے کا مشورہ لیا، مگر انہیں بتایا گیا یہ تو ایک ہزار سال پرانی تاریخ ہے۔ موجودہ عدلیہ پر تنقید نہیں، پھرلکھنے والے کو کیسے مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔
سوال: بیوروکریسی میں ایک نام قدرت اللہ شہاب کا ہے۔ انہوں نے دورِ ملازمت کے بہت سے واقعات اور مشاہدات کو ’’شہاب نامہ‘‘ کی شکل میں لکھا، کیا آپ کا بھی ایسا کوئی ارادہ ہے؟
اوریا مقبول جان: ہمارے ہاں یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ سول سروس سے فراغت کے بعد کتاب لکھ دی جاتی ہے۔ دس پندرہ سالوں سے مجھے بھی یہی کہا جارہا ہے کہ مشاہدات لکھوں۔ دوستوں کا بہت اصرار رہا، بزرگوںکا بھی حکم ہوا، مگر بنیادی طور پربات یہ ہے کہ بندہ جس قدر بھی بچنے کی کوشش کرے، لکھے میں ریا کا عنصر آجاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ خوف بھی دامن گیر، کہ اپنی کوئی غلط بات چھپادی یا کسی معمولی واقعے کو بڑھا چڑھاکر پیش کردیا تو ضمیر کا اطمینان نہ رہے گا۔ میں ڈرامہ نگار ہوں، میں سمجھ سکتا ہوں کہ الفاظ کے چناؤ اور جملوں کے برتنے میں افسانے تخلیق ہوجاتے ہیں۔
ویسے میں زندگی کے بہت سے واقعات کالموں میں لکھ چکا ہوں۔ اگر کبھی لکھا بھی تو والدین سے متعلق لکھوں گا، جن کے میرے اوپر بے پناہ احسانات ہیں۔ انہوں نے انتہائی کسمپرسی کے عالم میں، عام سی ملازمت کے ساتھ ہمیں رزقِ حلال سے پالا۔ جب والد اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ترکے میں ایک روپیہ نہیں تھا۔ والدہ نے بڑے صبر اور استقامت کے ساتھ ہمیں جینے کا سلیقہ سکھایا۔ مجھ سے آج کوئی پوچھے اپنی تحریروں میں کونسی زیادہ پسند آئی، تو ان دو کا حوالہ دوں گا، جن میں والدہ کا ذکر کیا۔ والدین نہ ہوتے تو آج میں اس مقام پر بھی نہ ہوتا، نہ رزقِ حلال کے لیے میری یہ تربیت ہوتی۔ میں اگر کوئی نقش ثبت کرسکا تو لکھنے والے اور بہت ہوں گے۔ مرنے کے بعد بھی لوگ چیزیں ڈھونڈلیتے ہیں۔
سوال: کچھ عرصہ قبل ڈی جی نیب نے کہا کہ اداروں میں کرپشن بیگمات کی وجہ سے ہوتی ہے، وہ مجبور کرتی ہیں کہ ہمیں پیسہ لاکر دو۔ آپ کوبھی کبھی زندگی میں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا؟
اوریا مقبول جان: اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں۔ اس نے مجھے ایسی بیوی اور اولاد عطا کی کہ جنہوں نے صبروشکر کے ساتھ نبھا کیا۔ سچی بات یہ ہے کہ میری بیوی اور بچے میرا ساتھ نہ دیتے تو رزقِ حلال کمانا بہت مشکل ہوجاتا۔ بحیثیت لیکچرر آپ ایک ایماندار شخص کی زندگی گزارسکتے ہیں۔ آپ کا اُٹھنا بیٹھنا اپنے ہی جیسی آمدنی والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان کے بچے بھی ویسے ہی اسکولوں میں جاتے ہیں۔ ان کے اہل خانہ ویسے ہی شاپنگ مالز میں خریداری کرتے ہیں۔ تعطیلات کے دن بھی تقریباً سب کے ایک جیسے ہی گزرتے ہیں۔ مگر جب آپ سول سروس میں ہوتے ہیں، اس وقت بڑی مشکل ہوجاتی ہے۔ آپ کے کسی کولیگ کے بچے ملک کے بہترین اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ کبھی سنگاپور چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں، کبھی پیرس اور لندن۔ دبئی اور سوئزرلینڈ سے ان کی خریداری ہوتی ہے۔ یہاں اپنے اوپر جبر کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ مگر اس سب میں میری بیوی کا بڑا اہم رول رہا کہ کبھی یہ نہیں کہا ہمارا مقابلہ فلاں کے ساتھ ہے۔ بچوں میں کسی نے سول سروس میں جانے کا نہیں سوچا، ان کا خیال تھا کہ جتنی مشکل زندگی ہم نے والد کے ساتھ گزاری ہے، شاید خود اپنے طور پر نہ گزارسکیں۔ انہوں نے رزقِ حلال کے لیے دوسرے ذرائع اختیار کیے۔
اپنی مدتِ ملازمت میں تین چیزیں ایسی ہیں، حق کے باوجود جن سے میں نے استفادہ نہیں کیا۔ ایک: سول سروس کے دوران میں کوئی سرکاری پلاٹ نہیں لیا۔ حالانکہ ڈپٹی کمشنر کو پلاٹ ملتے ہیں۔ سرکاری زمینوں پر ’’مقبوضہ ڈپٹی کمشنر‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ عام روایت ہے۔ دوسرا: میں نے زندگی میں کوئی سرکاری اسکالر شپ لے کر خود پڑھا نہ اپنی اولاد کے لیے یہ سہولت حاصل کی۔ تیسرا: سول سروس کے اکثر لوگ کسی نہ کسی بڑے کلب کے ممبر ہوتے ہیں۔ میں آج تک کسی کلب کا رُکن نہیں رہا۔ اگرچہ مجھے ممبرز سے زیادہ وہاں جاکر بات کرنے کا موقع مل جاتاہے، رکنیت مگر میں نے حاصل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ ایک بار سرفراز شاہ صاحب نے مجھ سے کہا: میں نے جم خانہ میں آپ کو بہت بار دیکھا۔ جب انہیں پتا چلا کہ میں رکن نہیں، تو انہیں بڑی حیرت ہوئی۔ کہنے لگے: یہ تو سول سروس کے ساتھ سلی ہوئی آتی ہے۔
آپ اس وقت جس گھر کے اندر بیٹھے ہیں، جو اَب تک مکمل تعمیر بھی نہیں ہوسکا۔ یہ بھی کبھی تعمیر نہ ہوتا اگر مجھے ریٹائرمنٹ کے بعد دو بڑی ملازمتیں نہ ملتیں۔ سرکاری ملازمت کے نتیجے میں اس سے بھی زیادہ کسی ویرانے میں میرا مکان ہوتا۔ مجھے کالم نگاری اور ٹی وی پروگرام سے بہت اچھی رقم مل جاتی ہے۔ میری توقعات سے بھی بہت زیادہ۔ آج اگر میرے پاس یہ مکان ہے تو اس کی رقم ان دو کاموں سے ملنے والا معاوضہ ہی ہے۔
سوال: آپ نے ملازمت چھوڑنے کے باوجود سرکاری مکان اپنے پاس رکھا۔ خاصے اعتراضات ہوئے، کیا بہتر نہ ہوتا بروقت مکان خالی کردیتے؟
اوریا مقبول جان: میں کئی بار وضاحت کرچکا ہوں۔ اسے اُچھالنے میں میرے میڈیا کے کچھ دوستوں کا بھی اہم کردار رہا۔ قرآن کی آیت ہے: ’’ولایخافون لومۃ لائم‘‘ ’’کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔‘‘
جس سرکاری مکان میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی میری رہائش کا شور اُٹھا، قانونی طور پر میں دس ماہ تک اسے رکھنے کا مجاز تھا۔ میں نے ذاتی مکان بنانا شروع کیا تو رقم کم تھی۔ چنانچہ میں نے اپنے چینل سے پیشگی تنخواہ کی درخواست کی اور اسی رقم سے گھر بنانا شروع کیا۔ اپریل 2016ء میں ریٹائرمنٹ ہوئی۔ یکم فروری کو گھر مکمل ہونا تھا، اور مجھے اسی تاریخ کو سرکاری مکان خالی کرنا تھا۔ پندرہ دن پہلے عدالت میں معاملہ لے جایا گیا۔ عدالت سے کہا گیا تو مجسٹریٹ نے پندرہ دنوں کا نوٹس دے دیا۔ بصورتِ دیگر کارروائی کی ہدایت۔ میں نے مجسٹریٹ سے پوچھا تو انہوں نے کہا: مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ اصل واقعہ کیا ہے۔ ’’اب آپ آئیں، میں ریلیف دے دوں گا۔‘‘ میں نے مگر وقتِ مقررہ پر اسے خالی کردیا۔ اگر میں مجرم ہوتا تو آپ کیا سمجھتے ہیں مجھے یہ میرے مخالفین معاف کردیتے؟
سوال: آپ کی تحریر وتقریر میں انتہا پسندی کا عنصر غالب ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کچھ آیات مسلمانوں پر منطبق کردیتے ہیں، کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس طرزِ عمل پر نظرثانی کی ضرورت ہے؟
اوریا مقبول جان: میرا اللہ مجھے کہتا ہے: ’’اشداء علی الکفار۔‘‘ میرے اللہ نے ’’رحماء علی الکفار‘‘ کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ میں کیوں شدت پسند نہ بنوں؟ پوری دنیا مجھ پر حملہ آور ہے۔ جہاں تک آیات یا احادیث کی بات ہے میں نے کبھی غلط انطباق نہیں کیا۔ میں نے آج ہی کالم لکھا ہے۔ بیت المال میں خیانت پر رسولِ رحمت ﷺ نے عبرتناک اور سخت ترین سزائیں دیں۔ ’’عکل‘‘ اور ’’عرینہ‘‘ کے دو افراد اونٹنیوں کو لے کر بھاگ گئے۔ رسول اکرم ﷺ کے علم میں آیا تو کچھ صحابہؓ کو کرزا بن جابر الفہری کے ساتھ کیا اور انہیں پکڑنے کے لیے بھیجا۔ دھرلیے گئے، واپس لائے گئے تو سرکارﷺ نے ہاتھ پاؤں مخالف سمت سے کاٹنے کا حکم دیا۔ یہ سزا دے کر انہیں صحرا میں پھینک دیا، خاک چاٹتے وہاں مرگئے۔ یہ کفار تو نہیں تھے، مسلمان ہی تھے نا۔ حجاج بن یوسف کے پاس ایک آدمی کھڑا تھا۔ اس نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں: میں بہت سخت سزائیں دیتا ہوں۔ اس شخص نے کہا: ’’رسول اکرمﷺ تم سے زیادہ سخت سزائیں دیتے تھے، اگر جرم درست ثابت ہوجاتا۔‘‘ حجاج کے سامنے یہ سزا سنائی گئی تو وہ کانپ گیا۔
میرے رسولﷺ سے زیادہ کوئی نرم دل ہوسکتا ہے۔ جو صرف مسلمانوں کے لیے نہیں، عالمین کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے۔ آج حالت یہ ہے ہمارے علمائے کرام بیت المال میں خیانت کرنے والوں کے پاس جاکر ان سے کہتے ہیں: ’’آپ بکروں کے صدقے دے دیں، اللہ آپ کی مشکلات آسان کرے۔‘‘ خیانت بنیادی طورپر ریاست کے ساتھ غداری ہے۔ عام قتل، چوری اور زنا کی نصوص موجود ہیں۔ یہ شدت پسندی نہیں۔ پورے حرابہ کا باب ہے۔ حضرت عمرؓ نے نجران کے عیسائیوں کو جزیرہ نما عرب سے نکال دیا تھا کہ یہ سود کھاتے ہیں۔ منکرینِ زکوٰۃ کیا تلواریں لے کر کھڑے ہوئے تھے؟ جہاد کو حرام نہیں قرار دیا تھا۔ اسلام کے دیگر ارکان پر عمل پیرا تھے۔ مگر بنیادی طور پر وہ ریاست کے اصول کے خلاف کھڑے ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا۔ میں ان واقعات کا ہی ذکر کرتا ہوں، اپنی طرف سے تو کچھ نہیں کہا۔ کیا اسے شدت پسندی کہیں گے؟ یہ بات وہ لوگ کرتے ہیں جن کی اپنی زندگیاں شدت پسندی اور انتہا پسندی پر مبنی ہیں۔ جنہوں نے کروڑوں لوگوں کو زبان، نسل اور رنگ کی بنیاد پر قتل کردیا۔
سوال: جن نظریات کا پرچار آپ کرتے ہیں، داعش، طالبان بھی وہی کچھ کہتے نظر آتے ہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ ان کے پاکستان میں ترجمان ہیں۔
اوریا مقبول جان: پہلے تو یہ وضاحت کروں کہ میں طالبان اور داعش کو ایک ساتھ جوڑنے کو ہرگز تیار نہیں۔ یہ دونوں بالکل مختلف نظریات رکھنے والے ہیں۔ جہاں تک کچھ نظریات کے آپس میں یکسانیت کا تعلق ہے، ضروری نہیں کہ آپ کا نظریہ کوئی اور استوار کرلے تو آپ اپنا نظریہ چھوڑدیں۔ پاکستانی طالبان کے حق میں کبھی نہیں رہا۔ البتہ افغان طالبان کی بات ضرور کرتا ہوں۔ مجھے کوئی بتائے افغانستان کی چودہ سو سالہ تاریخ میں طالبان سے بہتر کوئی حکومت آئی؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور خلفائے راشدین کے دور کو چھوڑکر ایسا پُرامن دور کسی نے افغانستان میں دیکھا؟ اتنی فعال حکومت کہ دنیا کے اندر ہیروئن کے لیے 91 فیصد پیداوار فراہم کرنے والا ملک زیرو پر آجائے۔ وہ جو ہم سنتے ہیں ایک عورت صنعا سے حضر موت تک سونا اُچھالتی ہوئی سفر کرے گی اور اسے خدا کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا۔ اسے ہم نے اپنی آنکھوں سے افغانستان میں دیکھا۔ قندھار سے ایک عورت چلتے ہوئے کابل پہنچتی اور اسے کوئی فکر نہ ہوتی کہ کوئی اسے لوٹ لے گا۔ میں نے وہاں جاکر حالات اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ State become invisible۔ ’دنیا کی کامیاب ریاست وہ ہے جو نظر نہ آئے۔‘ پولیس نظر نہیں آرہی، لیکن چوراہے پر کوئی سگنل نہیں توڑرہا۔ طالبان نے اسے کردکھایا۔ کوئی شہر ایسا نہیں تھا جہاں سات سے زیادہ نفری ہو۔ بڑے سے بڑے شہر میں دیکھ لیا۔ صرف سات طالبان۔ بہترین انتظامیہ، شاندار حکومت۔ اگر میں ان کا دفاع کرتا ہوں تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟
سوال: جس قدر خوف اور گھٹن کی فضا تھی، اس میں ایسا ہو بھی جائے تو کوئی کمال تو نہ ہوا!
اوریا مقبول جان: آپ وہی کہہ رہے ہیں جو امریکی کہتے ہیں کہ قبرستان کی خاموشی۔ یہ جھوٹ ہے، قطعاً جھوٹ۔ میں افغان سرحد کے قریب ڈپٹی کمشنر رہا، پاکستان میں پانچ کیسز ایسے جانتا ہوں کہ لوگ اپنا انصاف کروانے طالبان کے پاس گئے۔ خوف کی فضا کی بات کررہے ہیں، طالبان کے زمانے میں کوئی ایک لاپتا فرد بتائیں۔ میں آج یہاں کسی مولوی سے تبادلہ خیال کرتا ہوں اور اسے کہتا ہوں کہ یہ بات ایسے ہونی چاہیے تو اسے خوف لاحق ہونے لگتا ہے کہ کہیں شیڈول فورتھ میں نہ ڈال دیا جاؤں۔ کوئی اُٹھاکر نہ لے جائے۔ کمال کرتے ہیں آپ، چار لوگوں کو بھونکنے کی اجازت ہے تو اس کا مطلب لیتے ہیں کہ ہم بہت آزاد ہیں۔ میں ایک بار پھر چیلنج کرتا ہوں کوئی ایک Missing person مجھے طالبان کے زمانے میں بتائے۔ خوف کی فضا وہاں ہوگی جہاں کوئی ایک بھی لاپتا فرد نہ ہو؟
سوال: گلہ کیا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں میڈیا آزاد ہے، ہم اب تک زنجیروں میں جکڑے ہوئے، کیا آپ کو بھی آزادی اظہار میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
اوریا مقبول جان: اقبال کا شعر ہے:
گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادئ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
پاکستان میں میڈیا دنیا کے تمام میڈیا سے زیادہ آزاد ہے۔ امریکا، برطانیہ سے بھی زیادہ آزاد۔ ویسے ہمارے ذہنوں میں بٹھایا گیا ہے کہ میڈیا آزاد نہیں تو ترقی ممکن نہیں۔ بیجنگ یونیورسٹی کا شمار دنیا کی بہترین جامعات میں ہوتا ہے۔ علم کی ترقی گوگل، فیس بک اور یوٹیوب سے تعلق نہیں رکھتی۔ میڈیا کیا کرتا ہے۔ دو چیزیں ہیں جو آپ کا معاشرہ تباہ کرتی ہیں: نصابِ تعلیم اور میڈیا۔ جسے غامدی صاحب سمیت بہت سے کہتے ہیں کہ broad band education، بارہ سال تک ہونی چاہیے۔ اس عمر تک بچے کے اوپر پورا ماحول پینٹ ہوجاتا ہے۔ بچہ سینڈریلا، سنو وائٹ پڑھتا ہے۔ وہ مسجد کی اذان نہیں سنتا، وہ church bells talk۔ وہ ٹارزن اور Santa Claus کی کہانیاں پڑھتا ہے۔ جس میں ٹارزن جنگل میں رہتا ہے، مگر صبح صبح حجامت ضرور بنواتا ہے۔ کارٹون میں ہمارا لباس نہیں دکھایا جاتا ہے تاکہ بعد میں اغیار سے اجنبیت محسوس نہ ہو۔ ایسے ماحول میں پلنے والا بچہ شلوار قمیص پہنے شخص کو جاہل نہ سمجھے تو کیا سمجھے؟ اس کے نزدیک دیہاتی زندگی وحشیوں کی ہوتی ہے۔ اس لیے جب اسے پڑھنے باہر جانے کا موقع ملتا ہے تو سمجھتا ہے میں اپنے خوابوں کی دنیا میں آگیا ہوں۔ یہ تو ہمارے ساتھ ہمارا نصابِ تعلیم اور تعلیمی نظام کرتا ہے۔
دوسرا میڈیا ہے، یہ امیج بناتا ہے۔ آج سے 25 سال پہلے ہر جگہ پر بدمعاش اور غنڈے کی شکل سلطان راہی جیسی ہوتی تھی۔ تلاشی ایسے شخص کی لی جاتی، جس کے کان میں مندری، ہاتھ میں گنڈاسا ہو۔ بڑی مونچھیں اور لمبے اُلجھے بال ہوں۔ گلے میں مفلر یا تہ بند پہنا ہو۔ اب کس کی تلاشی ہوتی ہے؟ جس کے ماتھے پر محراب، سر پہ ٹوپی، چہرے پر ڈاڑھی ہو۔ جو شلوار قمیص میں ملبوس ہو۔ یہ تصویرکس نے بنائی؟ میڈیا نے۔ میڈیا بنیادی طورپر اس لیے کھلا چھوڑا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کا یہی امیج تراشا جاتا ہے، وہ یہ تصویر دکھاتا ہے کہ یہی دہشت گرد ہے۔ عالمی میڈیا ہمارے ساتھ یہی کرتا ہے۔
حالانکہ بات یوں نہیں، میں آپ کے ساتھ کچھ اعدادوشمار شیئر کروں۔ 2017ء میں اب تک سب سے زیادہ دہشت گردی کے حملے انڈیا میں ہوئے۔ میں نے اس پر پورا تفصیلی پروگرام کیا۔ لیکن دہشت گردی کے حوالے سے مشہور ملک پاکستان ہے۔ لندن میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران میں تین ہزار سے زیادہ عورتیں تیزاب گردی کا شکار ہوئیں۔ شرمین عبید مگر ہمارے ہاں پیدا ہوتی ہیں۔ لندن، برطانیہ کا دارالحکومت ہے ، چہرہ مگر کس کا داغ دار؟ دو منٹ سے بھی کم وقت میں امریکا کے اندر ایک عورت کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔ پچھلے سال رپورٹ آئی، امریکی فوج میں جنسی زیادتی کے ساڑھے چھ ہزار کیس فائل ہوئے۔ بڑی تعداد ایسی خواتین کی، جو ذکر تک نہیں کرپاتیں۔ تقریباً تین ہزار عورتیں ہر سال امریکا میں اپنے سابق بوائے فرینڈ کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُترجاتی ہیں، کاروکاری لیکن ہمارے ہاں کی مشہور۔ کتنے ہی واقعات ہیں جو ہمارے پڑوسی ملک بھارت سے ہمیں خبروں کی صورت ملتے ہیں۔ مگر ہمارا ہی دامن داغدار۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ میڈیا ایک تصویر بناتا ہے اور پاکستان میں اس کے لیے خصوصی طور پر کوششیں ہوئیں۔ پاکستان کا خاص طور پر اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہاں فنڈنگ کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ میں سیکرٹری انفارمیشن رہا ہوں۔ پورے ملک کے اشتہارات کا بجٹ 25 ارب سے زائد نہیں۔ اس سے بمشکل دو ٹی وی چینل چل سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس وقت 80 چینل چل رہے ہیں۔ کوئی پوچھ سکتا ہے کہاں سے ان کے لیے پیسہ آرہا ہے؟ کبھی کسی نے پوچھا کہ میری تنخواہ کہاں سے آتی ہے؟ کسی کی 55 لاکھ، کسی کی تیس یا بیس ،اورکچھ کو پندرہ لاکھ ماہانہ مل رہے ہیں، یہ کہاں سے آتے ہیں؟ یہ سوال کوئی نہیں کرے گا۔ اس لیے جو کہا جاتا ہے، وہ کرنا پڑتا ہے۔
سوال: اس آزادی نے مگر آپ کو بھی تو مواقع فراہم کیے۔ آپ کس قدر کھل کر رائے کا اظہار کرتے ہیں، میڈیا کی آزادی نہ ہوتی تو آپ کیا کرتے؟
اوریا مقبول جان: میں ایک گزارش کروں۔ میری کیا حیثیت، مولانا مودودیؒ کو ساری دنیا جانتی ہے۔ تنظیمی لحاظ سے دیکھا جائے تو کسی نے اتنی بڑی جماعت قائم نہیں کی۔ کس ٹی وی چینل پر آکر انہوں نے اپنے آپ کو منوایا؟ کیا کسی ریڈیو سے انہیں یہ مقام ملا؟ میں تحریک کی بات کررہا ہوں۔ یہ لوگ میڈیا کے نہیں تھے، احرار والوں کے پاس کون سا میڈیا تھا۔ ہمارے ہاں جب سے میڈیا آیا ہے، بڑی شخصیتیں بننا بند ہوگئی ہیں۔ میڈیا کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کی ایک حدیث بڑی کمال کی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دجال کی آمد سے پہلے کے کچھ سال دھوکا اور فریب کے ہوں گے۔ فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ہر طرف دھوکا اور فریب ہوگا۔ سچے کو جھوٹا اور جھوٹے کو سچا بناکر پیش کیا جائے گا۔ خائن کو امانت دار اور امین کو خائن قرار دیا جائے گا۔ اور ’’روبیضہ‘‘ خوب بولے گا۔ عرض کیا: ’’یارسول اللہ! روبیضہ کون؟ فرمایا: گھٹیا لوگ جو اہم ترین معاملات پر گفتگو کریں گے۔
آپ آٹھ سے بارہ بجے کا وقت دیکھ لیں، آپ کو پتا چل جائے گا۔ مجھ سمیت ان میں سے کوئی ایک آدمی بتادیں جس نے معاشرے پر دیرپا مثبت اثرات مرتب کیے ہوں؟ مستنصر حسین تارڑ ہمارے دوست ہیں۔ طویل عرصہ پاکستان ٹیلی ویژن سے شو کرتے رہے۔ وہ کہتے ہیں مجھے ٹی وی کی نسبت سے آج کوئی پہچانتا نہیں، آج مگر ایسے لوگ مل جاتے ہیں جنہوں نے سترکی دہائی میں میری لکھی ہوئی کتاب ’’نکلے تری تلاش میں‘‘ پڑھی اور اس کا حوالہ دیتے ہیں۔ الفاظ کی اپنی معنویت ہوتی ہے۔ انقلاب کتاب لے کر آتی ہے، یہ آج کا میڈیا لے کر نہیں آتا۔ وہ جو اقبال نے کہا تھا، وہ اسی میڈیا پر منطبق ہوتا ہے:
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
یہ بنیادی طور پر ’’ساحری‘‘ ہے۔ چار لوگوں کی لڑائی دیکھ کر آپ سکون سے سوجاتے ہیں۔ اسے ’’علاج بالمثل‘‘ کہتے ہیں۔ آپ کے جذبات کا خون ہوتا ہے۔ کہتے ہیں جی! میرا کتھارسس ہوگیا، شیخ رشید نے کہہ دیا جو میرے دل میں تھا۔ انقلاب کا راستہ اسی طرح کھوٹا ہوتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *