
ہمام احمد صدیقی سلطانپور کے رہائشی دہلی میں مقیم سپریم کورٹ کے کامیاب وکیل ہیں۔دہشت گردی سے جڑے بیشمار مقدمات کی آپ نے کامیاب پیروی کی ہے ۔معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم کے طالب علم سفیان خان نے سلطان پور میں قیام کے دوران موصوف کا انٹرویو کیاجسے افادہ عام کی خاطر شائع کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)
سوال : سب سے پہلے آپ اپنا تعارف کرائیں ؟
جواب: میرا نام ہمام احمد صدیقی ہےجبکہ سلطان پور(اتر پردیش )میرا آبائی وطن ہے۔
سوال: آپ کی تعلیمی لیاقت اور تعلیمی مصروفیات کیا رہی ہیں؟
جواب:میں نےایل ایل بی(Legum Baccalaureus in Latin)جسے عرف عام میں (Bachelor of Laws))کہا جاتا ہے اس کی تکمیل کی ہے جبکہ دہلی میں رہتے ہوئے وکالت کرتا ہوں اورسپریم کورٹ کے ساتھ دہلی ہائی کورٹ یا نچلی عدالت کے مقدمات کی پیروی کرتا ہوں۔چونکہ سلطان پورمیراآبائی وطن ہے لہذا نرسری ایجوکیشن سے گریجویشن تک کی تعلیم میں نے یہیں سے حاصل کی ہے۔
سوال: اعلیٰ تعلیم کے لئے آپ باہرکیوں نہیں گئے؟عموماًاس علاقہ کے بچے الٰہ آباد یالکھنؤ کا سفر اختیار کرتے ہیں آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا ؟
جواب: چونکہ گھر کی بعض ذمہ داریاں ایسی تھیں کہ میں گھر چھوڑ کر کہیں اور نہیں جاسکتا تھا لہذا میں نے شروع سے آخر تک کی پڑھائی گھر پر رہتے ہوئے ہی مکمل کی ۔خواہش کے ہوتے ہوئے بھی کہیںباہرنہیں جاسکا۔
سوال: اس وقت روزی روزگار کے مختلف ذرائع موجود ہیں لیکن آپ نے وکالت کے پیشہ کو ہی کیوں پسند کیا ؟
ج۔وکالت ایک معزز پیشہ ہے جس کے ذریعہ بھی خدمت دین کا کام لیا جاسکتا ہے۔میں نے بھی اس پیشہ کے ذریعہ خدمت دین کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے مثلاًمیرا مقصدان بے گناہوں کو انصاف دلانا ہے جو جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار کر لئے گئے ہیںخاص طور سے ان مسلم نو جوانوں کو جو دہشت گردی کے الزام میں ماخوذ ہیں۔اس وقت قانون کے جانکاروں کی بہت کمی ہے خصوصاً ہماری قوم میں اس پیشہ سے وابستہ بہت ہی کم افراد ہیں اور جو لوگ ہیں بھی وہ مسلم بچوں کی بے بنیاد گرفتاری پر خاموش رہتے ہیں اور ان کا مقدمہ نہیں لڑتے یہی وجہ ہے کہ میں نے اس پیشے کو اختیار کیا اور قانون کی پڑھائی کرنے کی کوشش کی۔
سوال:کیاآپ سے پہلےبھی خاندان یا فیملی میں کوئی اس پیشے کو اختیار کئے ہوئے تھا؟
جواب:نہیں ایسا کوئی نہیں تھا۔ میںپہلا شخص ہوںجس نے اس پیشے کو اختیار کیا اور اس کی پڑھائی بھی کی۔
سوال:آپ کے والد محترم کی مشغولیت کیا تھی ؟
جواب: میرے والد محترم ڈاکر تھے۔انہوں نے طبی تعلیم حاصل کی تھی اور اس پیشہ کے ذریعہ خدمت خلق کا فریضہ ادا کرتے تھے۔

سوال:جب آپ کے والدمحترم ڈاکٹر تھے تب تو آپ کو طبی شعبہ سے دلچسپی ہونی چاہئے تھی؟
جواب:یقیناً شروع میں مجھے بھی طبی شعبہ میںدلچسپی تھی لیکن بعد میں مجھے محسوس ہوا کہ میں طبی شعبہ میں بہتر نہیں کرپائوں گا لہذ ااس شعبہ سے علحدگی اختیار کرلی اور وکالت کی طرف مائل ہوگیا۔
سوال:کیا مدرسے کے بچے جنہیں انگریزی زبان نہیں آتی کیا اس شعبہ میں قسمت آزمائی کرسکتے ہیں؟
جواب:انگریزی زبان تو ضروری ہے۔ کیونکہ جب میںایل ایل بی کر رہاتھا تو میرے ایک ٹیچر نے کہا تھا کہ اگر انگریزی زبان پر قدرت نہیںہے تو اس پڑھائی کو چھوڑ دو۔ کیونکہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں انگریزی میںہی مقدمات کی پیروی کی جاتی ہے۔انگریزی زبان میں ہی کاغذات تیار کئے جاتے ہیں اس لئے انگریزی زبان ضروری ہے ۔البتہ مختلف ریاستوں میں علاقائی زبانیں بھی مستعمل ہیں لیکن وہاں بھی علاقائی کے ساتھ انگریزی زبان میں وکالت ھوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اگرہمیں نظیر پیش کرنی ہے اورہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں بھی مقدمات کی پیروی کرنی ہے تو اس کے لئےانگریزی ضروری ہے۔ میں خودہندی میڈیم سے پڑھا تھا لیکن میں نے انگریزی زبان پڑھناشروع کیا اور کوشش کی کہ اس پر قدرت حاصل کرلوں اور الحمد للہ اس میں کامیاب رہا۔
سوال:کیاصر ف ہندی اور اردو پڑھنے والااس فیلڈ میں کامیاب نہیں ہوسکتا ؟
جواب: جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا کہ انگریزی ضروری ہےلیکن اگر کوئی نچلی عدالت میں یا مقامی عدالت میں پیروی کرنا چاہتا ہے تو ہندی اردو کے ذریعہ بھی زندگی کا کاروبارچلا سکتاہے ۔