
ڈاکٹرعبد القادر شمس کےمشن کی تکمیل ہی سچا خراج

مرحوم صحافی کی حیات وخدمات پر مشتمل ’صحافت کا شمس ‘ کا اجرا،دانشوران کا اظہار خیال
ارریا:دہلی کی آرام دہ زندگی چھوڑ کر گائوں کی تنگ گلیوں کی فکر اور اسے سنوارنے کی کوشش وہی شخص کر سکتا ہے جو ایمانی جذبہ اور پہاڑ جیسا عزم رکھتا ہو ۔ صحافی ڈاکٹر مولانا عبد القادر شمس کی شخصیت کچھ ایسی ہی تھی، وہ سکھ کی زندگی چھوڑ کر سیمانچل کی پسماندگی کے خاتمے اور نئی نسل کو پروان چڑھانے کیلئے ہمہ وقت بے چین رہتے تھے۔انہوں نے جہاں صحافت کی بلندیوں کو چھوا ،پوری دنیا میں اپنی اہمیت کا پرچم لہرایا ، وہیںارریا ضلع میں دعوت ٹرسٹ کے زیر اہتمام مدرسہ ، اسکول ، ہیلتھ سنٹر اور رفاہی کاموں کے ذریعہ اپنے مشن کا آغاز کیا ۔اب سچا خراج یہی ہو گا کہ ان کے چھوڑے ہوئے کاموں کو آگے بڑھایا جائے ۔ان خیالات کا اظہار یہاں مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ میں مرحوم کی حیات وخدمات پر مشتمل کتاب’اردو صحافت کا شمس ‘ کے اجرا کے موقع پرمتعدد دانشوران نے کیا۔کمشنر مسٹر اسلم حسن نے کہا کہ بھائی عبد القادر میری زندگی کا حصہ اور میرے مشن کے یار تھے ،وہ ہمہ وقت سماج کو پروان چڑھانے کی فکر میں لگے رہتے تھے،ان کے مشن کی تکمیل کیلئے میں ہر ممکن کوشش کروں گا ۔ جماعت اسلامی کےسابق امیر حلقہ بہار الحاج نیر الزماں نے کہا کہ سیمانچل نےڈاکٹر عبد القادر شمس اور رٹائرڈ جج زبیر الحسن غافل کی شکل میں دو ہیرا کھو دیا ہے،ان کے ناموں پر تعلیمی اور ادبی ادارے قائم کرکے کام کیا جائے ۔جامعۃ القاسم سوپول کے بانی ڈاکٹر مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے کہا کہ نئی نسل کو قلم پکڑنے اور ان کو پروان چڑھانے میں مولانا عبد القادر شمس کا کلیدی رول رہا ہے۔ماہر تعلیم الحاج محمد محسن نے کہا کہ دونوں مرحومین کو جو بھی مہلت ملی اچھے کاموں میں لگایا ،قادر جب بھی دہلی سے ارریا آتے چین سے نہیں بیٹھتے ،کسی نہ کسی خیر کے کام میں لگے رہتے۔تعارفی کلمات میں مرحوم کے رفیق کاراور دعوت ٹرسٹ کے معتمد مولانا محمد عارف قاسمی نے کہا کہ مولانا عبد القادر شمس اور جج زبیر الحسن غافل اس طرح بیچ راستے میں چھوڑ کر چلے جائیں گے ، سوچا نہیں تھا ،لیکن وہ اپنے حصے کا کام کرگئے ،اب اس کی آبیاری اور تکمیل ہم سبھوں کے کاندھوں پر ہے۔صحافی پرویزعالم ،دین رضا اختر ، طارق ابن ثاقب ،مفتی عبد الوہاب ،مفتی انعام الباری،مرحوم کے فرزند عمار جامی متعلم جے این یو کے علاوہ متعدد دانشوران نے خطاب کیا۔کلمات تشکر نوجوان صحافی عبد الواحد رحمانی نے پیش کئے اور کتاب کے مولف صحافی شاہ عالم اصلاحی کی کوششوں کو سراہا ۔ نظامت کی ذمہ داری مولانا شاہد عادل نے نبھائی اور شیخ الحدیث مفتی علیم الدین قاسمی کی دعاء پر مجلس ختم ہوئی۔ا