کوٸ بتلاٶ کہ ہم بتلاٸیں کیا

مشتاق احمد نوری
میں نے اخبار پڑھنا بند کردیا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ جس دن مکمل اخبار پڑھ لیتا ہوں اُس دن مجھ پر یاسیت طاری ہوجاتی ہے۔ روز لا اینڈ آڈر کی ایک جیسی خبریں۔
فلاں نے فلاں کو گولی ماردی
فلاں لڑکی کا ریپ کے بعد قتل کردیا گیا
گاٶں یا شہر میں موٹر ساٸکل سواروں نے فلاں کا دن دہاڑے قتل کردیا
ہاٸیوا ٹرک نے موٹر ساٸیکل سوار کو کچلا باپ بیٹے کی موت
فلاں اے ٹی ایم سے لاکھوں روپٸے کی لوٹ
فلاں فوجی گھر آیا تھا اسے آپسی جھنجھٹ میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا
فلاں جگہ پانچ کڑوڑ مالیت کی انگریزی شراب بر آمد
فلاں جگہ پولیس نے دیسی شراب کی بھٹّی پکڑا مجرم گرفت سے باہر
فلاں جگہ فلاں لوگ سرکار کے خلاف دھرنا پر بیٹھے پولیس کا لاٹھی چارج
اس قسم کی پچاسوں خبروں سے اخبار بھرا ہوتا ہے۔اب آپ خود بتاٸیں کہ ایک حسّاس قلمکار کیا کرے؟ یہ ساری خبریں مایوس کرتی ہیں اور ایک خوف دل میں بیٹھ جاتا ہے کہ کون جانے گھر سے نکلوں تو زندہ واپس آٶنگا یا نہیں۔ خوف کے ساٸے میں زندگی کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے اسے آپ بھی محسوس کرسکتے ہیں۔
آخر بہار کو کس کی نظر لگ کٸ ؟ اس پردے کے پیجھے کی وجوہات کیا کیا ہیں اسے تلاش کرنا ہوگا۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی سے کسی کا بھلا نہیں ہوگا۔ سرکار اور اپوزیشن کو بہار کے حق میں مل بیٹھ کر کوٸ ایسی ترکیب نکالنی ہوگی کہ بہار کے اچھے دن لوٹ آٸیں۔
میں نتیش کمار جی کو جانتا ہوں کہ وہ بہت سوچ سمجھ کر کوٸ قدم اٹھاتے ہیں۔ شراب بندی کی بات کریں تو انہوں کڑوڑوں کا نقصان برداشت کرکے شراب بندی لاگو کی تھی۔خوب گرفتاریاں ہوٸیں لوگ جیل بھیجے گٸے عورتیں خاص طور سے خوش ہوٸیں کہ وہ شرابی شوہر کی پڑتارنا سے بچ گٸیں۔ لیکن اس بار نٸی سرکار کے وجود میں آتے ہی کراٸم کا گراف بڑھنے لگا۔جسطرح برسات میں میڈک کی تعداد بڑھ جاتی ہے اسی طرح اس بار کراٸم میں اضافہ ہوتا رہا۔ پہلے شراب اکا دکا پکڑ میں آتا تھا اب ہزاروں بوتل گوڈان میں بند پکڑے گٸے۔اتنی آسانی سے بہار میں اتنے بڑے پیمانے پر ٹرک میں بھر کر شراب کیسے پہنچ گٸی ؟ اس علاقے کی پولیس کیا کررہی تھی۔ ایک بار میں نے ہندی کے ایک بڑے اخبار کے رپوٹر سے پوچھا شراب بند ہے تو سپلاٸے کیوں نہیں رک رہی۔اس نے بتایا کہ یہ بڑے بڑے نیتا کے اشارے پر پولیس کے سنرکچھن میں ہوتا ہے اب پینے والے شراب لانے نہیں جاتے بلکہ ہوم ڈیلیوری کی جاتی ہے۔ اگر یہ سب ہورہا ہے سرکار کو بھی معلوم ہونا چاہٸے۔وزیر اعلیٰ پختہ ارادے کے مالک ہیں اور کڑے فیصلے کرنے کے لٸے مشہور ہیں۔پولیس پر سختی کرنی ہوگی اس سلسلے میں سخت قانون بھی بناٸے گٸے ہیں اگر پولیس کی ناک کے نیچے یہ سب ہورہا ہے تو پولیس کو جانچ کے بعد سیدھے برخواست کردیا جاٸے دوچار فیصلے سختی سے ہونگے تو پولیس مستعید ہوجاٸے گی۔
بہت سے معاملے میں پولیس کی لاپرواہی سامنے آٸی ہے تازہ مثال روپیش کمار کا قتل ہے۔پولیس نے قتل کی جو کہانی سناٸی ایسا لگا کہ پانچویں کلاس کا کوٸی بچہ کہانی گڑھ رہا ہے۔اس کہانی سے یہ محسوس ہوا کہ کسی ” بڑی مچھلی “ کو بچانے کے لٸے چھوٹی مچھلی قربان کی جارہی ہے۔جس نے قبولا کہ سب اسی نے کیا اس کا کیا ہوگا اسے پولیس ہی آسانی سے نکلنے کا راستہ فراہم کردےگی۔ بہار کے وزیر اعلیٰ یوں تو نتیش کمار جی ہیں لیکن اس بار وہ مکمل آزاد نہیں لگ رہے بلکہ بتیس دانتوں کے بیچ ان کی حیثیت زبان جیسی ہوگٸی ہے اور وہ چاہ کر بھی ” کٹھور فیصلے “ نہیں لے پارہے ہیں اور بھاجپا یہ چاہتی ہے کہ انہیں اسی طرح بدنام کیا جاٸے اور وقت آنے پر ناکامی کا سارا ٹھیکرا انہیں کے سر پھوڑدیا جاٸے۔ سرکار آج بھی چاہ لے تو روپیش کمار کے اصل قاتل چوبیس گھنٹے کے اندر گرفتار ہوسکتے ہیں ۔ یہ معاملہ سرکار کے لٸے لٹمس ٹیسٹ جیسا ہے۔
قتل اور ریپ رکنے کا نام نہیں لے رہے۔سماج کو محفوظ رکھنے کی ذمہداری پولیس کی ہوتی ہے۔پولیس کپتان اگر ہمت دیکھاٸیں تو ان کے ضلع میں کراٸم کنٹرول ہوسکتا ہے بشرطیکہ ان پر ”باہری“ دباٶ نہیں بنایا جاٸے۔ انصاف کے معاملے کو پیچیدہ نہ بنایا جاٸے اور مجرموں کو سخت سزا دینے کے لٸے ہماری عدلیہ کو بھی سرکار کا ساتھ دینا ہوگا۔
اس بار سات نشچے پر زور دیا جارہا ہے گھر گھر پانی فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن آٸے دن یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ نل تو لگ گیا پانی نہیں آرہا۔میں جب گاٶں گیا تو دروزے پر دونل لگے ملے جو غلط جگہ لگے تھے میں نے بھاٸیوں سے پوچھا کہ اس جگہ کیوں لگوایا جواب ملا کہ نل لگانے والے کی مرضی ہم لوگوں نے صحیح جگہ بتاٸ لیکن مستری نے کہا کہ یہیں لگےگا۔ پانی کا ٹنکی بھی بن کر تیار ہے بغل میں ٹرانسفارمر بھی لگا ہے لیکن پانی کی ایک بوند نصیب نہیں۔سرکار کے پیسے کا بندر بانٹ ہوگیا لیکن وزیر اعلی کے پروگرام کو انہیں کے عملوں نے انجام تک نہیں پہونچایا۔یہ ہرگاٶں کی کہانی ہے بلاک کے افسروں پر ذمہداری سوپنی ہوگی کہ وہ اپنے علاقے میں جاکر اوچک نرکھشن کریں اور جو ذمہدار ہوں اس کے خلاف قانونی کارواٸی کریں ۔اگر ایسا نہ ہوا تو سی ایم کی ساری یوجناٸیں یونہی ناکام ہوجاٸینگی۔سرکار نے ساٸیکل اور پوشاک یوجنا میں جسطرح سدھار کیا وہی طریقہ دیگر یوجنا کے لٸے بھی اپنانا ہوگا۔
نتیش کمار کو معلوم ہے کہ ان کے سوکالڈ چاہنے والے ہی انہیں بدنام کرنے کی کوشش کرہے ہیں اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کچھ خاص لوگوں کے اشارے اور ان کی سرپستی میں کراٸم کا گراف بڑھ رہا ہے۔پھر بھی وہ اگر چاھ لیں تو کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ان کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگاٸیں کہ وہ پی ایم سے ملنے کے بعد کسان بل کی حمایت میں بیان دے بیٹھے جبکہ اس سے قبل وہ چپ تھے۔
ابھی پورا ہندوستان اتھل پتھل کا شکار ہے کبھی کچھ بھی ہوسکتا ہے” ہم دو ہمارے دو “ کا نعرہ پالیامنٹ میں لگ چکا پی ایم نے ان لوگوں کی تعریف پارلیامنٹ میں کرکے ایک نذیر قاٸم کردی اتنے بڑے کسان آندولن پر ایک لفظ نہیں کہا جبکہ دوسرے ملکوں کی بڑی ہستیاں کسانوں کے حق میں آواز اٹھانے لگی ہیں اور سرکار ” ہمارا اندرونی معاملہ ہے “ کہ کر کنّی کاٹ رہی ہے جو پورے ملک کی تباہی کی جانب اشارہ کرہا ہے۔
نتیش کمار جی کو بہار کے صاف ستھرے امیج کو بچانے کے لٸے تھوڑا نڈر ہوکر فیصلہ کرنا ہوگا ورنہ ان کے اپنے کہینگے ” ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبینگے۔