
بے حسی تو عام بات ہے ،اب تو شکوہ بھی گناہ ہے
دانش ریاض، معیشت،ممبئی
یہ کوئی پندرہ برس پرانی بات ہے۔ نوجوانوں کے ایک گروپ پر غلبہ دین کا سودا سمایا ہوا تھا۔وہ اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ کرنا چاہتے تھے اور اس کے لئے خود بھی ان لوگوں کے نقش قدم پر چلنا چاہتے تھے جو اسلاف کہلاتے ہیں۔انہوں نے ملک بھر میں اس کی تحریک چلائی اور ابلیسی ٹولوں میں کہرام مچادیا ۔اسی دوران کچھ لوگوں کو ایسا محسوس ہوا کہ کہیں یہ ملت کے اجارہ دار نہ بن جائیں لہذا رقیب بن کر تھانے میں رپٹ لکھوانا شروع کردیا اور یہ شکایت درج کروائی کہ اس دور میں بھی کچھ لوگ خدا کا نام لینا چاہتے ہیں لہذا ان پرکارروائی لازم ہے۔ابلیس کے نمائندے پہلے سےگھات لگائے بیٹھے تھے ،انہوں نے آناً فاناً ایسی کارروائی کی کہ سیکڑوں گھر آہ و بکا کا نظارہ پیش کرنے لگے۔جب ظلم کا ٹانڈو تھوڑا کم ہوا تو سیکڑوں نوجوان جو سلاخوں کے پیچھے بھیج دئے گئے تھے۔ ان کی ضمانتیں منظور ہونی شروع ہوئیں اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ جس ملت کے نام پر وہ سنت یوسفی ادا کرنے گئے تھے وہی ملت ان کی ضمانت لینے کو تیار نہ تھی اور پھر غیر مسلموں نے ان کی ضمانتیں کروائیں اور پھر وہ رہائی کی دہلیز تک پہنچے۔
دوتین روز قبل جب میں نے مولانا عمر گوتم کی بیٹی کا دردچھلکتے دیکھا تو محسوس ہواکہ اس معصوم بہن نے بےجا ہی شکوہ کیا ہے یہ ملت توآرین خان کی ماں(Gauri Chhibber) گوری چھبر کا درد محسوس کرتی ہےاسے ملت کی اس بیٹی کا درد کیونکر محسوس ہوگا جو دین کے نام پر ظلم و ستم برداشت کررہی ہو ۔ اس ملت کے بزرگان تو اپنی امارت قائم کرنے میں کروڑوں روپیہ بریانی پر صرف کرتے ہیں لیکن انہیں اس بات سے کیا خبر کہ کوئی دین کے نام پر سوکھی روٹی سے بھی محروم ہورہا ہے۔ اس ملت کے ذی ہوش تو جلسے جلوس،ویبی نار اور سیمینار پر لاکھوں روپیہ خرچ کرسکتے ہیں لیکن انہیں کسی ایسے جلسے کی کیا حاجت جہاں دین کے نام پر لوگوں کو پریشان کرنے والوں کے خلاف لام بندی کی گئی ہو۔
ہاں دین کے نام پر ایک کاروبار میں برسوں سے دیکھ رہا ہوںوہ یہ کہ
مہاراشٹر کا مسلمان آسام اور تریپورہ میں ہورہے ظلم پر تومچل جاتا ہے لیکن مہاراشٹر میں ہی مسلمان کسی مسلمان پر ظلم کررہا ہو تو اس پر جوں تک نہیں رینگتی۔
بہار کا مسلمان دین و شریعت بچانے میں لاٹھی ڈنڈے کے ساتھ سڑکوں پر نکل آتا ہے لیکن جب اسی بہار میں کسی مسلمان کی ہندتوا وادی لنچنگ کردیتے ہیں تو اس کا خون جوش نہیں مارتا۔
اترپردیش کا مسلمان لال ٹوپی پہن کر سلامی مارنا تو فخر سمجھتا ہے لیکن جب کسی رامپوری ٹوپی کی عزت اترتی ہے تو خاموش تماشائی بن جاتا ہے۔
دراصل ہمارے لیڈران کشمیر میں امن کی بحالی کے لئے جنیوا تو چلے جاتے ہیں لیکن معصوم بلکتے بچوں کے قتل عام پر وہ پارلیمنٹ اسٹریٹ پر بھی جمع ہونا توہین سمجھتے ہیں۔
ہمارے لیڈران چار مینار سے نکل کر قطب مینار پر دھرنا دینے تو چلے آتے ہیں لیکن مینار کے کونے میں روزبروز اٹھتی عمارت کو منہدم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
وہ ملت کو لکھنوی بھول بھلیوں کےاندر تو لے جاتے ہیں جو ایک دروازے سے دوسرے دروازے کا سفر طے کراتا رہے لیکن اس راستے کی طرف رہنمائی نہیں کرتے جو قلعے سے باہر نکالتاہو۔
چونکہ اس وقت ہندوستان میںاسلام کاروباریوں کے حصار میں ایسا گرفتار ہوگیا ہےکہ اقراری اور انکاری دونوں اس سے مستفید ہورہے ہیں۔
اقراری جبہ و دستار کے حصار میں استفادہ کررہا ہے جبکہ انکاری جبہ ودستار کے اشتراک سے استفادہ کررہا ہے ۔
پریشان تو وہ لوگ ہیں جو اسلام کے پرستار ہیں لہذا انہیں نہ انکاری پسند کررہے ہیں اور نہ ہی اقراری ۔
اب فیصلہ آپ کے ہاتھ ہے ،آپ اقراری بننا چاہتے ہیں یا انکاریوں کےساتھ صف بستہ ہونا چاہتے ہیں ۔کیونکہ فائدہ دونوں جانب ہے۔
لیکن اگر غلطی سے آپ پرستاران مصطفیﷺ ہیں تو یاد رکھیں موجودہ دور میں آپ کا شکوہ کرنا بھی اقراری و انکاریوں کو پریشان کرسکتا ہے۔کیونکہ ان کے پاس علامہ اقبال کا بہترین شعر ہے
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور