دہلی وقف بورڈ نے کیا جامع مسجد کی مرمت کا فیصلہ

ملک اصغر ہاشمی/ نئی دہلی

دہلی وقف بورڈ نے جامع مسجد کی مرمت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وقف سیکشن آفیسر محفوظ محمد کے مطابق تحفظ کا منصوبہ فی الحال اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے۔ بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان کے مسجد کا دورہ کرنے کے بعد محکمہ کے انجینئرز اور کنزرویشنسٹ کی ٹیم نے مسجد کا معائنہ کیا۔ اس کے بعد فوری طور پر مرمت کا فیصلہ کیا گیا۔

مسجد کے جن حصوں کی مرمت کی اشد ضرورت ہے ان میں اس کے چھوٹے گنبد، مینار اور چبوترے شامل ہیں۔محفوظ محمد نے کہا کہ تقریباً ایک ماہ قبل، جب جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے مسجد کے چھوٹے گنبد اور چھت کی مرمت کے لیے پہل کی، تو سوشل میڈیا پر اس کو سراہا ہے۔ بہرحال کچھ لوگوں نے مرمت میں سیمنٹ کے استعمال پر مایوسی کا اظہار کیا۔

جامع مسجد کی پوری عمارت سرخ پتھر سے بنی ہے۔ اس کے گنبد میں سفید سنگ مرمر کا استعمال ہوا ہے جو کہ اس کی سب سے خوبصورت خصوصیت ہے۔ یہ شرم کی بات ہے کہ (مغل شہنشاہ) شاہ جہاں کے دور میں تعمیر ہونے والی یادگار کا یہ حشر ہورہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مرمت میں سمینٹ کگا استعمال کیا گیا ہے۔ جبکہ سیمنٹ نہ صرف مسجد کی خوبصورتی کو متاثر کرے گا بلکہ طویل مدت میں اس کے ڈھانچے کو بھی بری طرح متاثر کرے گا۔

لیکن شاہی امام کے اقدام کی حمایت کرتے ہوئے محمد محفوظ نے کہاکہ اس وقت عمارت کے دوسرے حصوں، چھوٹے گنبد اور جامع مسجد کی چھت سے پانی کے اخراج کو روکنے کے لیے سیمنٹ کے استعمال کی فوری ضرورت تھی۔

محمد نے کہا کہ صرف سیمنٹ ہی پانی کے اخراج کو روک سکتا تھا،انہوں نے مزید کہا کہ جامع مسجد کے کئی حصوں میں فرش اور پتھروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ بورڈ کے چیئرمین نے رواں ماہ پوری مسجد کی مرمت شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہاں تک کہ اگر کوئی سرکاری ادارہ اس مقصد کی حمایت کے لیے آگے نہیں آتا ہے، کسی بھی قسم کی فنڈنگ ​​یا تعاون کا خیرمقدم کیا جائے گا۔

جامع مسجد کے بارے میں ان باتوں کا جاننا کیوں ضروری ہے؟

جامع مسجد کو کون نہیں جانتا جو دہلی کے تاریخی ورثے میں سے ایک ہے۔ پرانی دہلی میں لال قلعہ کے سامنے یہ بڑی مسجد صدیوں سے راجدھانی کا فخر بڑھا رہی ہے۔

آج بھی یہاں روزانہ ہزاروں لوگ عبادت کے لیے آتے ہیں۔ یہ مسجد مغل حکمران شاہ جہاں کے شاندار فن تعمیراتی جمالیاتی احساس کا نمونہ ہے جس میں 25000 لوگ اکٹھے بیٹھ کر نماز ادا کر سکتے ہیں۔ ایسے میں آپ کے لیے جامع مسجد کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔

آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک جامع مسجد کی تاریخ کیا ہے۔دہلی کی جامع مسجد مغل بادشاہ شاہ جہاں نے بنوائی تھی۔ اس مسجد کی تعمیر کا کام 1650 میں شروع ہوا تھا۔ یہ 1656 میں مکمل ہوئی تھی ۔ مسجد کے برآمدے میں تقریباً 25 ہزار افراد ایک ساتھ نماز ادا          سکتے ہیں۔ اس مسجد کا افتتاح بخارا (موجودہ ازبکستان) کے امام سید عبدالغفور شاہ بخاری نے کیا۔

مورخین بتاتے ہیں کہ جامع مسجد کو پانچ ہزار سے زیادہ مزدوروں نے مل کر بنایا تھا۔ اس وقت اسے بنانے میں تقریباً 10 لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ اس میں داخل ہونے کے لیے تین بڑے دروازے ہیں۔ مسجد میں دو مینار ہیں جن کی اونچائی 40 میٹر (تقریباً 131.2 فٹ) ہے۔

لاہور، پاکستان میں بادشاہی مسجد بھی دہلی کی جامع مسجد سے ملتی جلتی ہے۔ بادشاہی مسجد کی تعمیر کا کام شاہ جہاں کے بیٹے اورنگ زیب نے کیا تھا۔ دہلی کی جامع مسجد کی تعمیر کا کام ثناء اللہ خان کی نگرانی میں ہوا، جو اس وقت شاہ جہاں کے دور حکومت میں وزیر تھے۔ ۔

۔۔ 1857 کی جدوجہد آزادی میں فتح کے بعد انگریزوں نے جامع مسجد پر قبضہ کر لیا۔ وہاں اس کے سپاہی پہرہ دیتے تھے۔ مورخین بتاتے ہیں کہ انگریز شہر کو سزا دینے کے لیے مسجد کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اہل وطن کی مخالفت کے سامنے انگریزوں کو جھکنا پڑا۔

۔ 1948 میں حیدرآباد کے آخری نظام آصف جاہ 7 سے مسجد کے ایک چوتھائی حصے کی مرمت کے لیے 75 ہزار روپے مانگے گئے۔ لیکن نظام نے تین لاکھ روپے مختص کیے اور کہا کہ مسجد کا باقی حصہ پرانا نہ لگے۔

یہ دہلی سمیت پوری دنیا میں جامع مسجد کے نام سے مشہور ہے۔ لیکن اس کا اصل نام مسجد جہاں نما ہے۔ اس سے مراد وہ مسجد ہے جس سے پوری دنیا کا نظارہ ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *