تاج محل میں مورتیوں ہونے سے اے ایس آئی کاانکار، دروازے بند ہونے کے دعوے کی تردید

آگرہ :(ایجنسی)

الہ آباد ہائی کورٹ نے تاج محل کے 22 دروازوں کے معاملے میں دائر درخواست کو خارج کر دیا تھا۔ اب آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے حکام کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ عرضی میں جو دعوے کیے جا رہے ہیں وہ غلط ہیں۔ درخواست میں کہا گیا کہ کمروں میں ممکنہ طور پر ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ حکام نے یہ بھی بتایا ہے کہ یہ کمرے مستقل طور پر بند نہیں ہیں۔

 

 

 

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، اعلیٰ اہلکار نے بتایا کہ پہلے یہ کمرے ’مستقل طور پر بندنہیں ہیں‘ اور انہیں حال ہی میں تحفظ کے کام کے لیے کھولا گیا تھا۔ اس کے علاوہ، برسوں کے دوران کیے گئے ریکارڈ کی چھان بین میں، ‘’مورتیوں کے ہونے کی بات سامنے نہیں آئی ہے ۔‘ سرکاری طور پر ان کمروں کو ’سیلز‘ کہا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، تین ماہ قبل ہونے والے بحالی کے کام کے بارے میں علم رکھنے والے ایک اعلیٰ اہلکار کا کہنا ہے، ’’اب تک کئی ریکارڈز اور رپورٹس کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں مجسموں کا وجود نہیں دکھایا گیا‘‘۔ اطلاعات کے مطابق، مقبرے میں 100 سے زائد سیل ہیں، جو تاج تک سب سے زیادہ گہرائی تک رسائی رکھنے والے حکام کے مطابق سیکورٹی وجوہات کی بنا پر عوام کے لیے بند ہیں۔ نیز ان میں ایسی کوئی معلومات نہیں ملی ہیں۔

 

 

 

اخبار سے بات کرتے ہوئے، اے ایس آئی کے ایک سینئر اہلکار نے کہا، ’درخواست گزار کا 22 کمروں کو مستقل طور پر بند کرنے کا بیان حقیقتاً غلط ہے، کیونکہ تحفظ کا کام وقتاً فوقتاً کیا جاتا ہے۔ حالیہ کام میں بھی 6 لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔

 

 

 

ایک اور اہلکار نے بتایا کہ عوام کے لیے بند 100 دروازے تہہ خانے، مرکزی مقبرے کی اوپری منزل، گڑھ، چار مینار، باؤلی کے اندر اور مشرقی، مغربی اور شمالی حصوں میں چمیلی کے فرش پر ہیں۔ اس کے علاوہ، اس علاقے میں موجود دیگر عالمی ثقافتی ورثے کے کئی حصے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر برسوں سے عوام کے لیے بند ہیں۔

ایجنسی کے مطابق ایودھیا کے رہنے والے رجنیش سنگھ نے درخواست دائر کی تھی جس میں تاج محل کی تاریخ جاننے کے لیے ایک کمیٹی قائم کرنے اور اس تاریخی عمارت میں بنائے گئے 22 کمروں کو کھولنے کا حکم دینے پر زور دیا گیا تھا۔ درخواست میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ 1951 اور 1958 میں بنائے گئے قوانین کو آئین کی دفعات کے منافی قرار دیا جائے۔ ان قوانین کے تحت تاج محل، فتح پور سیکری قلعہ اور آگرہ کے لال قلعہ جیسی عمارتوں کو تاریخی عمارتیں قرار دیا گیا تھا۔

 

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *