ضمنی الیکشن ہوگیا اب بنکروں کا مسیحا کوئی نہیں!!

 جاوید اختر بھارتی
 ضمنی انتخابات اختتام پذیر ہوئے بنکروں کے مسائل جوں کے توں ہیں کل تک رام پور سے اعظم گڑھ تک قدم قدم پر بنکروں کے مسیحا تھے اب کوئی نہیں ہے جو بنکروں کے حالات پر آنسو بہائے اور سچائی یہ ہے کہ خصال انصاری مرحوم کے بعد آج تک نہ کوئی بنکروں کا مخلص لیڈر ہوا ہے اور نہ ہی بنکروں کا کوئی مسیحا ہوا ہے اور آج بھی بنکروں کا کوئی مخلص لیڈر نہیں اور کوئی مسیحا نہیں اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بنکروں کی مضبوط اور قابل اعتماد کوئی تنظیم بھی نہیں ہے
  سماجی اور سیاسی تنظیم میں فرق ہوتا ہے اور سیاسی و سماجی تحریک میں بھی فرق ہوتا ہے سینے میں سماج کا درد رکھنا اور ایمانداری کے ساتھ سماجی تحریک چلانا بڑے ہی دل گردے کی بات ہے اور لالچ و مکاری کی بنیاد پر تحریک چلانا تو بہت آسان ہے کسانوں کے لیڈروں کا بھی سیاسی پارٹیوں سے تعلق تھا مگر جب انہوں نے اپنے سماج کے لئے تحریک چلائی تو مڑکر بھی اپنی پارٹی کی طرف نہیں دیکھا اور خودساختہ بنکر لیڈران دسمبر 2019 سے اب تک مڑ مڑکر پارٹی کی طرف ہی دیکھتے ہیں انہیں سماج سے کہیں زیادہ اپنی پارٹی کی فکر رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بنکر تحریک ناکام ہوئی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اترپردیش کی موجودہ بی جے پی حکومت بنکروں کے لئے فلیٹ ریٹ پر بجلی کا انتظام کردے تو یہ حکومت کی مہربانی ہوگی ورنہ بنکر لیڈران تو اب تک جھوٹ پر جھوٹ گڑھتے آئے ہیں یہ ڈھائی سال میں کسی ایک مسودے پر متفق تک نہیں ہوسکے بلکہ کوئی پارٹی کی چمچہ گیری میں لگاہے تو کوئی حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگا ہوا ہے یہ بھی سچائی ہے کہ ایک بنکر کا درد ایک بنکر ہی سمجھ سکتا ہے اور وہ بھی جس کے پاس خود پاور لوم ہو اور بجلی کا کنکشن ہو وہ سمجھ سکتا ہے جس کے پاس پاور لوم ہی نہ ہو اور بیٹھے تو صوفہ پر، سوئے تو مخمل کے گدے پر، چلے تو مہنگی مہنگی کاروں سے، ٹھہرے تو عالیشان ہوٹل میں یا پھر پارٹی کے رکن اسمبلی کے بنگلے میں وہ بنکروں کا دردر کیا خاک سمجھے گا بلکہ ایسے لوگوں نے تو خود مزدور بنکروں کا خون چوسا ہے، مزدوری گھٹاکر اپنا بیلنس برقرار رکھا ہے اور صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ اب تو مزدور بنکر یہ بھی سوچتا ہے کہ لڑیں تو کس سے سرکار سے یا سرمایہ دار سے،، پاورلوم بندی ہوئی تو بنکر مزدوروں کا نقصان ہوا گدیاں کھلی رہیں، مال میٹریل آتا جاتا رہا بلکہ بنکروں کی ایک میٹنگ میں انہیں بڑے لوگوں کو مزید سہولت دینے پر غور کیا جارہا تھا کہ راقم نے پرزور مخالفت کی کیونکہ تحریک کے دوران بھی مسائل انہیں کے سامنے تھے جن کی حالت روز کنواں کھودنے اور روز پانی پینے جیسی تھی اور آج بھی ان مزدور بنکروں کے پاس روٹی، بوٹی اور سالن سب گنتی کے ہیں اور سب نپا تلا ہے اور جن لوگوں نے غریب محنت کش بنکر مزدوروں کا یہ حال بنا رکھا ہے وہ بنکروں کے نیتا بنتے ہیں اور اسی وجہ سے اپنی ہی طرح کے بڑے بڑے لیڈروں کو وہ خوش کرنے کے لئے بنکروں کا مسیحا کہتے ہیں در اصل دیکھا جائے تو انہیں نگر پنچایت/ نگر پالیکا سے لے کر ایم ایل سی اور راجیہ سبھا تک پہنچنے کی فکر ہے انہیں سماج کے مسائل نظر نہیں آتے بلکہ انہیں ایوان کے دروازے نظر آتے ہیں ایک طرف کہاجاتاہے کہ اترپردیش کی حکومت بنکروں کو فلیٹ ریٹ پر بجلی دینے کے لئے راضی ہوگئی ہے اور دوسری طرف کہاجاتاہے کہ بی جے پی حکومت بنکروں کو فلیٹ ریٹ پر بجلی نہیں دینا چاہتی ایک بات لکھنئو میں کہی جاتی ہے اور دوسری بات ضمنی انتخابات کے دوران کہی جاتی ہے خود فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ بنکر لیڈران اپنے سینے میں سماج کا درد رکھتے ہیں یا پارٹی کی فکر اور درد رکھتے ہیں درجنوں بار لکھنئو میں میٹنگ ہوچکی لیکن مسلہ جہاں جنوری 2020 میں تھا وہیں آج بھی ہے باتیں تلخ ہیں مگر یہی سچائی ہے اور جب تک پارٹی سے اوپر اٹھ کر بنکروں کی لڑائی نہیں لڑیں گے تب تک بنکروں کے مسائل حل نہیں ہوں گے اور ہوجائیں تو یہ حکومت کی مہربانی ہی ہوگی صرف زبانی خرچ سے کسانوں جیسی سہولیات بھی نہیں مل سکتیں بلکہ کسانوں کی طرح بیدار ہونا پڑےگا اور نیک نیتی پیدا کرنا پڑے گا-
ابھی حال ہی میں ہوئے اسمبلی انتخابات سے بھی بنکروں کو سبق حاصل کرنا چاہئے کہ جو پارٹی مسلمانوں اور بنکروں کی ہمدردی کا ڈھڈورا پیٹتی ہے اس نے کتنے مسلمانوں اور کتنے بنکروں کو ٹکٹ دیا تھا بلکہ ان اسمبلی حلقوں میں جہاں خود بنکروں کا فیصلہ کن ووٹ ہے وہاں بھی نظر انداز کیا گیا پھر بھی ہم اسی پارٹی سے دلی اور جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں اور آج تو یہ یہ حالت ہوچکی ہے کہ بی جے پی کو ہرانے کے لئے نہ تو سماجوادی پارٹی میں طاقت ہے اور نہ بہوجن سماج پارٹی میں طاقت ہے بلکہ اب تو انہیں خود اپنا سیاسی وجود بچانا بھی مشکل ہے مگر یہ ہمارے لئے نہ تو خوشی کی بات ہے اور نہ ہی غم کی بات ہے بلکہ ہم سیاست کے کس چوراہے پر کھڑے ہیں اور وہاں سے کس راستے پر جانا ہے یہ غور کرنے کی ضرورت ہے لال کارڈ کی سیاست سے اوپر اٹھ کر لال بتی کی سیاست کرنے کی ضرورت ہے اگر اعظم گڑھ پارلیمنٹ کا ضمنی الیکشن دیکھا جائے تو سماجوادی پارٹی کے لئے سب سے زیادہ محنت کرنے والا شخص خود ایک بنکر اور بہوجن سماج پارٹی کے لئے بھی سب سے زیادہ محنت کرنے والا بھی بنکر اور دونوں ایک برادری کے اور ایک ضلع کے ایک کو تو پارٹی نے راجیہ سبھا میں ایک بار بھیجا مگر دوسرا شخص پچاس پچپن سال کی عمر میں بھی پارٹی کے لئے جی جان سے لگا ہوا ہے اسے کسی ایوان میں نہیں بھیجا گیا کیا یہ افسوس کی بات نہیں ہے بالکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ رام پور اور اعظم گڑھ دونوں جگہوں پر سماجوادی پارٹی کا قلعہ مسمار ہوگیا اب اویسی صاحب کو بھی ہار کا ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ نہ وہ آئے اور نہ ان کا ہیلی کاپٹر ان حلقوں سے گذرا-
ایک اور بات یہ بھی ہے کہ ضمنی الیکشن میں دیکھا جائے تو اعظم گڑھ میں بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈران اور وزراء تک آئے مگر ایس پی، بی ایس پی کے ہائی کمان کا پتہ نہیں چلا،، یاتو گھمنڈ یہ رہا ہو کہ یادو ووٹ بہت بڑی تعداد میں ہے اور مسلمان تو بندھوا مزدور ہے ہی چلو کمرے میں بیٹھ کر بھی الیکشن جیتا جاسکتا ہے یا پھر دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مایوسی کے شکار ہوچکے ہوں بہر حال یہ تو سچ ہے کہ مسلمانوں نے سب سے زیادہ اعتماد سماجوادی پارٹی پر کیا مگر اکھلیش یادو کی سیاست اور ان کے والد کی سیاست میں کافی فرق ہے والد صاحب کی ہر مسلے پر زبان کھلتی تھی اور بیٹے کی زبان ہر مسلے پر بند رہتی ہے بلکہ بیٹے کی موجودگی میں اسٹیج پر بھی کئی بار مسلمانوں کو رسوا کیا گیا ہے لیکن اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی سینے پر پتھر رکھ کر ووٹ دیا مگر اس کے باوجود بھی ہر مسلے پر پارٹی خاموش، پارٹی کے ممبران اسمبلی خاموش شائد ان سب باتوں پر بڑی تعداد میں لوگوں نے غور کیا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعظم گڑھ پارلیمانی حلقے کا یادو ووٹ کہاں گیا کہ بی جے پی نے سماجوادی پارٹی سے سیٹ چھین لی-

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *