پی ایف آئی کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت

عدیل اختر

یہ بہت ہی افسوس ناک خبر ہے کہ مولانا سلمان حسینی ندوی اور پروفیسر محسن عثمانی جیسے افراد نے بھی دہلی میں ہوئی اس کانفرنس میں شرکت کی جو انٹرفیتھ کانفرنس کے عنوان سے فی الواقع ملت اسلامیہ ہند کے خلاف بنے جارہے جال کا ایک حصہ تھی۔ جس کانفرنس کا انعقاد آرایس ایس کی رہنمائی میں جلنے والی حکومت کے کارندے کررہے ہوں اور مودی حکومت کے ایک خطرناک سپہ سالار کی سرپرستی میں جس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہو اس کے ایجنڈے اور ہدف سے آنکھ، کان اور دماغ رکھنے والا کوئی مسلمان کیوں کر بے خبر ہوسکتا ہے؟ مگر تف ہے مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب پر جنھوں نے دوسری بار آر ایس ایس کے ایک مشن کاحصہ بن کر ملت کو نقصان پہنچانے کا ارتکاب کیا ہے ۔ البتہ محسن عثمانی صاحب کا بھی اس جال میں پھنسنا بہت حیرت اور تکلیف کی بات ہے ۔ تاہم ان کے بارے میں یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ بہت زیادہ معمر ہوجائے کی وجہ سے شاید ان کے اعصاب اور ذہنی صلاحیتیں اب ان کی فکر اور ایمانی جذبات کا ساتھ نہیں دے رہی ہیں۔

انٹرفیتھ کانفرنس سے جو مقصد سب سے زیادہ نمایاں ہو کر برآمد ہوا ہے وہ ہے پاپولر فرنٹ آف انڈیا نامی تنظیم پر پابندی کا مطالبہ۔ پی ایف آئی کے نام سے مشہور یہ تنظیم حالیہ عرصے میں ایک ایسی طاقت کے طور پر ابھر کر آئی ہے جو ملک میں مسلمانوں کو ایک منظم سماجی اور سیاسی قیادت فراہم کر سکتی ہے۔ یہ تنظیم تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں اور خواتین کو سماجی طور پر سرگرم اور فعال بنانے کا کام کر رہی ہے اور ان کی شخصیت اور طرزِ عمل کو اسلامی اخلاق کے مطابق ڈھالنے کا کام کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کا دوسرا اہم وصف یہ ہے کہ یہ ملت کے اندر سے خوف، مایوسی اور بزدلی کو دور کرکے عزم وہمت کو جگانے کا بھی کام کر رہی ہے۔ آر ایس ایس اور دیگر ہندوتوادی طاقتیں مسلمانوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم کرنے اور انہیں دبانے وکچلنے کی جو کھلی مہم چلارہی ہیں اور جو مسلم کش ماحول ملک میں بنایا جارہا ہے اس سے ہراساں ہونے کے بجائے آئینی طریقے سے اس کی مزاحمت کا جذبہ بھی یہ تنظیم ملت میں پیدا کررہی ہے۔ پی ایف آئی کا یہی کام دراصل مسلم مخالف حکومت کی نظر میں اس کا قصور ہے۔ اور اسی لئے اس تنظیم پر پابندی کی باتیں کافی عرصے سے سنی جارہی ہیں۔ دو دن پہلے دہلی میں منعقد ہوئی نام نہاد انٹر فیتھ کانفرنس میں قومی سلامتی مشیر کی تقریر سے اور کانفرنس کے بعد اس کے کچھ خاص شرکا کے مطالبے سے یہ واضح اشارہ مل رہا ہے کہ حکومت پی ایف آئی کو بین کرنے کے لئے بڑی مستعدی کے ساتھ پیش بندیاں کررہی ہے۔

لیکن پی ایف آئی پر اگر حکومت پابندی لگاتی ہے تو یہ حکومت کی ایک ایسی جارحیت ہوگی جس کا نشانہ محض ایک قانون پسند تنظیم نہیں ہوگی بلکہ یہ پوری مسلم کمیونٹی کے خلاف ایک کھلی جارحیت ہوگی۔ اس کا منشاء و مقصد واضح طور پر تمام مسلمانوں کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ وہ اپنے دفاع کی خاطر کسی آئینی مزاحمت اور عوامی جدوجہد کے لئے بھی منظم ہونے کی جرأت نہ کریں۔

پی ایف آئی پر پابندی کے بہانے تراشنے کے لئے کافی عرصے سے اس کو بدنام کرنے کی مہم چل رہی ہے اور طرح طرح کے الزامات لگاکر اس کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے ۔ سی اے اے قانون اور این آرسی منصوبے کے خلاف مسلمانوں کی اجتماعی مزاحمت کا ٹھیکرا بھی اس کے سر پھوڑا گیا حالانکہ اگر اس تحریک کو اٹھانے میں پی ایف آئی کا بنیادی رول تسلیم بھی کیا تو بھی یہ اس کا کوئی جرم کیسے ہو سکتا ہے جب کہ یہ ایک جائز اور لازمی مزاحمت تھی اور آئین کے دائرے میں پرامن احتجاج کی تحریک تھی جسے بدمعاش اور آئین شکن حکومتوں نے تشدد سے کچلنے کی کوشش کی تھی۔

بعض مقامی اور انفرادی جرائم کے معاملوں میں اس تنظیم کے کچھ افراد کو ماخوذ کیا گیا ہے تو اس طرح کے معاملات بھی کسی تنظیم پر پابندی کا جواز نہیں بن سکتے۔ سیاسی پارٹیوں یا غیر سیاسی تنظیموں کے افراد عام طور سے مختلف قسم کے جرائم میں پکڑے جاتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی آپسی رنجشوں میں بھی کارکنوں کے قتل اور جوابی قتل کی واردتیں ملک میں عام ہیں۔ مگر اس بنیاد پر کسی پارٹی یا تنظیم کو کالعدم قرار دینے کی کارروائی نہیں کی جاتی۔

کسی تنظیم کو غیر قانونی سرگرمیوں کا قصور وار تبھی قرار دیا جاسکتا ہے جب وہ تنظیم اجتماعی طور پر غیر قانونی سرگرمیوں کا ارتکاب کرے، قانون کی حکمرانی کو تسلیم نہ کرے، قانون کا زبانی یا عملی احترام نہ کرے اور اپنے کارکنوں کو غیر قانونی سرگرمیوں کی باقاعدہ تربیت دیتی ہو۔ جب کہ پی ایف آئی کا ایک سیاسی اور سماجی ایجنڈا ہے۔ یہ آئین کی دہائی دیتی ہے۔ ملک کے جمہوری اور سیکولر نظام کو بچانے کی اپیل کرتی ہے، “Save the Republic” کے نام سے مستقل مہم چلا رہی ہے۔ کسی قسم کے فرقہ وارانہ نظریات کا اظہار نہیں کرتی، کسی کے مذہبی عقائد پر حملہ نہیں کرتی۔ اس لئے پابندی کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز ہی نہیں ہے۔

چنانچہ یہ جو کچھ ماحول بنایا جارہا ہے یہ آر ایس ایس کے مسلم کش منصوبے کاحصہ ہے جو آر ایس ایس کی پشت پناہی والی حکومت کے ذریعے پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ مسلم کشی کا یہ ہمہ گیر منصوبہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ خاص طور سے مسلمانوں کی کسی بھی تنظیم کے لئے ان حالات کو سمجھنا اب کچھ بھی مشکل نہیں ہے ۔ اس لئے تمام مسلم تنظیموں اور دین پسند مسلم عوام کو اب اجتماعی طور پر اپنی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اور صورت حال کا فطری اور لازمی تقاضا یہ ہے کہ تمام مسلم تنظیمیں اور مسلم عوام پی ایف آئی پر پابندی کے خلاف کھل کر سامنے آجائیں یہ سوچ کر کہ ایک کا دفاع سب کا دفاع ہے اور ایک کی ہلاکت سب کی ہلاکت ہے ۔

تمام مسلم تنظیموں ، جماعتوں ، اداروں اور فرقوں کی اپنی جداگانہ خاصیت اور اہمیت ہے اور سب کی مصلحت اسی میں ہے کہ وہ حکومت کے مسلم مخالف ایجنڈے پر خاموش رہنے یا اس کا حصہ بننے کے بجائے آپس میں متحد ہوکر حکومت کے ایسے اقدامات کی مخالفت کریں۔ البتہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ، جماعت اسلامی، ملی کونسل، مسلم مجلس مشاورت ، رضا اکیڈمی ،مجلس تعمیر ‌ملت اور اتحاد ملت کاؤنسل جیسی تنظیموں نیز مختلف مسلم سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے کہ وہ فوری طور سے پی ایف آئی پر پابندی کے مطالبوں کی مخالفت میں اپنے بیان جاری کریں، اور لازمی ہے کہ ایک مشترک پریس کانفرنس کرکے اپنے موقف کا اظہار کریں۔ وگرنہ:

نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندی مسلمانو!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *