گمشدہ اردو اکادمی کی تلاش

دو ٹوک :ریحان غنی

پٹنہ( اے این بی) بہار کے لوگ ان دنوں اس اردو اکادمی کو شدت سے تلاش کر رہے ہیں جو ریاست میں ایک مضبوط اردو تحریک کے بطن سے پیدا ہوئی تھی.اس کے پہلے سکریٹری ممتاز افسانہ نگار سہیل عظیم آبادی تھے. اپنی پیدائش سے لے کر اب تک یہ اکثر نشیب و فراز سے دوچار رہی ہے. لیکن اس وقت اس کی حالت بد سے بد تر یےاور یہ اپنی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہی ہے. اس کا وجود ختم ہوتا نظر آ رہا ہے.اس وقت اردو سے تعلق رکھنے والا یہ ادارہ ایک سرکاری افسر کے رحم وکرم پر ہے. گذشتہ تقریباً چار برسوں سے اس کی مجلس عاملہ کی تشکیل نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس کی تمام سرگرمیاں ٹھپ ہیں. اگست 2018 سے ہی یہ اکادمی تشکیل نو کا انتظار کر رہی ہے. نتیجہ یہ ہے کہ اس پلیٹ فارم سے اردو کے فروغ کے لئے جو کام ہوا کرتے تھے وہ سب رکے پڑے ہیں. چار برسوں سے کسی کو بھی کتابوں کی اشاعت کے لئے نہ تو مالی امداد دی گئی ہے اور نہ کسی کتاب پر انعام دیا گیا ہے. دوسرے ادبی پروگرام بھی چار برسوں سے نہیں ہوئے ہیں. ایسی صورت میں اسے سرکاری گرانٹ بھی کیوں ملے؟ حالانکہ اکادمی کی زبوں حالی کے بارے میں حکومت تک بات پہنچائی جا چکی ہے لیکن حکومت پتہ نہیں کیوں اس طرف توجہ نہیں دے رہی ہے. اس سے پہلے بھی یعنی 2018 سے قبل بھی ایک عرصے تک جناب امتیاز احمد کریمی بحیثیت سرکاری افسر اردو اکادمی کے کارگذار سکریٹری رہ چکے ہیں. ان کے زمانے میں بھی کافی عرصے تک اردو اکادمی کی تشکیل نو نہیں ہوئی تھی لیکن انہوں نے تنہا اردو اکادمی کو اتنا سرگرم کر دیا تھا کہ اردو والوں کو محسوس ہی نہیں ہوا کہ اکادمی کمیٹی کے بغیر چل رہی ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے کارگذار سکریٹری کو اختیارات دے رکھے ہیں کہ وہ اردو کے فروغ کے لئے اکادمی کی سرگرمیاں جاری رکھ سکتا ہے ورنہ جناب امتیاز احمد کریمی اتنے کامیاب سکریٹری کیسے ہوتے؟ موجودہ کارگذار سکریٹری کو ان کے نقش قدم پر چلنا چاہئے.بہارارواکادمی کوئی معمولی ادارہ نہیں ہے. اس کی بڑی اہمیت ہے. ماضی میں بھی یہ نشیب وفراز سے دوچار ہوئی ہے.” اردو بھون ” جس میں یہ اکادمی ہے اس کا گواہ ہے. راشٹریہ جنتا دل کے سربراہ لالو پرساد کے دور اقتدار میں بھی ایک وقت ایسا آیا تھا جب اردو اکادمی کا برا حال ہو گیا تھا اس زمانے میں اکادمی کے اسٹاف کی کئی کئی مہینے تنخواہ بقایہ رہتی تھی. کچھ اردو والوں نے اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اس وقت کے وزیر اقلیتی فلاح شکیل احمد خان (مرحوم) کو اردو بھون میں ایک پروگرام کے دوران گھیر لیا تھا اور انہیں پروگرام میں نہیں بولنے دیاتھا.اس کی خبر دوسرے دن تقریباً تمام اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ چھپی تھی.قبل اس کے کہ موجودہ وزیر اقلیتی فلاح کو بھی اسی طرح کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑے انہیں اردو اکادمی کی جلد تشکیل کے لئے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرنی چاہئیے اور اردو اکادمی کی برسوں سے ٹھپ پڑی سرگرمیوں کو شروع کرنے کے لئے پہلی فرصت میں پہل کرنی چاہئے.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *