صباح الدین ملک
آخری رسالت انسانی تاریخ کو دو حصوں میں بانٹتی ہے :
١۔ دنیائے انسانیت، نبوتِ محمدی سے پہلے
٢۔ دنیائے انسانیت، نبوت محمدی کے بعد
* نبوتِ محمدی کئی بنیادی تغیرات کا نام ہے:
١۔ انسانوں کی مذہبی تاریخ میں اب وحی و رسالت کا باب بند کیا جاتا ہے۔ اب دین و مذہب کا آخری مرجع دینِ محمدی ہے، جس کا نام اسلام ہے، جو الٰہی حاکمیت، انسانی مواخات، مساوات، عدل اور آزادی سے عبارت ہے۔
٢۔ اب انسانوں کی ملکی و سیاسی تاریخ میں ملوکیت کا باب بند کیا جاتا ہے، جو در اصل اجتماعی غلامی کا سب سے بڑا ادارہ تھا۔ اب عوامی و جمہوری انتظام اور ایک انتخابی و شورائی نظام کا دور شروع ہوتا ہے۔
* سنہ ١٠ ہجری میں آپؐ نے وفات پائی، اور ایک عوامی انتخابی شورائی نظام نے آپؐ کی خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اس کے بعد اسلام میں مسلمانوں کے جماعتی نظام کا نام ‘خلافتِ نبوی’ قرار پایا۔
دراصل نبیؐ کی نبوت تا قیامت ہے۔ آپؐ پر اور آپ کی اتباع میں آپ کی تشکیل کردہ امت اور جماعتِ مسلمین پر رہتی دنیا تک رسالت و شہادتِ حق کی ذمہ داری عائد ہے۔ آپ کی رسالت ایک نافذ اور قائم رسالت ہے، نہ کہ منسوخ ہونے والی رسالت۔ اسی لئے آپ کی خلافت و جانشینی کے نظام کا تا قیامت برقرار رہنا ضروری ہے۔
* حضرات ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم کی خلافت، نبیؐ کی جانشینی کا نظام تھا۔ یہ امت اور انسانیت کی سعادت کا دور تھا۔ پھر اس نظام کو رفتہ رفتہ ملوکیت کے نظام میں تبدیل کر دیا گیا۔ اور امت و انسانیت کی شقاوت اور بد بختی کا دور شروع ہوا۔
* یزید بن معاویہ کی تاج پوشی کے بعد، خلافت کے عوامی، انتخابی اور شورائی نظام کو باضابطہ جاہلی بادشاہی نظام میں تبدیل کر دیا گیا۔
* خلافت سے ملوکیت کی طرف اس ‘تغیر’ کے خلاف قمری تقویم کے مطابق ١٠/ محرم الحرام ٦١ ہجری کو سب سے مضبوط، بلند آہنگ، دو ٹوک اور عظیم احتجاج حسین بن علی ؓ کی جانب سے ہوا۔
اس احتجاج کو پوری ملوکانہ سفاکی سے کچل دیا گیا۔ خانوادہ نبوت جو امتِ محمدیہ کی محبت و مودت کا مرکز رہا ہے، اسے خاک و خون میں نہلا دیا گیا۔
* یومِ عاشوراء کی تاریخ ہر سال دو درد کو جھیلتی ہے: ایک حسین بن علی ؓ اور خانوادہء نبوت کی مظلومانہ شہادت کو،
دوسرے، ‘اسلامی نظامِ خلافت’ پر جاہلی ملوکانہ قبضہ و تسلط کو۔
* حضرت حسین ؓ کی شہادت امت کو ہر سال یومِ عاشوراء کے موقع پر آواز دیتی ہے کہ “سر زمینِ خلافت” پر خلافتِ نبوی (خلافت علی منھاج النبوة) کے نظام کو زندہ کرو۔ اس کے لئے جدوجہد کرو اور ضرورت پڑے تو آخری حد تک قربانیاں دو۔
یہ صحیح ہے کہ حضرت حسینؓ اپنی شہادت میں “شہیدِ خلافت” ہیں۔
* ‘خلافت’ عالمی امت کا عظیم قضیہ ہے۔ یہ نبیّ آخِر کی وراثت، امانت اور ولایت ہے۔ اسے حاصل کرنا، قائم کرنا، برقرار رکھنا اور حفاظت کرنا دین کا افرض الفرائض اور اوجب الواجبات ہے۔ وقت کا گزرنا اس کی فرضیت کو ساقط نہیں کرتا۔
امت اور انسانیت کی محرومیاں اور بدنصیبی، اسی کے قیام سے دور ہو سکتی ہیں۔
اسی لئے ضروری ہے کہ جب تک یہ مطلوب حاصل نہ ہو، یومِ عاشوراء کو امت ‘یوم خلافتِ راشدہ’ کے طور پر خاص کرے اور اس مسئلہ کو اتنی قوت سے اٹھائے اور اٹھاتی رہے کہ غاصب جاہلی ‘ایوانِ شاہی’ میں زلزلہ آئے اور امت و انسانیت پھر ‘خلافت’ کے عادلانہ نظام کی سعادتوں سے ہم کنار ہو۔
* اس دینی سیاسی موضوع پر امت تین خیموں میں تقسیم ہے :
١۔ اہلِ بیتِ نبیؐ کی امامت والے
٢۔ عوامی انتخابی شورائی خلافت والے
٣۔ خاندانی موروثی طاقت سے قابض بادشاہت والے۔
امید ہے آپ خلافت کے حامی اور موید ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں خلافتِ نبوی کی سعادتوں سے سرفراز کرے، آمین۔