مسعودجاوید
کرناٹک میں اس سال کے اوائل میں مسلم لڑکیوں کا حجاب میں اسکول و کالج آنے پر پابندی لگائی گئی۔ اکثر مسلم لڑکیوں اور ان کے والدین نے طے کیا کہ حجاب کے بغیر لڑکیاں کالج نہیں جائیں گی۔
لیکن مذہبی تشخص کو ختم اور مذہبی آزادی پر پابندی کے ردعمل میں کیا بچیاں تعلیم سے محروم رہ جائیں؟
شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کی یہی روش رہی ہے کہ وہ جذباتی فیصلے صادر کر دیتے ہیں لیکن متبادل فراہم نہیں کرتے۔
جنوبی ہند کے مسلمانوں نے شروع سے ہی جانبداریت اور امتیازی سلوک discrimination کا رونا رونے کی بجائے متبادل ایجاد کیا۔ مظلومیت victimhood کا بیانیہ چلا کر فرار کی راہ اختیار نہیں کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی ہند کے مسلمانوں کی شرح تعلیم شمالی ہند کے مسلمانوں سے بہت بہتر ہے۔ شمالی ہند کے مسلمانوں کی بنسبت ان کی معاشی حالت کافی حد تک مضبوط ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ رہی کہ تعلیم کی وجہ سے تقریباً ان کے ہر گھر کا کم از کم ایک فرد خلیجی ممالک میں ملازمت یا تجارت کر رہا ہے۔ اس کی زندہ مثال پچھلے دنوں لکھنؤ میں کھلے ہندوستان کا غالباََ سب سے بڑا شاپنگ سنٹر “لؤلؤ” مال ہے جسے کیرلا کے ایک مسلم تاجر یوسف علی صاحب ، جو متحدہ عرب امارات کے ابو ظہبی میں رہتے ہیں اور بیس سے زائد ملکوں میں ان کے “لؤلؤ مال ہیں ، نے کھولا ہے۔ کیا شمالی ہند بالخصوص اترپردیش میں کسی مسلم کے پاس یا مسلم گروپ کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے!
سرمایہ تو ہے لیکن افسوس وژن نہیں ہے۔ عموماً مسلم سرمایہ داروں کی سوچ بعض روایتی تجارت و صنعت اور ریئل اسٹیٹ تک محدود ہے۔ ہر بڑے شہر میں ایک بڑی تعداد مسلم بلڈرز کی مل جائے گی لیکن ملٹی اسپیشیلیٹی ہاسپیٹل، نرسنگ ہوم ، تعلیمی ادارے، ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ اور پروفیشنل کالجز کے مالک نہیں ملیں گے۔ ان کے برعکس بڑے بڑے کارپوریٹ گھرانوں اور غیر مسلم سرمایہ داروں نے میڈیکل فیلڈ کے علاوہ اسکول ، کالج اور پروفیشنل انسٹی ٹیوٹ میں بہت زیادہ انویسٹمنٹ کیا ہے اس لئے کہ ان کی سوچ تجارت کے ذریعے منفعت حاصل کرنا ہے۔ چنانچہ انٹرنیشنل انگلش میڈیم اسکول سے لے کر سائنس، کامرس، لاء ، میڈیکل اور انجینئرنگ کے کالجز اور یونیورسٹیز کے مالک ہیں ۔
کرناٹک کے تناظر میں شمالی ہند کے سرمایہ داروں کو موٹیویٹ کرنے کے لئے شاید اتنی سی معلومات کافی ہو کہ جن پرائیوٹ کالجز نے حجاب کی وجہ سے لڑکیوں کے داخلے پر پابندی لگایا ہے ان کا نقصان یا جو لوگ ملی کالجز ۔۔ پری یونیورسٹی کالج/ پری ڈگری کالج/ انٹر کالج کھول رہے ہیں ان کی آمدنی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر اسٹوڈنٹ تیس ہزار سے پچاس ہزار ڈونیشن کے علاوہ ایڈمیشن فیس اور ڈیویلپمنٹ فیس وغیرہ کے علاوہ ماہانہ فیس تین ہزار سے چار ہزار روپے ادا کرتا ہے۔
ہر چھوٹے بڑے شہر میں پری یونیورسٹی کالج کی شدید ضرورت اس لئے ہے کہ دسویں کلاس تک سرکاری یا پرائیوٹ اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع بآسانی میسر ہوتے ہیں ۔
ترجیحات کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت گیارہویں سے شروع ہوتی ہے کہ اسے آرٹس اسٹریم لینا ہے یا کامرس یا سائنس ۔ سائنس اسٹریم لینا ہے تو اس کی ترجیحات کیا ہیں کمپیوٹر سائنس یا دیگر۔ اگر میڈیکل کے شعبہ میں پڑھنا تو ابھی یعنی گیارہویں جماعت میں ہی اسے فزکس کیمسٹری بایولوجی PCB لینا ہوگا اور اگر انجینئرنگ ہے تو فزکس کیمسٹری میتھمیٹکس PCM لینا ہوتا ہے۔ ہندوستان میں انجنیئرنگ کا شعبہ فی الحال کساد بازاری کا شکار ہے۔ اس کی وجہ ہے بہت زیادہ پرایویٹ انجنیئرنگ کالجز کا کھلنا اور انجام کار ان کے پروڈکٹس کی سپلائی زیادہ اور ڈیمانڈ کی کمی۔
بارہویں جماعت کے بعد اعلی تعلیم کے راستے کھلتے جاتے ہیں ۔ ملک و بیرون ملک کی یونیورسٹیوں میں اہلیت کی بنیاد پر داخلہ اور اسکالر شپ کے مواقع میسر ہوتے ہیں ۔
جب میں لکھتا ہوں ” ملی انٹر کالج” تو اس سے قطعاً یہ مراد نہیں ہے کہ خیراتی کالج کھولے جائیں ۔ اسے تجارتی انداز میں نفع نقصان کو مد نظر رکھتے ہوئے کھولا جائے بس اس کا خیال رکھا جائے کہ اس میں دینی ماحول ہو اور فیس مناسب ہو ۔