یوم آزادی ہند-چند اہم گزارشیات

 

انصاری حافظ حنان حسین احمد

ممبئی:15  اگست قریب ہے. اس دن ہمارے وطن ہندستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل ہوئی تھی. یہ بات ہر منصف مزاج مؤرخ مانتا ہے کہ جنگ آزادی میں مسلمان نہ ہوتے تو ملک کی آزادی ایک خواب ہی رہتی، بدقسمتی سے ملک پر ایک فرقہ پرست سوچ حاوی ہوتی چلی گئی اور اب پوری طاقت کے ساتھ ملک کے اقتدارِ اعلی کے ساتھ ساتھ اکثر ریاستوں  پربھی قابض ہے،  تاریخی کتابوں میں بڑی بڑی تحریفات، جھوٹے پروپیگنڈے اور نصابی کتابوں میں غیر حقیقی باتیں شامل کرکے نئی نسل کو یہ بات سمجھائی جا رہی ہے کہ “ملک کی آزادی میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں تھا،  یہ ملک کے دشمن ہیں. وطن کے غدار ہیں”۔

یہ بڑا نازک وقت ہے. ایسے وقت میں اسلامی مدارس، مسلم اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے ذمے داران کو اپنے اوپر عائد ہونے والا فریضہ سمجھنا چاہیے اور اپنے اداروں میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات کو اُس زہریلی اور جھوٹی سوچ سے محفوظ رکھنے کا انتظام  و اقدامات کرنا چاہیے،  جو حکومت کی سرپرستی میں نئی نسل کے ذہن و دماغ میں بسائی جا رہی ہے،  اس سلسلے میں ہر ادارہ بآسانی  ان چند مشوروں پر عمل کرکے یہ کام بخوبی کر سکتا ہے۔

(1) آزادی کی جدوجہد میں مسلمانوں کا حصہ”کے موضوع پر تقریری و تحریری مقابلے کرائے جائیں۔

(2) مسلم مجاہدین آزادی کے متعلق انعامی کوئز کا انعقاد کیا جائے۔

(3) مسلم مجاہدین آزادی کی حیات و خدمات پر چارٹ تیار کرائے جائیں اور انھیں ادارے میں مناسب جگہوں پر  چسپا کریں ، بہتر ہوگا کے فریم کرکے پرمنینٹ لگایا جائے۔

(4) اعلی درجات کے طلبہ و طالبات کو تاریخی و نصابی کتابوں میں ہونے والی خیانتوں سے آگاہ کرانے کے لیے تحریری یا تقریری مسابقے کرائے جائیں،  اس کی نوعیت یہ ہوسکتی ہے کہ مختلف تاریخی و نصابی کتابوں کی طرف رہنمائی کر دی جائے اور ان میں موجود علمی خیانتوں کو علمی انداز میں اجاگر کرنے کو کہا جائے، لیکن اس میں اساتذہ کی مناسب رہنمائی بھی ضروری ہے۔

(5) یوم آزادی پر علاقے کے اہم برادران وطن، علاقائی لیڈروں اور پولیس چوکیوں یا تھانے کے ذمے داروں کو ناشتے یا کھانے کی دعوت  پر مدوع کیا جائے ۔

(6) یوم آزادی پر ہونے والے جلسوں میں بھی اس طرح کے اہم افراد کو نمایاں حیثیت (مہمان خصوصی، صدر جلسہ وغیرہ) کی حیثیت سے مدعو کیا جائے،  ساتھ ہی انھیں آزادی ہند کے مسلم رہنماؤں کے متعلق مکتوبات یا ان کی تصنیفات ہدیہ کی جائیں۔

(7) ممکن ہو تو اس موقعے پر علاقے کی غریب غیر مسلم عوام اور بالخصوص پچھڑے ہوئے طبقات کے لیے چھوٹے چھوٹے تحفوں کا نظم کیا جائے اور آزادی کے موضوع پر ایک عوامی جلسہ کرکے یہ چیزیں تقسیم کی جائیں۔

(8) یہ تجربہ اسپتالوں میں بھی کیا جاسکتا ہے کہ پھل اور جوس وغیرہ لے کر اسپتالوں کا دورہ کیا جائے اور بالخصوص غیر مسلم مریضوں کے درمیان ان چیزوں کو تقسیم کیا جائے،  اس بات کے اظہار کے ساتھ کہ یہ ہدیہ یوم آزادی کی خوشی میں ہے اور انکے علاج کے دنوں میں فارغ اوقات میں پڑھنے کے لئے انکی مادری زبانوں میں مسلم مجاہدِ آزادی پر تصنیف تحریریں یا کتابیں تحفتا پیش کی جائیں۔

(9) یوم آزادی سے ایک دن پہلے یا بعد میں سرکاری دفاتر کے اعلی افسران اور ان کے ماتحتوں کو بھی کچھ ہدیے تحفے پہنچانے کا نظم کیا جاسکتا ہے،  اس بہانے اعلی افسران سے ملکی حالات پر تبادلہٴ خیال کی بھی کوشش کی جائے۔

(10) یوم آزادی پر ہونے والی اپنی تمام سرگرمیوں کو الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے،  اردو کے ساتھ ساتھ بالخصوص ہندی، انگلش اور دوسری علاقائی زبانوں میں ان چیزوں کو عام کرنے کی پوری کامیاب کوشش کی جائے۔

(11)مسلم تعلیمی، سماجی، اقتصادی اور معاشی اداروں خاص طور پر دینی مدرس اور مساجد، مکاتب، خانقاہوں، درگاہوں ، اسلامی اسکولوں الغرض اسلامی  و  اردو اداروں کو چاہئے کہ آزادی کی مناثبت سے مسلم مجاہدین کی جدو جہد اور قربانیوں پر ڈرامیں اور نکڑ ناٹکوں کا اہتمام کیا جائے جس میں بہتر ہوگا کہ ڈرامہ نگاروں اور اسکول و مدارس کے استادوں کی رہنمائی حاصل کی جائے اور ڈراموں کے بطورِ اداکار اسکول کے بچوں کے ساتھ ساتھ مدارسِ دینیہ کے بچوں سے بھی ادا کاری کروائی جائے۔

(12)صبح سے ہی نکڑ اور چوہراہوں پر ترنگا لگانے  کا اہتمام کیا جائے اور بچوں کو اس موقع پر جمع کرکے بچوں میں مٹھائیاں تقسیم کی جائے جب کہ  اسی موقع پر اسپیکر  میں آزادی کے گیت خصوصا  ترانہ ہند “سارے جہاں سے اچھا” بجایا جائے اور اسکے مصنف کے بارے میں اور ایسی ہی دیگر مصنفین کے بارے میں باچون اور عوان الناس کو جانکاری فراہم کروائی جائے، اس کام کو بہترین طریقہ سے مسلم تعلیمی اداروں خاص طور پر دینی مدرس اور مساجد، مکاتب، خانقاہوں، درگاہوں ، اسلامی اسکولوں کو انجام دینے کی ضرورت ہے اور مزید یہ کہ  مساجد و مدارس کے دروازوں پر ترنگا لہرایا جائے یقینا ایسا کرنا نہ تو شریعت کے خلاف ہے اور نہ ہی ملک کے بلکہ مساجد اور مدارس کو تو ایسا قصدن کرنا چاہئے تاکہ غیروں کی شکایت کا موقع بھی نہ ملے اور کسی کی شکایت کے علاوہ اس کو  ہمارا  ملی و قومی فریضہ جانیں۔

اگر دجہ ذیل تمام ہدایات کو اخلاص نیت، ملّی محبت اور وطن دوستی کے جذبات کے ساتھ کیا جائے گا تو

ان شاء اللہ پروردگارِ عالم اجر عظیم سے نوازے گا اور گمنام اسلاف کو نئی نسل جان پائے گی یہ ہماری ملّی ضرورت بھی ہے  وقت کا تقاضہ بھی اور ملکی و قومی ضرورت بھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *