مسجدوں کے ایک فلور میں شادی ہال کھولیں

نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب

اسلام کوئی خشک مذہب نہیں ہے جس کے اندر انسان کے جذبات و احساسات کا خیال نہ ہو۔ اسلام انسان کے تمام احساسات و جذبات کا نہ صرف احترام کرتا ہے بلکہ انسان کو خوشیاں منانے، خوشیاں بانٹنے اور خوشی کے ساتھ جینے کی بھرپور تلقین بھی کرتا ہے۔ مگر ایک شرط کے ساتھ کہ خوشی ومسرت کی ساری تقریبات، سارے فنکشن اسلامی حدود کے اندر ہوں۔چنانچہ ترمذی کی ایک حدیث کا ترجمہ ہے:”حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس نکاح کا اعلان کیا کرو اور اسے مسجدوں میں انجام دو اور اس پر دف (ڈھول) بھی بجاؤ۔“

شادی بیاہ کو اسلام نے جس قدر آسان بنایا تھا اسی قدر مسلمانوں نے اسے مشکل بنادیا ہے۔ خاص طور پر ہندوستان میں ہندوانہ رسم ورواج نے شادی بیاہ میں اس طرح جڑیں پکڑ لی ہیں کہ اسلام نے جو طریقہ بتا یا تھا وہ مسخ ہوچکا ہے۔ مختلف رسم ورواج میں جہیز کی لعنت بھی اب مسلمانوں کے اندرپوری طرح سرایت کرچکی ہے۔ ویکیپیڈیا کے مطابق ہندوستان میں خواتین کے قتل کی مجموعی واردات میں چالیس سے پچاس فیصد واردات کے پیچھے جہیز کا ہاتھ ہوتا ہے۔ہندوستان میں ہر نوے منٹ میں کوئی نہ کوئی خاتون جہیز کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتی ہے۔

ایسی صورتحال میں اسلام کے طریقے کو اپنانے اور شرعی طریقہ نکاح کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام میں شادی بہت ہی سادہ اور سہل ہے، نکاح کیجیے اور ولیمہ کا انتظام کیجئے اور بس، مگر اس تقریب میں بہت سارے غیرشرعی رسم ورواج نے جگہ بنالی ہے۔ اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم شادی بیاہ کی تقریب کواسلامی طریقہ پر انجام دیں اور اس کا سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ  ہم شادی بیاہ کی تقریبات کو مسجدوں میں انجام دیں۔ آہستہ آہستہ اس کے اثرات ظاہر ہونے شروع ہوجائیں گے اور جتنے بھی غیر شرعی رسم ورواج ہیں وہ سب کم ہونے شروع ہوجائیں گے۔

مسجدوں میں نکاح پر جو مذکورہ حدیث ہے اسکے تین اجزاء پر غور کریں: پہلا یہ کہ نکاح کا اعلان کرو۔ اس کے جو بھی بہتر طریقے تمہارے زمانے میں رائج ہیں ان کا استعمال کرتے ہوئے نکاح کی تشہیر کرو، لہٰذا آج کے زمانہ میں کارڈ، ڈیجیٹل کارڈ، سوشل میڈیا اور دیگر طریقوں سے اپنے نکاح کا اعلان کرنا دین کا عین تقاضا ہے۔ دوسرا جزء یہ ہے کہ انہیں مسجدوں میں انجام دو۔ مسجدوں میں انجام دینے سے اگر یہ مطلب نکالا جائے کہ صرف نماز کے بعد نکاح پڑھا دیا جائے اور چھوہارے بٹوادیے جائیں تو حق تلفی ہوگی۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ نکاح کی تقریب اپنی مسجدوں میں انجام دو۔ اور نکاح کی تقریب اسلامی نقطہئ نظر سے کیا ہے؟ طرفین کا اکٹھا ہونا، دعوتیں کھانا اور کھلانا اور تحفہ و تحائف کا تبادلہ، لڑکی کا لڑکے کے ساتھ رخصت کیا جانا اور ایسی ہی تقریب کے بارے میں آپؐ نے فرمایا کہ اسے مسجدوں میں انجام دو۔ تیسرا جزء یہ ہے کہ اس موقع پر دف (وہ ڈھول جو ایک طرفہ ہوتا ہے) بھی بجاؤ۔ جہاں تک مسجد میں دف بجانے کا تعلق ہے تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ مگر مسجد کے حدود کے باہر یا لڑکا اور لڑکی کے گھروں پر ڈھول بجانے پر تقریباً سب کا اتفاق ہے۔ یہ حدیث حکم دیتی ہے  کہ خوشی و مسرت کے اس موقع پر  ڈھول بجاؤ۔ مگر ہم اپنے سماج میں کتنے غیر شرعی کام شادی کے موقع پر کرتے ہیں، مگر دفبجانا مناسب نہیں سمجھتے۔

جب سارے علماء اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ مساجد کے اندر نکاح نہ صرف جائز ہے بلکہ بعض کے نزدیک مستحب ہے تو پھر مسجدوں کے اندر شادی کرنے سے کیا چیز مانع ہے؟ مسجد کے اندر شادی بیاہ منعقد کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ مصلی اٹھادیں اور وہاں تقریب شروع کردیں، بلکہ ہم مسجد کے کسی ایک حصے کو ہال بناسکتے ہیں یا ایک ہال تعمیر کرواسکتے ہیں جہاں پر نکاح اور شادی بیاہ کی تقریبات منعقد کی جاسکتی ہیں، اس کے دو بڑے فائدے حاصل ہوسکتے ہیں۔

پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمارے سماج میں شادی کی تقریبات سے متعلق جو ہندوانہ رسم و رواج سرایت کرچکا ہے اس میں بہت حد تک کمی آنی شروع ہوجائے گی۔ مزید برآں اس موقع پر بعض تقریبات میں ناچ گانا اور دیگر غیر شرعی امور انجام دیے جاتے ہیں وہ یکلخت بند ہوجائیں گے کیونکہ مسجد کے احاطہ میں نہ تو اس کی اجازت ہوگی اورنہ ہی مسلمانوں کا ایمان اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ مسجد کی بے حرمتی کرنے پر اصرار کریں گے۔ یہاں پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مرد و عورت کا اختلاط ہوگا، اس کا جواب یہ ہے کہ مرد و عورت کے اختلاط کو روکنے کے بہت سارے طریقے موجود ہیں جن کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً مرد و عورت کا الگ الگ انتظام ہو جیسا کہ جلسوں اور دینی اداروں میں ہوتا ہے۔ اگر آپ کرنا چاہیں تو ہر مسئلہ کاحل ہے ورنہ ہر مسئلہ میں مسئلہ ہے۔

دوسرا فائدہ یہ ہوسکتا ہے کہ مسجد کے احاطہ یا اس کے تحت کسی ہال میں تقریب منعقد ہوگی تو اگر ایک طرف عوام کا فائدہ یہ ہوگا کہ جہاں انکو شادی ہال بک کرنے میں موٹی موٹی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے ان کو کم فیس دینی ہوگی، اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی مسجد کا مقصد پیسے کمانا نہیں بلکہ اپنے سماج کی خدمت کرنا ہے، لہذا

مسجد والے اسے بزنس کے طور پر استعمال نہیں کریں گے اور معمولی سے معمولی فیس لیں گے۔ چنانچہ جہاں ان کو ایک لاکھ روپئے کسی ہال کے لیے خرچ کرنے پڑتے ہیں وہاں وہ صرف پچاس ہزار روپے میں وہی سہولیات حاصل کرسکتے ہیں۔ مسجد کا یہ فائدہ ہوگا کہ مسجد کی آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ ہوجائے گا اور اسی پیسے کو دیگر فلاحی کاموں میں استعمال کیا جاسکے گا۔

ایسا نہیں ہے کہ ہم کسی تیسری دنیا کی باتیں کررہے ہیں یا کوئی ایسا خواب بیان کررہے ہیں جن کو شرمندہ تعبیر کرنا محال ہے۔ بلکہ ہمارے اور آپ کے علاقہ کی مسجدوں میں شادی ہال اگر نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کہیں اور بھی موجود نہیں ہے۔ خود ہندوستان میں ممبئی کی بعض مساجد میں اسی قسم کی تقریبات کا انتظام موجود ہے۔ مگر یورپ کے ممالک میں دیوبندی، اہلِ حدیث، سنی اور شیعہ سبھی کی مساجد میں عام طور پر شادی بیاہ کی تقریبات منعقد کرنے کے لیے باضابطہ مسجدوں کے اندر یا تو ہال بنے ہوئے ہیں یا اس کے احاطہ میں ایسی کسی بھی تقریبات کے منعقد کرنے کی پوری سہولیات موجود ہیں۔

برطانیہ، جرمنی، فرانس، امریکہ، آسٹریلیا اور کناڈا کی بیشتر مساجد میں شادی خانے یا شادی ہال موجود ہیں۔ جہاں پر اسلامی طریقہ پر شادی کی تقریبات انجام پاتی ہیں اور اس کی مناسب فیس بھی لی جاتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *