Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

قوم کی ترقی کے لئے تعلیم واحد راستہ

by | Mar 13, 2023

شاہ محمد ماگرے
ڈوڈہ، جموں
کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی علوم و فنون پر ہی محیط ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر ملک میں آئے روز نئے تجربات کرکے اپنی قوم کو متعدد علوم سے روبرو کراتے ہیں۔ بغیر تعلیم کے کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی ممکن نہیں ہے۔تعلیم حاصل کرنے کے لئے کسی ادراے کا ہونا لازمی ہے۔ اگر ہم یوٹی جموں وکشمیر کی بات کریں تو سرکاری سکول کی اتنی خستہ حالی ہے کہ آدمی سوچنے پر مجبور ہوتا ہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ ترقی یافتہ قوم نے تعلیمی اداروں پر کافی ترجیح دی ہے۔ دنیا بھر کی ترقی یافتہ قوموں کی پہچان ان کے بہترین اداروں سے بھی کی جاسکتی ہے۔اس سلسلے میں جب ہم نے بلاک ترقیاتی کونسلر فاطمہ بیگم سے بات کرنے کی کوشش کی جو ایک گجر طبقے سے تعلق رکھتی ہیں،انہوں نے بتایا کہ اگرچہ مجموعی طور پر کسی بھی قوم کو ترقی یافتہ بنانا ہو تو ان کے تعلیمی نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔ جموں و کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں تعلیمی نظام کی حالت انتہائی خستہ حال ہے جبکہ ہم نے کئی مرتبہ اس سلسلے میں محکمہ تعلیم کے افسران سے بات کرنے کی کوشش کی اور امید رکھتی ہوں کہ وقت آنے پر ہمارے تمام سکولوں کی حالت انتہائی بہتر ہوگی۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حالیہ برف باری، سیلاب وبارش سے مختلف علاقہ جات کے سکول مکمل طور پر تباہ برباد ہو چکے ہیں۔جس کی ایک اینٹ بھی باقی نہیں بچی ہے۔ یہاں بچوں کو پڑھنے کے لئے بہت ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بچے کھلے آسمان میں کیسے تعلیم حاصل کر سکتے ہے؟ چھوٹے بچوں کے لئے یہ بہت مشکل ہے۔ان کو پڑھنے کے لئے عمارت کا ہونا لازمی ہے۔ ادراے کے ا ندر طلباء کے لئے تمام بنیادی سہولیات کا بھی ہونا انتہائی لازمی ہے۔لیکن اس ترقی یافتہ دور میں تعلیم حاصل کرنا کتنا ناگزیر ہو چکا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ آج کے اس ڈیجیٹل دور میں جب تک ایک شخص تعلیم یافتہ نہ ہوگا تب تک وہ زندگی کے شب و روز آسانی سے نہیں گزار سکتا۔ مگر وطن عزیز ہندوستان میں جہاں ایک طرف بہتر تعلیم کے وعدے کئے جاتے ہیں وہیں دوسری طرف زمینی سطح پر بچے آج بھی کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
اس سلسلے میں ڈوڈہ کے سماجی کارکن طالب حسین کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر کا ضلع ڈوڈہ ہندوستان کے بالکل ایک کونے پر واقع ہے۔ یہ پہاڑی علاقہ جس قدر تعلیم کا محتاج ہے اور جس قدر یہاں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اس کی مثال یہاں کی بوسیدہ عمارتیں ہیں۔ آج جہاں بھی تعلیمی اداروں کی خستہ خالی کی وجہ سے یہاں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہیں ضلع ڈوڈہ کی تحصیل کاہرہ کے اندر قائم متعدد اسکولوں کی عمارتیں خستہ حالی کا شکار ہیں۔ موسم جب اپنی کروٹ بدلتا ہے تو کبھی بارش اور کبھی دھوپ ہوتی ہے اور ایسے موسم میں عمارت کے بغیر بیٹھنا مشکل ہوتا ہے۔ اسکول کی عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں۔جب بھی یہاں کی عوام نے اپنے مطالبات کو اعلی حکام تک پہنچانے کی کوشش کی،تو انہیں ناکامی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آسکا۔ انہوں نے امید جتائی کہ آنے والے وقت میں ضلع ترقیاتی کمشنر ڈوڈہ ان تمام مطالبات کو زیر بحث گاہیں گے اور تعمیراتی خدمات سے متعلقہ عمارات کو بہتر کریں گے۔ ضلع ڈوڈہ کے پہاڑی علاقہ ٹانٹہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن طارق حسین وانی کا کہنا ہے کہ ’جہاں ضلع ڈوڈہ کے متعدد اسکولوں کی خستہ حالت ہے وہیں تحصیل کاہرہ کے وانی پورہ وارڈ نمبر پانچ کے اندر موجود پرائمری اسکول وانی پورہ کی عمارت کئی سالوں سے خستہ حال ہو چکی ہے۔اس سال برف باری کے دوران اسکول کی عمارت اچانک زمین بوس بھی ہوگئی۔ لیکن محکمہ تعلیم کے اعلی آفیسران خواب غفلت میں سوئے ہیں اور اسکول کی عمارت کی طرف ان کا کوئی دھیاں نہیں ہے۔ کئی مرتبہ مقامی لوگوں کی جانب سے محکمہ تعلیم کے اعلی حکام تک یہ بات پہنچائی گئی مگر محکمہ کے اعلی آفیسران کے کانوں تک ان غریبوں کی آواز نہیں پہنچ سکی۔ مقامی لوگوں نے اس بات پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طلباء کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی مرتبہ اسکول کی عمارت کو لے کر متعلقہ محکمہ سے رابطہ کیا گیا مگر تاحال کوئی بھی کام نہ ہو سکا۔
اسی گاؤ ں کے ایک اور باشندہ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ ہمارے بچوں کو بہتر اور معیاری تعلیم نہ مل سکی۔ انہوں نے محکمہ تعلیم کے آفسران سے اپیل کی کہ اس عمارت کی فوری طور پر مرمت کی جائے تاکہ وہاں کے بچے بہتر تعلیم حاصل کر سکیں۔ اسکول کی عمارت نہ ہونے کے باعث کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال میں وہ اپنی تعلیم کو باقاعدگی کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتے ہیں جو کہ بچوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے۔اتنا ہی نہیں اس سے صرف اسکول جانے والے طلباء ہی نہیں بلکہ ان کے والدین بھی پریشان ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ محکمہ کی جانب سے اسکولوں کے لئے بہت سے فنڈ آتے ہیں لیکن اس رقم کا صحیح استعمال نہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں ناقص تعلیمی نظام ہے۔اس سلسلہ میں ڈی ڈی سی کاہرا مہراج دین نے بھی اسکول عمارت کو لے کر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے محکمہ تعلیم خواب غفلت میں سویا ہوا ہے اور انہیں طلباء کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے۔ایسے حالات میں اعلی حکام کی توجہ نہایت ہی ضروری ہے کیوں کہ جب تک عمارت نہ ہوں گی،بچوں کے سر پر چھت نہ ہو تو بچے تعلیم کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟خاص کر ضلع ڈوڈہ کے اسکولوں کی خستہ حالت دیکھ کر رونا آتا ہے۔کوئی بھی ان عمارتوں کی جانب توجہ نہیں دیتاہے۔ جبکہ حکومت کی جانب سے ہر سال کروڑوں روپے کے حساب سے فنڈ محکمہ تعلیم کے لئے مختص کئے جاتے ہیں۔ اس فنڈ کا صیح استعما ل ہونا چاہئے اور بوسیدہ اسکول کی عمارتوں کو نئے سرے سے تعمیر کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ جس میں پرائمری اسکول وانی پورہ سر فہرست ہے۔مقامی لوگوں نے محکمہ تعلیم، ضلع انتظامیہ ڈوڈہ اور جموں کشمیر یوٹی انتظامیہ سے اپیل کی کہ اس منہدم عمارت کے ساتھ ساتھ علاقے میں دیگر تمام منہدم شدہ اسکولی عمارتوں کی مرمتی کا کام جلد شروع کیا جائے تاکہ طلبہ بہتر طریقے سے تعلیم حاصل کرسکیں۔اگر اس عمارت کی مرمت کا کام جلد شروع نہ کیا گیا تو ممکن ہے کہ طلباء کو مزید نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔
بھیلسہ سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان خاتون رویسہ بانوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور محکمہ کو اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ زمین بوس عمارتوں کا حال اعلیٰ افسروں تک پہنچائیں تاکہ ان دوردراز   علاقوں میں بہترین تعلیم ممکن ہوسکے۔یہ بات عیاں ہے کہ تعلیم ہی انسان کی زندگی بسر کرنے کے لئے واحد راستہ ہے۔تو کیوں نہ بہترین تعلیمی اداروں کو فروغ دینے کا بندوبست کیا جائے۔بہترین تعلیم اداروں سے خواتین کی تعلیم بھی ممکن ہے۔امید ہے کہ انتظامیہ کا یہی منشور رہنا چاہیے کہ تعلیمی اداروں کو فروغ دیا جا سکے۔جس سے خواتین تعلیم یا فتہ ہو سکیں کیوں کہ مرد سے زیادہ ایک خاتون کا تعلیمی یافتہ ہونا قوم کے لئے کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔اس سلسلے میں جب ہم نے ضلع ترقیاتی کمشنر ڈوڈہ وشیش پال مہاجن سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم نے ایک پراجیکٹ تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس میں تمام تر سکولوں کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات سادر ہوں گے۔ان سے جب زمین بوس ہوئے سکولوں کو لیکر بات کی تو انہوں نے کہا کہ ضلع ڈوڈہ میں ان سکولوں کی فہرست تیار کی گئی ہے اور کچھ سکولوں کی فہرست ابھی باقی ہے اور تمام سکولوں کی مرمت کا کام جلدی شروع کیا جائے گا۔آخر عام انسان امیدوں پر ہی وابستہ ہے۔عوام کو آنے والے وقت کا انتظار رہے گا-

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...