ذات پات کی تفریق: ہم تعلیم یافتہ ہیں،بیدار نہیں

منجو دھپولا
اتراکھنڈ
دو سال قبل مدھیہ پردیش کے رتلام کی ایک تصویر نے لوگوں کو چونکا دیا تھا۔ جہاں ایک دلت برادری کے دولہے کو ہیلمٹ پہن کر گھوڑی پر سوار ہونا پڑاتھا، کیونکہ گاؤں کے اونچی ذات کے لوگ نہیں چاہتے تھے کہ وہ گھوڑی پر سوار ہو۔ پہلے اس کی گھوڑی چھینی گئی اور پھر اس پر پتھر برسائے گئے۔ دولہا کو پتھراؤ سے بچانے کے لیے پولیس نے ہیلمٹ کا انتظام کیا، تبھی بارات نکلی۔ ایسا ہی ایک اور واقعہ دو سال قبل ہریانہ کے کروکشیتر میں پیش آیا تھا جہاں دلت برادری کی ایک بارات پر اونچی ذات والوں نے یہ کہہ کر حملہ کر دیا تھا کہ دلت دولہا گاڑی پر ان کے مندر نہیں آ سکتا، اسے روی داس مندر جانا ہے تو جائے۔پتھراؤ کا واقعہ پولیس کی سیکورٹی کے باوجود پیش آیا۔ یہاں تک کہ اتراکھنڈ کا پہاڑی علاقہ بھی ذات پرستی کے اس امتیاز سے محفوظ نہیں ہے۔ لمچولا گاؤں، جو ریاست کے باگیشور ضلع میں واقع گروڈ بلاک سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ گاؤں پہاڑوں کی وادیوں میں بہت بلندی پر واقع ہے۔ دلت برادری کی اکثریت والے اس گاؤں میں تعلیم کی سطح بہت کم ہے۔ جس کی وجہ سے دیہاتیوں کو اپنے حقوق کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ گاؤں میں اب بھی ٹیکنالوجی کا فقدان ہے۔ تعلیم اور ٹیکنالوجی سے دور ہونے کی وجہ سے گاؤں میں قدامت پسند سوچ پوری طرح حاوی ہے۔ یہاں تنگ سوچ کے اصولوں پر، قانون کے بنائے گئے اصولوں سے بھی زیادہ سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔
 گاؤں میں ذات پات کی وجہ سے نوعمر لڑکیوں اور خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر قدم پر قدامت پسند سوچ اور پابندیوں نے ان کی تعلیم اور آگے بڑھنے کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔ ذات پات کی تفریق صرف سماجی ماحول میں ہی نہیں بلکہ اسکولوں میں بھی نظر آتا ہے۔ جہاں اساتذہ اور عملہ دلت برادری کے بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔گاؤں کی ایک نوعمر لڑکی سنجنا (نام تبدیل)، جو اسکول میں امتیازی سلوک سے پریشان ہے، کہتی ہے کہ ”جب ہم اسکول کے کچن میں پلیٹیں یا کوئی اور سامان لانے جاتے ہیں، تو ہمیں باورچی خانے کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر کچن کے لیے پانی بھرا جا رہا ہے تو ہمیں اس پانی کو ہاتھ لگانے سے سختی سے منع کیا جاتا ہے۔ اگر سکول میں ہی طلباء کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے تو کیا ہمارا مستقبل روشن ہو گا؟ کیا ہم اپنی زندگی میں کچھ نیا کرنے کی کوشش کریں گے؟ ہم روزانہ بہت سی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اسکول آتے ہیں، یہ سوچ کر کہ یہاں سے ہماری زندگی میں کچھ تبدیلی آئے گی، ہم خود کو بہتر بنائیں گے، لیکن یہاں بھی ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔“ گاؤں کی ایک اور نوعمر سنیتا (نام بدلا ہوا) کہتی ہے کہ”اگر مجھے حیض آتا ہے اور مجھے پانی کی ضرورت ہوتی ہے، یہاں تک کہ اگر میں کھڑا ہونے سے بھی قاصر ہوں، تو میری ذات کی وجہ سے کوئی میرے لئے پانی نہیں لائے گا۔ اسکول جاتے ہوئے اگر کسی لڑکی کو حیض آ جائے اور وہ راستے میں کسی کا باتھ روم استعمال کرنا چاہتی ہے تو پہلے اس سے اس کا مسئلہ نہیں پوچھا جاتا بلکہ اس کی ذات پوچھی جاتی ہے،لاکھ ضرورت ہو، اگر کوئی نیچی ذات کی لڑکی ہے تواسے وہ اپنا باتھ روم استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔“
گاؤں کی ایک خاتون ریکھا دیوی کہتی ہیں کہ بچپن سے ہی ہم نے اپنے ساتھ چھوا چھوت ہوتے دیکھا ہے۔ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تونیچی ذات کے لوگوں کے ساتھ بہت امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔ اسکول میں الگ بیٹھا کر کھانا دیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ پڑھے لکھے اساتذہ بھی ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کرتے تھے۔ اس وقت باتیں سمجھ نہیں آتی تھیں۔ لیکن آج یہ سوچ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ ہم اس دور سے گزر رہے ہیں کہ آج بھی پانی کے حوالے سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب گاؤں کی ایک بزرگ خاتون بچولی دیوی کا کہنا ہے کہ جب ہم کسی کام کے لیے اونچی ذات کے لوگوں کے گھر جاتے تھے تو وہ ہمیں کبھی اپنے گھر نہیں بٹھاتے تھے۔ لوگ اپنی ذات کے سامنے انسانیت بھول جاتے ہیں۔ ایسا نہ صرف گھروں میں ہوتا ہے بلکہ اسکولوں میں بھی ہوتا ہے۔ جہاں طلباء کو مساوات اور اتحاد کا درس دیا جاتا ہے۔لیکن حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ گاؤں کے سرپنچ پدم رام کا کہنا ہے کہ لمچولا میں بہت زیادہ ذات پات کی تفریق ہے۔ یہاں شادی جیسی تقریبات میں بھی ذات پرستی نظر آتی ہے۔ بڑی ذات کے لوگوں کو ایک لائن میں بٹھایا جاتا ہے جبکہ چھوٹی ذات کے لوگوں کو الگ لائن میں بٹھایا جاتا ہے۔
سماجی کارکن نیلم گرانڈی کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں صدیوں سے سماجی تفریق رائج ہے۔ سماجی نظام کے مطابق دلتوں کو سب سے کمزور اور بے بس سمجھا جاتا ہے اور پھر ذات پات کے نام پر ان لوگوں پر کئی مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ آج ہمارا معاشرہ بہت بدل چکا ہے۔ لوگ پڑھے لکھے ہو گئے ہیں۔ کمپیوٹر کا زمانہ آ گیا ہے۔ ہم نے مشن منگل کو کامیابی کے ساتھ شروع کیا ہے۔ لیکن پھر بھی عوام کی سوچ نہیں بدلی۔ ہم نے کبھی اس معاملے پر آواز تک نہیں اٹھائی کیونکہ یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ یہ ڈھانچہ شہروں کی نسبت دیہی ہندوستان میں زیادہ نظر آتا ہے۔ درحقیقت ہم پڑھے لکھے ضرورہیں لیکن بیدار نہیں ہوئے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *