ضلع پونچھ میں یونیورسٹی کیمپس کی اشد ضرورت

سعدیہ ثناء
پونچھ
ضلع پونچھ کی سرزمین صدیوں سے علم و ادب میں کافی آگے رہی ہے کیونکہ یہ سرزمین کرشن چندر جیسے اعلی پائے کے ادیب کی سرزمین ہے، اس کے علاوہ بہت سے بزرگوں کی اس سرزمین کے لیے تعلیم کے میدان میں قربانی رہی ہے۔بات کی جائے اگر ضلع پونچھ میں تعلیمی سرگرمیوں کی، تو یہاں 1954 میں گورنمنٹ ڈگری کالج پونچھ منظور ہوا۔یہ کالج اس وقت کے وزیر اعلی بخشی غلام محمد نے منظور کیا تھا۔کالج کھلنے سے ضلع پونچھ کے علاقے کے لڑکے اور لڑکیاں جوک در جوک تعلیم کے میدان میں آگے آنے لگے۔جبکہ اس دور میں بی اے دو سال کی ہوتی تھی۔ اس وقت ضرورت کے مطابق لڑکے اور لڑکیاں تعلیم سے فیض یاب ہوتے رہے۔ لیکن اب ایسا وقت آ گیا ہے کہ جو طالب علم کالج سے بی اے اور بی ایس سی مکمل کرتے ہیں یا تو ان کو ایم اے کی ڈگری کیلئے جموں یا ملک کے دور دراز کی یونیورسٹیوں میں جانا پڑتا ہے جو ہر ایک طالب علم کے لئے نہایت ہی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، کیونکہ پونچھ کے 95 فیصد طالب علم دیہات میں رہتے ہیں جہاں پر ان کے پاس مزید تعلیم کیلئے یا تو پیسہ نہیں ہوتا یا گائیڈنس نہیں ہوتی ہیں یا کئی اور وجوہات کی وجہ سے آگے اپنی پڑھائی کو مکمل نہیں کر سکتے۔ اس سلسلہ میں مقامی اعجاز احمد کہتے ہیں کہ جہاں موجودہ دور میں تعلیم کی اتنی اہمیت بڑھ گئی ہے کہ ہر طرف سماج میں صرف اور صرف پڑھائی پر چرچاکی جاتی ہے۔ ایسے میں ضلع پونچھ کے کچھ دور دراز کے علاقے ایسے بھی ہیں جہاں لوگوں کو اپنے بچوں کو آگے پڑھانے کا بہت شوق ہوتا ہے لیکن کئی وجوہات کی وجہ سے بچے گھروں سے باہر نہیں نکل نہیں سکتے ہیں اور نہ ہی حالات انہیں اجازت دیتے ہیں۔جبکہ باوجود اس کے یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں کہ کئی نوجوان اعلی عہدوں پر فائز ہیں ااورپنی محنت کے بل بوتے پر وہ پڑھ کر آج بہت اونچے مقام پر پہنچے ہیں۔
لیکن باوجود اس کے پونچھ میں ایک یونیورسٹی کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ بہت سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آگے پڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن محض ایک یونیورسٹی نہ ہونے کی وجہ سے وہ گھروں سے نکل کر دوسرے شہروں میں نہیں جا سکتے۔غربت اور پسماندگی کے شکار اس ضلع کے بچوں کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کیمپس کا کام بہت سالوں سے لگا ہوا ہے۔لیکن ابھی تک یہ کیمپس مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ یہ یونیورسٹی کیمپس ضلع پونچھ کے ڈینگلہ علاقہ میں بنایا جا رہا ہے۔ابھی تک ضلع پونچھ کے اندر صرف ایم اے کی ڈگری سیری کلچرمیں کروائی جاتی ہے اور اس کی کلاس بھی کالج کے اندر ہی لگتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پونچھ کے اندر یونیورسٹی کیمپس کاہونااشد ضروری ہے تاکہ جس کورس میں طالب علم شوق رکھتے ہوں وہ اسی مضمون میں اپنا شوق مکمل کر سکیں۔ اس حوالے سے ایک طالبہ عابدہ کہتی ہیں کہ مجھے پڑھائی لکھائی کرنے کا بہت شوق تھا۔ میں نے بی اے پونچھ کالج سے کی اور ایم اے ریگولر کرنے کا بہت شوق رکھتی تھی۔ لیکن میرے لئے گھر سے باہر جانا بہت مشکل تھا اور اسی وجہ سے میں آج تک ماسٹر ڈگری نہیں کر پائی۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ مجھ جیسی کئی اور بھی خواتین ہیں جو آگے پڑھنے کا شوق رکھتی ہیں۔اگر پونچھ میں ہی یونیورسٹی کا کیمپس ہوتا تو مجھ جیسی دیگر لڑکیاں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کر اپنے خواب کو مکمل کر سکتی تھی اور اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکتی تھی۔ایک دیگر نوجوان شعیب کا کہنا ہے کہ میں ایم اے ضلع پونچھ میں ہی رہ کر کرنا چاہتا تھا کیوں کہ میرے گھر کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ میں اپنے والدین کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔اگر میں یہاں پر رہ کر پڑھتا تو دن کو یونیورسٹی جاتا اور رات میں گھر آکر ان کے پاس ہوتا تو مجھے بھی سکون ہوتا اور ان کے دل کو بھی آرام آتا۔وہ مزید کہتے ہیں کہ ایک میں ہی نہیں، مجھ جیسے کئی نوجوان اسی وجہ سے باہر نہیں جا سکتے جس کی وجہ سے بہت سے نوجوانوں کا مستقبل داو ں پر لگ جاتا ہے۔
 نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں ایم اے کی ڈگری گھر بیٹھ کراگنو جیسی اوپن یونیورسٹیوں سے کرنی پڑتی ہیں۔جبکہ ہمیں ریگولرکورس کرنااور روزانہ کلاس جانابے حد پسند ہے کیونکہ انسان روزانہ جانے سے بہت کچھ سیکھتا ہے اور ہم ان چیزوں سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں آگے آنے کے لئے بھی کبھی موقع نہیں ملتا۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ اگر ضلع پونچھ میں یونیورسٹی کا کیمپس دیا جاتا تو بہت سے نوجوانوں کا مستقبل خراب ہونے سے بچ جاتا اور وہ اپنے والدین کا خواب بھی مکمل کر سکتے۔ وہیں ضلع پونچھ کے بیشتر نوجوان طالب علموں کی یوٹی انتظامیہ سے یہی گزارش ہے کہ حکومت ہمیں جلد سے جلد یونیورسٹی کیمپس دے اور پونچھ یونیورسٹی کیمپس کے کام کو پایا تکمیل پہنچائے تا کہ وہ بھی ریگولر اپنی پڑھائی کو جاری رکھ سکیں اور آنے والی نسلوں کو فائدہ  پہنچا سکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *