صکوک
ایم بی اے – فائنانس
کے جی این انڈسٹریز لمیٹیڈ ممبئی
صکوک، فکسڈ پروفائل اور بہتر کریڈٹ جیسی خصوصیات کی وجہ سے اسلامی کیپٹل اور منی مارکیٹ میں مقبول ترین اور عمومی مستعمل مالی آلات میں سے ایک ہیں۔ صکوک سب سے تیزی سے ابھرنے والے متبادل وسائل اور کیپٹل مارکیٹ ذرائع ہیں جن کا استعمال زیادہ تر جی سی سی و مشرق وسطی اور پھر جنوب مشرقی ایشیا میں وہاں کی حکومتوں، حکومت کے ماتحت اداروں اور کارپوریشنز کی طرف سے کیا جارہا ہے۔ صکوک مارکیٹ بڑی تیزی سے عالمی کیپٹل مارکیٹ میں اپنا مقام بنا رہا ہے اور اس کی جغرافیائی رسائی انتہائی شاندار طریقے سے وسعت حاصل کر رہی ہے۔
صکوک خاص منصوبوں یا خصوصی سرمایہ کارانہ سرگرمیوں سے متعلق ٹھوس اثاثوں کی ملکیت میں غیر منقسم حصص کی نمائندگی کرتا ہے۔ چونکہ صکوک سرمایہ کار، سرمایہ کاری سے منسلک اثاثوں کی ملکیت میں ایک عام حصہ رکھتا ہے لہذا وہ بنیادی اثاثوں میں ایک غیر منقسم منفعت بخش ملکیت کا حامل ہوتا ہے۔ چنانچہ صکوک ہولڈرز صکوک اثاثوں سے پیدا کردہ آمدنی میں حصے کے حقدار ہوتے ہیں۔
صکوک ایک ایسا قانونی انسٹرومنٹ ہے جو شریعہ قانون کے موافق ہے، یہ شریعہ کے علماء اور متعلقہ ریگولیٹری حکام کی طرف سے منظور شدہ ونظرثانی کردہ قانونی معاہدوں کے ذریعہ چلایا جاتا ہے۔ (یہ سرمایہ کاروں کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے)
جاری کردگان (Issuers) کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ قسط اور اصل رقم کی ادائیگی معینہ دنوں میں کردیں۔
جاری کنندگان (Issuer) کو صکوک اثاثوں سے حاصل کردہ منافع / نقصان کی تقسیم کرنا ہوتا ہے۔ (صکوک ہولڈرز کو آمدنی فراہم کرنے کے لئے)
صکوک اثاثہ پر مبنی مستحکم آمدنی والی سیکورٹی ہے اور سیکنڈری مارکیٹ میں بغرض تجارت استعمال کی جاسکتی ہے۔ (سرمایہ کاروں کو لیکویڈیٹی فراہم کرنے کے لئے﴾
عام طور پر صکوک کی قسمیں، قرض میں جزوی ملکیت (صکوک مرابحہ)، اثاثہ (صکوک اجارہ)، منصوبہ (صکوک استثناء)، کاروبار (صکوک مشارکہ)، یا سرمایہ کاری (صکوک استثمار) ہیں۔
صکوک مارکیٹ کا عالمی منظرنامہ
صکوک کا اولین عالمی اجراء سال 2001 میں ملیشیائی حکومت کے خود مختار صکوک سے ہوا۔ عالمی صکوک اجراء بازار (Global Sukuk issuance market) 2001 میں 600 ملین امریکی ڈالر سے 2010 میں 50.5 بلین اور 2011 میں 47.865 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گیا۔
ایشیا و مشرق بعید |
حجم ﴿ملین امریکی ڈالر میں﴾ |
اجراءات کی تعدار |
مجموعی ویلیو کا % ﴿فیصد﴾ |
ملیشیا |
5,496 |
12 |
12% |
انڈونیشیا |
650 |
1 |
1.4% |
پاکستان |
600 |
1 |
1.3% |
برونائی دارالسلام |
200 |
2 |
0.42% |
میزان |
6,946 |
16 |
15% |
جی سی سی و مشرق وسطی |
|||
بحرین |
5,633 |
90 |
12% |
قطر |
2,020 |
4 |
4% |
سعودی عرب |
5,440 |
9 |
11% |
یو اے ای |
25,050 |
30 |
52% |
کویت |
1,575 |
9 |
3% |
میزان |
39,718 |
142 |
83% |
افریقہ |
|||
سوڈان |
130 |
1 |
0.3% |
میزان |
130 |
1 |
0.3% |
دیگر |
|||
جاپان |
100 |
1 |
0.2% |
ترکی |
100 |
1 |
0.2% |
یو کے |
271 |
2 |
0.6% |
یو ایس اے |
600 |
2 |
1.3% |
کل میزان |
47,865 |
165 |
100% |
بحوالہ: آئی آئی ایف ایم: دی انٹرنیشنل اسلامک فائنانشیل مارکیٹس آرگنائزیشن
جنوب مشرقی ایشیا
یہ خطہ ملیشیا کی صکوک اور اکوئٹی مصنوعات میں جاری قیادت کے ساتھ اس مارکیٹ میں اپنی کلیدی حیثیت پر برقرار ہے۔ عالمی صکوک مارکیٹ کے زیادہ تر اجراءات (Issuances) ملیشیا کے صکوک پر مشتمل ہیں جو جنوب مشرقی ایشیا میں اس مدت کے کل اجراء کا 80 فیصد حصہ رکھتا ہے۔ ملیشیا کو ایک اسلامی اقتصادی مرکز اور معروف ترین اسلامی سرمایہ بازار بنانے کی سمت میں حکومت کے تعاون کا یہ ایک براہ راست نتیجہ ہے۔
جی سی سی ﴿خلیجی ساحلی ممالک﴾
خلیجی ساحلی ممالک میں صکوک مارکیٹ میں گراوٹ آئی ہے، لیکن اس گراوٹ کے باوجود اسلامی بانڈ اور اکوئٹی فنڈ کاروبار کو فروغ دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں، – بحرین کے مرکزی بینک نے نئے ایک نیا ریگولیٹری فریم ورک متعارف کرایا ہے جو احتیاطی محفوظوں (Hedge Funds)، ماخوذات (Derivatives) اور متبادل سرمایہ کاری وسائل سمیت وسیع تر سرمایہ کارانہ سرگرمیوں کا راستہ ہموار کرتا ہے۔ دبئی بھی شریعہ موافق انسٹرومنٹس کے غیر ملکی صارفین کے نزدیک اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ پرکشش بنانے کے لئے مسلسل کوشاں ہے۔ اسی ہدف کو پیش نظر رکھ کر اس نے سیکورٹیز کمیشن کے عالمی ادارہ کی جانب سے مقررہ ضابطوں کے مطابق معیار قائم کرنے اور ریگولیٹرز کے درمیان اطلاعات کی تقسیم و تعاون کے لئے معاہدوں پر دستخط کرنے کی سمت پہل کی ہے۔ ملیشیا اور دیگر عرب ممالک میں صکوک کی کامیابی کے درمیان اس نمایاں فرق کو ان ممالک کے صکوک بورڈوں کی جانب سے شرعی قوانین کی تشریح میں ہونے والے فرق سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب میں جو اسلام کی وہابی شکل کو مانتا ہے، شریعت کی تشریح سخت ہے؛ دریں اثناء ملیشیا میں سنی اسلام کے شافعی اسکول کے تحت قوانین کی انتہائی لچکدار تفہیم نے اسے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی بانڈ مارکیٹ بنانے میں بہت مدد کی ہے۔ خلیجی ممالک میں عام طور پر ان دو انتہاؤں کے درمیان ایک درمیانی راہ استعمال کی جاتی ہے۔
صکوک اور ہندوستان کی کہانی
ہندوستان میں اسلامی مالیاتی پالیسیوں کے فقدان نے انڈین کارپوریٹ کے ذریعہ صکوک بانڈ کے اجرا کا سوال اٹھایا ہے۔ حالانکہ اپنی منفرد خصوصیات اور شریعہ قانون کے موافق ہونے کی وجہ سے یہ خلیج اور ملیشیا کی معیشت کے لئے ایک بہت بڑا موقع ثابت ہوگی کہ وہ ہندوستانی معیشت میں سرمایہ کاری کریں، جس کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے بہاؤ اور غیر ملکی راست سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ لیکن چونکہ صکوک بانڈ سرمایہ کاری پر طئے شدہ منافع (Fixed Return) فراہم نہیں کرتا، اس لئے ریگولیٹری اتھارٹیوں نے ان وسائل کو منظوری نہیں دی ہے۔
خلاصہ:
بین الاقوامی صکوک مارکیٹ سال 2001 میں شروع ہوا اور اس نے جلد ہی نہ صرف اجراءات بلکہ ساختی جدت (Structural Innovation) کے معاملے میں بھی رفتار حاصل کرلی۔ صکوک مارکیٹ نے سال 2004 سے 2007 کے درمیان اضافے کی ریکارڈ شرح درج کی اور کارپوریٹ، نیم سرکاری اور خود مختار جاری کنندگان کے ذریعہ بین الاقوامی و ملکی دونوں اجراءات میں کئی سنگ میل پار کرلئے۔ 2008 کے مالیاتی بحران نے صکوک مارکیٹ کو بھی متاٴثر کیا۔ 2009 اور 2010 کے اواخر عرصے میں زیادہ تر بین الاقوامی صکوک بحرین، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات اور قطر کے خود مختار اور نیم سرکاری اجراءات تھے۔
تاہم اگر ہندوستان اسلامی فائنانس کو تسلیم کر بھی لیتا ہے تب بھی ریگولیٹری ماحول کو فعال بنانے کا مسئلہ نئے اور موجودہ کئی علاقوں میں ہنوز قابل توجہ رہے گا۔