
اچھے کاروبار کی ایک صفت سماجی خدمت
اس دہائی کے آغاز کے ساتھ ہندوستان میں اصل دھارے کی تجارت کی فکر میں کارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری کے تصور نے قبولیت حاصل کرناشروع کیا۔ یہ بہت سی دوسری چیزوں کی طرح نئے ملبوس میں پرانا تصورہے۔
قدیم زمانوںمیںصرف نیک لوگ ہی خلق خدا کی بڑی خدمت نہیں کرتے تھے ،تجارت پیشہ لوگ بھی اپنی کامیاب کوششوں سے ہونے والے منافع کا ایک حصہ سماج کو واپس دینے کیلئے الگ کردیتے تھے۔ راجستھان میں سولہویں صدی کے دوران اس نے باولیاںبنانے کی صورت اختیار کرلی۔یہ ایسے کنویں ہیں جن کے اندر اترنے کیلئے سیڑھیاں تعمیر کی جاتی تھیں۔ یہ بائولیاں خشک، گرد بھرے میدانوںمیں سفرکرنے والے پیا سے مسافروں کو پینے کا پانی فراہم کرنے کیلئے بنائی جاتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ اس وقت اسے کارپوریٹ گھرانوں کی سماجی ذمہ داری کا نام نہیںدیاگیاتھا لیکن جذبہ وہی تھا۔
اس کے بعد ٹاٹا گروپ کا سماجی ذمہ داری کاریکارڈ ہے جس کے سابق لیڈر جے آرڈی ٹاٹا نے موہن داس کرم چند گاندھی کے اس خیال کو دل کی گہرائیوںمیںجگہ دی کہ تجارت کو عوامی دولت کی امانت کے ڈھنگ سے کام کرناچاہئے۔
کارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری کی اس طویل تاریخ میں امریکی کمپنیاں اپنے نجی ابواب کے اضافے کررہی ہیں۔ پرانے کام کو تکمیل تک پہنچانے کیلئے کوکا کولا انڈیا نے ان میں سے بعض قدیم سماجی ذمہ داریوں کو بحال کرنے کیلئے حکومت کے اداروں کی معاونت سے کا م شروع کردیا ہے۔ شہر جے پو رکے آس پاس کی ۲باولیوں کی شوکت رفتہ کوکاکولا انڈیا نے بحال کیا۔ دہلی جے پور شاہراہ پر ایک چھوٹے سے گائوں میں سرائے بائولی کسی زمانے میں کوڑے اوراینٹ پتھر سے بھرگئی تھی لیکن اب اس میں نہ صرف مچھلیوں کی پرورش ہوتی ہے بلکہ جھنڈ کی صورت میں انہیں تیرتے بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔پائپ ڈال کر پانی نکالنے کے نظام کے بغیر مقامی باشندوںکیلئے اس بائولی سے پانی بھی فراہم کیاجاتاہے۔ اس بائولی کی بحالی میں کلیدی کردار نبھانے والے ایک مقامی شخص موہن لال سینی نے بتایا کہ ’’نیچے کا حصہ خوبصورت ہے۔ اس کی بہت سی سیڑھیاںہیں۔ اس بائولی میں پانی کی سطح اتنی اوپر ہے کہ نفاست سے بنائے گئے محرابی راستے بہت حد تک ڈھک گئے ہیں۔ یہ سچ مچ ایک خوشگوار مسئلہ ہے۔ ‘‘
آج امریکی کمپنیوں کی کارپوریٹ ادارے کی سماجی خدمت کی کوششیں پہلے کبھی سے زیادہ جامع ہیںاوراسی لئے کسی اکائونٹنٹ کے کام میں شامل ذمہ داریوں میںماحولیات کی خدمت کرنے کا راستہ تلاش کرنا شامل ہے۔ تجارت میں قول قرار کی جڑیںگہری اتری ہوئی ہیں۔ ہال تک پہنچنے والے راستہ میں مسکراتے ہوئے بچوںکی تصویروںکے پاس سے گذرکر ایسے ـمکعبی کمروںتک پہنچا جا سکتا ہے جہاںملازمین کیلئے آواز بندی کے نظام لگے ہوئے ہیں تاکہ نابینا لوگوں کیلئے نصابی کتابوںکی خواندگی کی جا سکے۔یہی قول وقرار زمین میںبھی گہرا اترگیاہے۔ اب بارش کا پانی جمع کرنے کا نظام زیرعمل ہے جو کہ گرمیوںمیںپانی کی سوکھی ہوئی سطح کے نیچے تک پہنچ جاتا ہے۔
نئی دہلی میں امریکی سفارت خانہ میں تجارتی امور کے منسٹر قونصلر کارمائن ڈی ‘ایلیسیوکاکہنا ہے کہ ’’امریکی تجارت کارپوریٹ شہریت کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہے اورتعلیم ،رسائی اورملازمین کی شرکت کی صورت میںڈھیرسارے کام کرتی ہے۔ ‘‘
انسانی ہمدردی سے آگے
اگرچہ یہ باربار استعمال ہونے والی تجارتی اصطلاح ہے لیکن کارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری کی تعریف کچھ زیادہ دشوارہے۔ بوسٹن یونیورسٹی کے ایک ماہر بریڈلی گوگنس نے ،جو اس سال گرمیوں میںاپنا پیغام لے کر ہندوستان آئے ہوئے ہیں، وضاحت کی کہ ’’کچھ لو گ کارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری کو خیرات جیساسمجھتے ہیں لیکن یہ زیادہ وسیع ساخت ہے جس میں اس طرح کام کا احاطہ ہوتاہے کہ ایک کمپنی اپنے تمام تربرتائو، اپنی تیارکردہ مصنوعات ، اپنے ملازمین کے ساتھ سلوک ، لائق برداشت ماحول یقینی بنانے کی کوشش، اورکمپنی کاکام کاج چلانے میں مہارت کی اپنی قدروںکے سا تھ کام کرتی ہے۔ ‘‘
اس کیلئے ضروری نہیں ہے کہ یہ کمپنی کی دیگر سرگرمیوںسے الگ کوئی سرگرمی ہو۔ سچ تویہ ہے کہ ایموری یونیورسٹی کے پروفیسر جگدیش سیٹھ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جب ملازمین اور انتظامیہ دونوںکارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری پر یقین کرنے لگتے ہیں اور اسے اپنے منفعت کے نظام کا حصہ بنالیتے ہیں تو اس کا امکان بڑھ جاتاہے کہ اسے زیادہ لمبی مدت تک چلایاجاتارہے گا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کسی کے ساتھ مل کر جو ایک کتاب ’’فرمس آف ان ڈیرمنٹ‘‘ تصنیف کی ہے اس میںیہ بھی لکھا ہے کہ جوکمپنیاںمعاشرے میں بحیثیت مجموعی اپنی قدرزیادہ سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کرتی ہیں ’’ان کواپنی ایسی ہم تجارت کمپنیوں پر پائیدار مقابلہ جاتی سبقت حاصل ہوجاتی ہے جو کہ زیادہ روایتی شیئر ہولڈر تناظرپریقین رکھتی ہیں۔‘‘ انہوں نے بھی نتیجہ اخذکیا کہ اس طرح کی کمپنیوں کی طویل مدتی اسٹاک کارکردگی بھی بہترہوتی ہے۔
کارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری نبھانے کی مربوط کوشش سے نہ صر ف کمپنی کی شبیہ بہتر ہوتی ہے بلکہ ملازمین کی بھرتی بھی بڑھتی ہے اوران کا حوصلہ بھی بلند ہوتاہے۔ چونکہ روزگار کے اہل متلاشیوںکا رویہ امتیازی ہوتاہے اس لئے وہ صرف بڑی تنخواہوںکی تلاش ہی میں نہیں رہتے بلکہ ایسی کمپنی بھی تلاش کرتے ہیں جس کی شبیہ اچھی ہو اور جو سماج میںسرگرم ہو۔ گروہی بندھن آسانی سے نہیں بنتا۔ایسا نہیں ہے کہ کمپنی میں ملازمت حاصل کرلینے بعدکارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری سے متعلق کسی منصوبے پر عمل درآمد کے دوران گروہی بندھن بہت جلد مثال کے طور پر چھٹیوں کی ایک پارٹی کے دوران بن جائے۔ اس کے علاوہ جیسا کہ ہندوستان میںامریکن چیمبرآف کامرس کے ایگزیکیوٹیو ڈائرکٹر اجے سنگھا نے کہا ہے کہ جب آپ کے یہاں ماحول اچھا ہو اورسماجی خدمت کا ایک اچھا ریکار ڈ بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ ریاستی حکومتیں آپ کو اپنے یہاں تجارت کیلئے مدعو کریںگی۔
ہندوستان میںکارپوریٹ قائدین اس کاکھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں ان سے قبل کی کوششوں میں اکثر ہم آہنگی اور مابعد کی کارروائی کا فقدان ہوتا تھا۔ ان لوگوںنے یہ بات جان لی ہے کہ خیراتی تنظیموں کے نام چیک کاٹ دینے کا پرانا طریقہ اب خاطرِخواہ نہیں رہ گیا ہے۔سنگھانے کہا کہ کارپوریٹ خاص کر امریکی کارپوریٹ ادارے اب ہندوستان میں اپنی موجودگی کے بارے میں بہت پختہ ہوگئے ہیں۔۔۔۔ وہ اب اس با ت سے پوری طرح واقف ہیں کہ یہاں ان کے وجود کا ایک لاینفک جز کارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری کی تکمیل بھی ہے۔اس حد تک کہ چیمبر نے امریکی کمپنیوں کے لئے کارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری ایوارڈ دینے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے اور اس سال کے آخری مہینوں میں کسی وقت یہ ایوارڈ دیاجائے گا۔
کوکاکولا کا سفر
کوکاکولا کا ہی معاملہ لے لیں ۔۲۰۰۹میں اس کمپنی نے کارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری میں بہترین طور طریقوں کیلئے سماجی اورکارپوریٹ کام کاایوارڈ بامبے اسٹاک ایکسچینج سے حاصل کیا۔ ۲۰۰۸ میں نیس کام فائونڈیشن اورٹائمس فائونڈیشن نے اسے ایوارڈ دیا تھا۔ اس نے سماجی ذمہ داری کی کوششیں نبھانے کے سلسلے میں متعدد ایوارڈ حاصل کئے ہیں۔ یہ کمپنی کے اندر تبدیلیوں اور سماجی ذمہ داری کیلئے اس کے طرز عمل کے ثمرات ہیں۔
اس دہائی کی ابتدا کے برسوںمیںبعض ہندوستانیوںنے یہ بات محسوس کی کہ کوک کے بوتل بندی کارخانوںکی وجہ سے مقامی طورپر زیرِزمین پانی کی سطح نیچے اتررہی ہے۔ اس کے ساتھ بڑے پیمانے پر بحث شروع ہوگئی۔ مواصلات کے نائب صدر دیپک جولی نے کہا کہ ’’ہوسکتا ہے کہ ابتدائی دنوںمیںکارخانے قائم کرتے وقت ہم لوگوں سے کوئی غلطی ہوئی ہو لیکن سچائی یہ ہے کہ ہم اس مرحلے سے بہت آگے نکل آئے ہیں۔ ‘‘
کوکاکولا نے کارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری نبھانے کی سرگرمیاں ۲۰۰۲میںشروع کیں لیکن یہ محسوس کیا کہ اسے اورآگے لے جانے کی ضرورت ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۲۰۰۶میںایک ہی دفترکے اندران تمام کوششوںکومربوط کیاگیا ۔جن لوگوںکو نئے فرائض سونپے گئے ا ن میں ایک پروین اگروال ہیں وہ جنرل منیجر کے مرتبے کے عہدیدارہیں اورمضبوط تجارتی پس منظرسے آئے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ اس کام نے ان کا نقطۂ نظر ہی تبدیل کردیا۔انہوں نے کہا کہ’’ اب آپ کو مجھ میں اورکسی رضا کارتنظیم سے وابستہ کسی روایتی کارکن میںکوئی فرق نہیںملے گا۔‘‘انہوں نے کہا کہ’’ہم لوگ اب میدان میںکام کرکے اوراپنے ہاتھ گندے کرکے خوش ہوتے ہیں۔ ‘‘
پروین اگروال جیسے لوگوں کا کمال ہے کہ اعلیٰ عہدوںسے ملنے والی ان کی قیادت نے کمپنی کے سلسلہ ء مراتب میںنیچے تک کارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری کیلئے جو ش وخروش پیدا کردیاہے۔ اگروال نے بتایا کہ ’ ’ہم لوگ ایسی زبان نہیںبول رہے ہیں جو بیلنس شیٹ میں بالکل اجنبی ہو۔ہم لوگوںکو اس کا اندازہ ہے کہ ہم کسی پروڈکشن منیجر سے یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ اپنا پیداواری کام کاج اورفروغ کی سرگرمیاں چھوڑکر شجر کاری کرتا پھرے لیکن اگراسے اس کا احساس ہوجائے کہ پودا لگاتے دیکھ کر لوگ اس کا زیادہ احترام کریںگے تووہ کاروبار میں زیادہ دیر تک ٹکنے کے لائق بن جائے گا۔‘‘
دیگرتدبیروں جیسے کہ گندے پانی کی بازیافت کے علاوہ بھی کوک نے ماحولیات اورلیاقتِ برداشت کے سلسلے میں ایک مشاورتی کونسل بنائی ہے۔ مرکزی زیرزمین پانی بورڈ کے سابق چیئرمین سلیم رومانی سمیت جو لوگ اس کونسل میں شامل ہیں ان کی ٹیم ۳ مہینے میںایک بار ہربوتل بندی کارخانے کا دورہ کرتی ہے اورنہ صرف اس کارخانے میں پانی کے استعمال کا محاسبہ کرتی ہے بلکہ ماحولیات پرپڑنے والے مجموعی اثرات کا جائز ہ بھی لیتی ہے۔ ان تبدیلیوںکے ٹھوس نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ پورے ہندوستان میں کوک کی بوتل بندی میں پانی کا استعمال ۲۰۰۴میں ۶۲۔۵بلین لیٹرتھا جو کہ۲۰۰۵میں گھٹ کر ۴۳۔۴بلین لیٹررہ گیا۔۲۰۰۸میں کوک کی پیداوار میں چونکہ ۳۷ فیصد اضافہ ہوااس لئے بوتل بندی کارخانوں میں پانی کا استعما ل بڑھ کر۶ بلین لیٹرتک پہنچا۔ یہ بات کمپنی نے اسی سال ماحولیات سے متعلق اپنی رپورٹ میںبتائی بھی۔
پارٹنر شپ کی اہمیت
مائکروسافٹ کی ملک گیرسطح پر کارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری کا امکان بہت جاندار ہے۔ مائکروسافٹ دنیا کے ۱۱۱ملکوں میں پڑھنے سیکھنے سے متعلق لرننگ پروگرام میں عالمی شراکت دار ہے اوراسی کے حصے کے طورپر صرف تعلیمی ترغیب کیلئے اس نے ہندوستان کو ۲۰۰۳سے ۲۰۱۳تک ۴۰ملین ڈالردینا منظورکیا ہے۔ اسکول ٹیچروںکو ٹکنالوجی میںتربیت دینے کے پروگرام ’ پروجیکٹ شکشا‘ سے ابھی تک۴۷۰,۰۰۰شرکاء فارغ ہوچکے ہیں۔ اس منصوبے کے سربراہ سنیت سیٹھی نے کہا کہ ’’یہ تصور ۲۰۰۴ کا ہے جب ہندوستان میںاطلاعاتی ٹکنا لوجی نے اپنے ہاتھ پائوںاتنے نہیںپھیلائے تھے۔جیساکہ بہت سارے علاقوںمیںہورہاہے، اب تو اسکولوں کو بھی کمپیوٹرلیب فراہم کرنے کے وسائل ملنے لگے ہیں لیکن تب کی صورتحال یہ تھی کہ اساتذہ کمپیوٹر چھونا بھی پسند نہیںکرتے تھے بلکہ اس سے خوف کھاتے تھے۔
یہ پروگرا م سرکاری نجی شراکت نمونہ کے تحت ریاستی حکومتوںکے ساتھ شروع کیاگیا۔ سب سے پہلے اسے اتراکھنڈ نے اپنایا۔جو اساتذہ مائیکروسافٹ کی جماعت کے کمروںمیں دن گذارتے ہیں ان کے سفراورقیام کا خرچ ریاستی حکومت فراہم کرتی ہے۔ کمپنی آلات دیتی ہے، اپنے تربیت کاردیتی ہے، نصاب فراہم کرتی ہے، ٹریننگ کے بعداگرضرورت ہوتو ان تربیت یافتگان کی مددکرتی ہے اوران کے کام کاج کا اندازہ بھی قائم کرتی ہے۔
چونکہ یہ منصوبہ بنائو، مالک بنو، آپریٹ کرو اور منتقل کروکے (بی او اوٹی) نمونے کے تحت چلایاجارہاہے اس لئے کئی برسوں کے بعد مائیکرو سافٹ اس طرح کے کسی بھی مرکز کواوراس کے اسٹاف کو ریاستی حکومت کے سپرد کردے گی۔ مگر تب بھی وقفہ وقفہ سے تکنیکی بنیادی ڈھانچے کی خیرگیری کرے گی اورزیادہ عصری بنایاہوا نصاب بھی فراہم کرتی رہے گی۔
اتراکھنڈ اورآندھرا پردیش میںمائیکروسافٹ کمپیوٹراکیڈمیاں پہلے ہی ریاستی حکومتوںکومنتقل کردی گئی ہیں اور اب احسن طریقہ سے چل رہی ہیں۔ شکشا نامی منصوبہ ۱۲ریاستوں میں چل رہاہے اور۲۰۰۴کی سونامی کے بعد انڈمان کے جزیروں میں کمپیوٹرلیبس کی نئی تعمیر اورٹیچروں کی تربیت کیلئے بھی کام کیاجاچکاہے۔
عالمی برانڈہونے کا اپنا اثرہوتاہے ۔مائیکروسافٹ میںکارپوریٹ ادار ے کی سماجی ذمہ داری کے سربراہ وکاس گوسوامی نے کہا کہ ’’بین الا قوامی تجربے سے ہمیں یہ دیکھنے میںمددملتی ہے کہ ایک ہی کام افریقہ کے کسی ملک میں کیسے ہوتاہے اورایشیا کے ملکوں میں کیسے اور دیگرترقی یافتہ ملکوںمیںکیسے۔ ‘‘
اس سے ہمیںبڑی ترغیبات کیلئے سماج اورتنظیم کی سطح پر روشنی ملتی ہے۔
یہاں جو بات کہی جارہی ہے اس کا مطلب یہ نہیںنکلتا کہ کارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری کاکام آسان ہے۔ مائیکروسافٹ جیسی بڑی کمپنی کیلئے بھی نہیں۔ گوسوامی نے اس طرف اشارہ کیا کہ ہندوستان میں ۳۰ سے ۴۰ لاکھ سے بھی زائد رضاکارتنظیمیں سرگرم ہیں۔ شراکت کیلئے ان میں سے صحیح رضا کارتنظیم کوڈھونڈ نکالنا کامیابی کیلئے بہت ضروری ہے۔ اجتماعی ٹکنالوجی کے مراکز کیلئے اور نوجوانو ںکو روزگار کی تربیت دینے کے پروگرام کیلئے کمپنی کو پورے ہندوستان میں مختلف قسم کے چیلنجوںکاسامناکرناپڑتاہے۔ ہندوستا ن کے دیہی علاقوںمیں کام کرتے وقت یہ معلوم ہوتاہے کہ بجلی کی مسلسل فراہمی یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔اسی طرح شہری علاقوںمیںکوئی مرکز قائم کرنے کیلئے جگہ حاصل کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔ کسی مقامی رضاکارتنظیم کیلئے لازمی ہے کہ اس کے پاس عوامی شرکت کا اورمرکز کی پائیداری کا سابقہ ریکارڈ بھی ہو۔
مائیکروسافٹ کیلئے نوجوانوں اورتعلیم پر ساری توجہ مرکوز کرنا فطری متبادل تھا۔ گوسوامی نے کہا کہ ’’ایسے لوگوںپر سرمایہ کاری واجب ہے جو آگے چل کرملک کیلئے اثاثہ ثابت ہوں۔خاص کر ان پر جوٹکنالوجی تک رسائی حاصل نہیںکرسکتے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیامائیکروسافٹ اپنی اس کوشش سے ممکنہ خریدارنہیںبنارہی ہے؟ گوسوامی کاکہناہے ’’ہاں‘‘۔یہ اس نکتے کا ایک جز ہے۔انہوں نے کہا کہ ’’آپ کو تجارتی رابطہ کاروںکی ضرورت ہے۔ اسے صرف حب ِ بشر نہیںسمجھاجاسکتا کیونکہ کاروبار کے خراب ہوتے ہی سب سے پہلے یہی چیز ہاتھ سے جائے گی۔
ملازمین کواختیارات کی تفویض
ایم وے انڈیا کا تجارتی ماڈل اپنی مثال آپ ہے۔ اس کاراست فروخت کا جال ملک گیر سطح پر پھیلا ہواہے۔ جس کی بنیاد ایسے ۵۔۵ لاکھ افراد پر ہے جو مصنوعات کی آزادانہ تقسیم کاری میں مصروف ہیں۔ اس جال نے کمپنی کو بالکل نچلی سطح پر عوام کے درمیان جاکرکارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری نبھانے کا طریقۂ کاراپنانے کی تحریک بھی دی ہے۔ مثال کے طورپر ہیڈ آفس ملک گیرسطح پرخون کے عطیہ کیلئے جو کیمپ لگاتاہے اس میںلوگ شرکت کیلئے بڑی تعداد میںآتے ہیں۔ ایم وے کے اپورچیو نٹی فائونڈیشن کی عاملہ کے ایک رکن یوگیندرسنگھ کاکہنا ہے کہ ’’ایجنسی کے پاس بوتلیںکم پڑجاتی ہیں۔‘‘ اڑیسہ میں ایسے ہی ایک کیمپ میںصرف ایک دن میں ۸۰۰ لوگوںنے خون کا عطیہ دیا۔تقسیم کار اورملازمین جذباتی طورپر اس طرح کے منصوبوںسے خود کووابستہ کرلیتے ہیں کیونکہ انہیں ا س کا انتخاب کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ انتخاب کا عمل بہت حد تک غیر مرکوز ہوتا ہے کیونکہ بقول سنگھ نئی دہلی میں ہیڈ آفس اس بات کوتسلیم کرتا ہے کہ اس کے پاس کوئی بنیادی جانکاری نہیںہے ۔ مثال کے طورپر اس کی کہ کلکتہ یا امپھال میں کون سی چیز انتہائی کارآمدہوگی۔ تین تقسیم کاروں اور دو ایم وے اسٹاف پرمشتمل مقامی عمل درآمد کمیٹیاں کسی بھی شہر میںتمام خیراتی یا عطیہ حصولی سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ وہی اس کارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری کی کوششوںکی نگرانی بھی کرتی ہیں اوران کی تقویم بھی ۔
عالمی سطح پر ایم وے کی کارپوریٹ ادارے کی سماجی ذمہ داری میں اصل توجہ محروم طبقات کے بچوںپرمرکوزہوتی ہے اورہندوستان میںبھی اس کارپوریشن نے ۵۰سے زائد یتیم خانوںکواپنی عافیت میںلے لیاہے۔اس کے علاوہ بینائی سے محروم یا معذورلوگوںکیلئے پروگرامو ں کی کفالت کرتی ہے۔ نئی دہلی میں اس کوشش نے ایڈوانسڈ کمپیوٹنگ جاب ٹریننگ سینٹر کے لئے ایم وے کی مالی اور تکنیکی حمایت کی شکل اختیارکرلی ہے۔ یہ مرکز آل انڈیا کنفیڈریشن آف بلائنڈ کی مدد سے چلتا ہے۔
اس مرکز میں ۱۲مہینے کا ایک کورس کرایاجاتاہے جس کے لئے ایم وے کمپنی کمپیوٹر ،انسٹرکٹر اور جے اے ڈبلیوایس (جاس) سافٹ ویئر فراہم کرتی ہے جس کی مدد سے نابینا طالب علم کو بھی اسی تیزی کے ساتھ ڈسک ٹاپ پر کام کرنے کی مہارت حاصل ہو جاتی ہے جس تیزی سے کوئی آنکھ والا کام کرتاہے۔جماعت کے کمرے کے اندر کمپیوٹرسے نکلنے والی الگ الگ آوازیںسنائی جاتی ہیں۔ ان آوازو ںمیںکمپیوٹر کے بٹن دبانے کے لئے کہا جاتاہے، متن پڑھا جاتاہے اورانٹرنیٹ سرفنگ کیلئے بھی آواز آتی ہے۔ یہ آوازیں بہت تیز ہوتی ہیں اتنی تیز کہ آنکھوںسے دیکھنے کے اہل اوسط آدمی کے لئے اس کو سمجھ لینا دشوارہوتاہے۔
لیکن ایک طالبہ دیپاشی شرما نے مہمان کی آسانی کے لئے اس آواز کی رفتاردھیمی کردی۔ دیپاشی شرما کو ہندوستان کے اہم ادارے دفاعی تحقیق وترقی تنظیم (ڈی آرڈی او) میں اسسٹنٹ سائنسٹسٹ کی نوکری مل گئی ہے۔ ایک اور طالب علم نے حال ہی میںنیوز ایکس میں سرخیاں لکھنے والے کے عہدے کیلئے بنیادی انٹرویومکمل کیاہے۔
ایم وے اپنے یہاں کارکنوںکی بھرتی کیلئے انسانی وسائل کی جن ایجنسیوںکا استعمال کرتی ہے ان کی مددسے ہی دیگر تجارتوںسے وابستہ لوگوںتک رسائی بھی حاصل کرتی ہے اوران کویہ بتاتی بھی ہے کہ بصارت سے محروم لوگ اگرملازم رکھے جائیں تووہ کتنے لائق ثابت ہوتے ہیں ۔ ایم وے نے خوداپنے دفتروںکے لئے ایک گریجویٹ کی خدمات حاصل کی ہیں۔ بہت سے طلبا ء کو ٹیکنیکل قلم کاروں اوراطلاعاتی ٹکنالوجی کی کمپنیوںمیںکال سینٹر وںکے ملازمین کے طورپرکام مل گیا ۔اس طرح ایل۔ کے۔ کول کا یہ خواب شرمندۂ تعبیرہورہاہے کہ ان کے طلباوطالبات کو جدیدکارپوریٹ زمروں میںملازمت ملے۔ کول نے جوآل انڈیا کنفیڈریشن آف بلائنڈ کے جنرل سکریٹری ہیں ، بتایا کہ یہ کہانی عام ہے کہ کارپوریٹ ادارے ان کی تنظیم کا دورہ کرتے ہیں اورطلبا کیلئے طعام کا بندوبست کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یوں توہرکوئی ان کا پیٹ بھرناچاہتا ہے مگرکوئی انہیں ایسی تربیت دینے کو تیارنہیںتھا جس کے ذریعہ وہ روزگارکی منڈی میں مقابلہ کرنے کے اہل بن سکیں۔ ابھی تک جن ۳۰ فارغین نے یہاںتربیت مکمل کی ہے ان کی یہ تربیت ایک ایسا تحفہ ہے جوزندگی بھر ان کے کام آتارہے گا۔