’’جسے ہارورڈ بزنس اسکول میں نہیں پڑھایا جاتا‘‘
منہاج مرچنٹ
منہاج مرچنٹ مصنف، مدیر،کالم نگار اورپبلشر ہیں۔ انہیں علم طبعیات کے لئے Lady Jeejeebhoy انعام سے نوازا گیا ہے۔ انہوں نے بہت ساریکتابوں کے ساتھ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی اور مرحوم صنعت کار آدتیہ برلا کی سوانح حیات بھی لکھی ہے۔ محض 25 سال کی عمر میںچھ مختلف رسالے نشر کرنے والی کمپنی اسٹرلنگ نیوز پیپرز پرائیویٹ لمیٹڈ قائم کی جس میں Gentleman ایک ادبی اور سیاسی ماہانہ ہے جس کے سینئر اڈیٹرس اور کالم نگاروں میں ڈیوڈ ڈاویڈار ، ششی تھرور، ایل کے اڈوانی اور ڈوم موریس وغیرہ شامل ہیں۔ منہاج، مرچنٹ میڈیا لمیٹڈ کے چیئر مین اور گروپ ایڈیٹر ان چیف ہیںجبکہ Innovate کے بانی مدیر بھی ہیں جو امریکہ میں بسےs CEO کی وکالت کرتا ہے۔ ساتھ ہی Global Intelligence Reviewکے سربراہ ہیں۔
سوال:۔ آپ 5 لاکھ روپے کو 1600 کروڑ میں کیسے تبدیل کریں گے؟
اس کا جواب آپ کو ہارورڈ بزنس اسکول کے ماہر اساتذہ سے نہیں ملے گا لیکن کسی شاطر ہندوستانی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سے ضرور مل جائے گا۔اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ آپ کوئی سیاسی پارٹی چلاتے ہیں اور عوام سے عطیہ ((Donations قبول کرتے ہیں آپ کی آڈیٹڈ بیلنس شیٹ کے مطابق 2004-05 سے 2010-11 کے درمیان آپ کو ڈونیشن میں 2,008 کروڑ روپئے حاصل ہوئے ہیں اور ایک سیاسی پارٹی ہونے کی وجہ سے آپ پر کسی طرح کا ٹیکس عائد نہیں ہوتا خواہ وہ انکم ٹیکس ہو یا سروس ٹیکس۔اس طرح سے آپ کے پاس ایک بھاری بھرکم رقم جمع ہوگئی ہے۔ جس کو آپ الیکشن کمیشن کی سخت ہدایت کی بنا پر صرف سیاسی کاموں میں ہی استعمال کرسکتے ہیں۔ تو اب آپ کیا کریں گے؟ کرنا کیا ہے !آپ آگے بڑھیں اور پبلک ڈونیشن سے جمع کی گئی بھاری بھرکم رقم میں 90کروڑ روپئے ادھار کے طور پر ایک معدوم اخبار پبلشنگ کمپنی کو دے دیں۔ اتفاق سے اس کمپنی پر 90کروڑ روپئے کا قرض ہے۔ آپ کی پارٹی کی دی ہوئی رقم سے ان کا قرض ادا ہو گیا اور اب وہ معدوم کمپنی پر نہ ہی کوئی قرض رہا اور نہ ہی کوئی ملازم اور نہ ہی کسی طرح کے اخراجات۔لیکن کیا اس معدوم کمپنی کی کوئی قدرو قیمت ہے؟آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ اس کمپنی کے پاس دوسرے اساسوں کے علاوہ ایک بڑی بلڈنگ بھی ہے جو دہلی کے اہم علاقہ میں ہے اور ایسی زمین پر بنی ہوئی ہے جو خصوصی طور پر نیوز پیپر پبلشنگ کمپنیوں کو دی گئی ہیںجبکہ اس بلڈنگ کی قیمت تقریبا 1600 کروڑ روپے ہے۔لہذااب کیا کریں؟اس کا جواب ہارورڈ بزنس اسکو ل کے پروفیسرس نہیں بلکہ شاطر ہندوستانی جارٹرڈ اکاؤنٹنٹ دے گا کہ ایک Non Profit کمپنی شروع کریں تاکہ اس معدوم کمپنی کے شیئر کو 50 لاکھ روپئے کے ٹوکن کے بدلے خریدا جا سکے ۔
کیا یہ قانونی ہے؟ بالکل۔
کوئی قانون شکنی تو نہیں ہوئی ؟ شاید
لیکن اس کو ثابت کرنے کے لئے صدیاں لگ جائیں گی اور ویسے بھی عوام کی یادداشت تھوڑی کمزور ہے۔ لیکن آپ کے ترجمانوں نے کہا ہے کہ سیاسی پارٹی کو اس 90 کروڑ روپے کے قرض سے کچھ مالی منفعت حاصل نہیں ہوئی۔ بالکل ۔ پارٹی کو حقیقت میں 90 کروڑ روپے کا نقصان ہی ہواہے۔ لیکن مالی منفعت اس نئی نان پرافٹ کمپنی کو حاصل ہوئی جس کے پاس 1600 کروڑ روپے کی بلڈنگ ہے جو کہ 50 لاکھ روپئے دے کر اس معدوم نیوز پیپر بلڈنگ کے 100% شیئر خریدنے سے ہوئی ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ اس نئی اثاثہ والی لیکن نان پرافٹ کے 76% شیئر پارٹی کے دو سینئر لیڈر کے ہیں۔ چونکہ معدوم نیوز پیپر پبلشنگ کمپنی کے مالک پارٹی کے درجنوں ایسے شیئر ہولڈرس تھے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے اس لئے نئی نان پرافٹ کمپنی کے شیئرس اب چند افراد کی جگہ پارٹی کا ہوکر رہ گیا ہے۔ لیکن یہ کوئی معمولی سیاسی پارٹی نہیں ہے بلکہ حقیقتاًایک فیملی انٹر پرائزہے۔لہذاب کیا ہوگا؟ اس بلڈنگ سے کوئی اخبار نہیں نکلتا۔ سارے ملازمین چھوڑ کر جاچکے ہیں بلڈنگ خالی ہے۔ شاطر ہندوستانی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے اسے ایک بے کارر جائداد قرار دے دیا ہے ۔اور کہا ہے کہ اسے کرایہ پر دے دیا جائے اوراس کے مشورے پر ایسا ہی کیا گیاہے لہذا جو آمدنی ہوئی اس کو ’’فلاحی کامو ں‘‘کا نام دے کر خرچہ میں شمار کرلیا گیا نتیجتاً آپ کی بیلنس شیٹ میں کوئی فائدہ نظر نہیں آئے گا۔ جس سے کم از کم قانون کے الفاظ کی پابندی تو ہوہی جائے گی بھلے ہی قانون کے روح کی نہ ہو۔
کیا بلڈنگ کو کرایہ پر لگانا غیر قانونی ہے؟
ایسا نہیں ہوگا اگر آپ نے اپنی نئی کمپنی کے آرٹیکل آف ایسوسی ایشن میں یہ ذکر کردیا ہو کہ اس کے مقاصد میں سے ایک مقصد اس جائداد کو کرایہ پرلگانا بھی ہے اگر ایسا نہ بھی ہوتو آپ کا شاطر چارٹر اکاؤنٹنٹ اسے بعد میں بھی جوڑ سکتا ہے۔
اگر اس کے برعکس آپ نے میڈیا اور سیاسی دباؤ میں آکر پھر سے اخبار کو شروع کیا ہوتا تو بلڈنگ کے تمام فلور کو پھر سے استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی۔ ہزاروں ملازمین کو بھرتی کرنا پڑتا اس طرح کرایہ سے آنے والی آمدنی ختم ہوجاتی۔ اخراجات بڑھتے ہی جاتے۔ روزنامہ اخبار کو سال میں 100 کروڑ روپے کا نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ اوردوبارہ سے 90 کروڑ روپے کا قرض ہوجائے گا۔ اس لئے آپ کا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کہے گا کہ دباؤ میں آکر اخبار کو دوبارہ شروع کرنا ایک برا خیال ہے۔قصہ مختصر کہ دونوں پہلؤوں کو دیکھتے ہوئے ہارورڈ بزنس اسکول کے اساتذہ آپ کو کیا صلاح دیتے؟
آسان سی بات ہے وہ یہ کہتے کہ تمام عمل کو الٹا کردیں۔ یعنی 90کروڑ روپے کے قرض کو سیاسی پارٹی کو واپس کردیا جائے ۔ 1600 کروڑ روپے کی بلڈنگ کی ملکیت معدوم نیوز پیپر پبلشنگ کمپنی کو سونپ دی جائے اور اس کے 100% شیئر بھی واپس کردیے جائیں۔ جو آپ کی نئی نان پرافٹ کمپنی نے 50 لاکھ روپئے میں خریدا تھا۔
اگر آپ نے ایسا کیا تو یہ پورا ایپی سوڈ ہارورڈ بزنس اسکول کا ایک کیس اسٹڈی بن جائے گا جس کا عنوان ’’پرائیویٹ مفاد کو کیسے ترجیح دی جائے‘‘ ہوگا اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا؟ تو آپ عوامی انتخابات ہارسکتے ہیں۔ اور پھر سے اخبار شروع کرنا پڑسکتا ہے۔