بیرونی سرمایہ کاری،والمارٹ اورشہریوں کے متوقع مسائل

محمد آصف اقبال، نئی دہلی
وال مارٹ اسٹورز، انکارپوریٹڈ (NYSE: WMT) امریکی کثیر القومی خوردہ کارپوریشن ہے ۔تقریباً دو ملین سے زائد ملازمین پر منحصروالمارٹ مخصوص رعایت پر مبنی بڑی دکانوں اور گوداموں کی زنجیر چلاتی ہے۔فارچون گلوبل500کی فہرست کے مطابق 2012میں والمارٹ دنیا کی سب سے بڑی خردہ فروش کمپنی بن کرابھری ۔اور فی الوقت دنیا میں موجود عوامی کارپوریشن میں یہ تیسرے نمبر پر ہے۔درحقیقت والمارٹ ایک خاندان کی ملکیت کا کاروبار ہے جس میں والٹن خاندان کا 48%فیصد کنٹرول ہے۔1962میں سام والٹن نامی شخص نے والمارٹ کو قائم کیا۔31اکتوبر1969میں والمارٹ کو انکارپوریٹڈ میں شامل کیا گیا۔1972میں نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے ذریعہ اس کے شیئرز بازار میں آئے ۔2009میں والمارٹ کمپنی یونائٹیڈ اسٹیٹس میںخردہ بازار میں پہلے نمبر پرآئی جس نے خردہ بازار میں 51%فیصد حصہ داری دکھا کرUS $258بلین درج کرائی۔والمارٹ کے55مختلف ناموں سے 15ممالک میں500,8اسٹورز ہیں۔متحدہ امریکہ میںWALMEXمیکسیکو میں ASADAبرطانیہ اور جاپان میںSEIYUاور ہندوستان میں BEST PRICEکے نام سے یہ اسٹورز مشہور ہیں۔والمارٹ کے سرمایہ کاری کے شمالی امریکہ کے باہر ملے جلے نتائج سامنے آئیں ہیں۔اس کے برخلاف برطانیہ، جنوبی امریکہ اور چین میں کمپنی انتہائی کامیاب رہی اور جرمنی و جنوبی کوریا میں کمپنی اپنے فروغ میںناکام ٹھہری ہے۔
والمارٹ کے تعلق سے مختلف اوقات میں منفی اور مثبت تاثرات سامنے آتے رہے ہیںاور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔Lowa State Universityکے شعبہ معاشیات کے پروفیسر کینتھ اسٹون(Kenneth Stone) نے 1997میں فارم فائونڈیشن میں ایک پیپر شائع کرتے ہوا کہا تھا کہ چھوٹے شہروں میں والمارٹ اسٹورس کے کھلنے سے وہاں کے مقامی خردہ بازار سے منسلک کاروبار کا تقریباپچاس فیصد حصہ دس سال کے اندر اندر ختم ہو جائے گا۔Dartmouth CollegeکےTuck School of Businessمحققین نے جون 2009میں اپنی تحقیق میں اس بات کا انکشاف کیا کہ والمارٹ کے دوائیں فروخت کاروبار میں آنے سے دیگر خردہ فروشوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسی کے علی الحجم اسٹورز میں 40فیصد، سپر مارکیٹس میں17فیصد اورمقامی دوائوں کی دکانوں میں6فیصد کی فروخت میں کمی آئی۔جون 2006میں Libertarian Ludwing von Mises Institutesکی جانب سے شائع مضمون میں کہا گیا ہے کہ وارلمارٹ کے آنے سے چھوٹے کاروبار پر مثبت اثر پڑتا ہے۔مضمون نگار کا کہنا ہے کہ والمارٹ جب کم قیمتوںپر اشیاء فراہمی کے نتیجہ میں چھوٹے کاروبار کو متاثر کرتا ہے تو وہیں دوسری جانب وہ نئے مواقع پیدا بھی کرتا ہے۔اور یہ چھوٹے کاروبار کو تباہی نہیںبلکہ تخلیقی تباہی کی جانب گامزن کرتا ہے۔جس کی مثال متحدہ امریکہ کے کاروباری شعبے میں مجموعی سائزپر کوئی اعداد و شمارواضح نہیں ہونا ہیں۔والمارٹ نے گلوبل انسائٹ(Globle Insight)سے موازنہ کرتے ہوئے ملازمت پیشہ خاندانوں کے سلسلے میں بتایا کہ ہمارے ملازمین2500ڈالرفی سال بامقابلہ دیگر زیادہ بچاتاہے۔نیز امریکہ میں 210,000 روزگار کے مواقع والمارٹ نے زائد پیدا کیے ہیں۔پبلک پالیسی انسٹی ٹیوٹ آف کیلی فورنیا نے 2005 میں وال مارٹ کے اثرات پر ایک ریسرچ کی۔ اس ریسرچ کے مطابق، وال مارٹ کے کھلنے سے خوردہ بازار میں 4 فیصد روز گار کم ہوئے اور اس شعبہ میں کام کرنے والوں کی آمدنی میں 5 فیصد گراوٹ آئی۔اس کے برخلاف اکنامک پالیسی انسٹی ٹیوٹ نے یہ تجزیہ کیا کہ سن 2001سے2006کے درمیان، چین کے ساتھ والمارٹ تجارت کے نتیجہ میں تقریباً200,000لاکھ امریکی ملازمتوں کے خسارہ کا خاتمہ اکیلے والمارٹ نے کیا ۔مختلف تحقیق ثابت کرتی ہیں کہ والمارٹ نے اپنے بے پناہ معاشی و اقتصادی اثرات مرتب کیے ہیں اور اس کی اہم وجہ اس کا پھلتا پھولتا کاروباری نظام ہے۔والمارٹ کمپنی کی آمدنی کو اگر گزشتہ دنوں امریکی صدارتی انتخابات کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اوباما اور رومنی نے جتنی رقم جمع کی تھی اتنی ہی رقم وال مارٹ کی صرف دو ہفتے کی آپریٹنگ آمدنی ہے۔ ریٹیل کی بڑی کمپنی والمارٹ کا کاروبار 27 ممالک میں ہے۔ یہ ہفتے میں دو سو ملین سے زائد مرتبہ گاہکوں کو مال صرف کرتا ہے اورفی الوقت اس کے ملازمین کی تعداد 2.2 ملین ہے۔ اطلاعات کے مطابق 31 جنوری 2012 تک کے بارہ مہینوں میں وال مارٹ کی آپریٹنگ آمدنی 26,558 ملین امریکی ڈالررہی ہے۔.
ہندوستان میں والمارٹ کا خوف اور صورت واقعہ:
واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ دنوں جس دوران ہندوستان میں پالیمنٹ کے اندر اور باہر والمارٹ کے حق اور اس کے خلاف چرچے ہو رہے تھے ٹھیک اسی دوران امریکہ میں والمارٹ کے خلاف مظاہرے بھی ہو رہیتھے۔ اور صرف اس لیے کہ امریکہ میں مقیم چینی باشندوں کی آبادی میں والمارٹ اسٹور کھولنے کے معنی اقلیتوں پر امریکی مصنوعات مسلط کرنا ،لیا جا رہا تھا۔یہ مظاہرہ ریاست کیلیفورنیا کی مختلف ٹریڈ یونینیوں کے کارنوں نے لاس اینجلس شہر میں وال مارٹ کے خلاف پورے امریکہ میں تجارتی مراکز کی تعداد بڑھائے جانے کے خلاف احتجاجاً کیا۔جس میں امریکی شہریوں نے صورتِ واقعہ پراپنی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ہلکے انداز میں اس مظاہرے کو لیا جائے تو یہ ٹریڈ یونینس کی جانب سے منعقد کردہ مظاہرہ تھا جس میں کسی حد تک عوام بھی شامل تھے لیکن توجہ دی جائے تو یہ بات کھل کر عیاں ہو جاتی ہے کہ خود امریکہ ہی میںوالمارٹ کی پھیلتی زنجیر نے دوسروں کے حقوق بلاواسطہ سلب کر لیے ہیں اور اُن درمیانی تاجروں کو جنھیں دوسروں کی غلامی و نوکری سے چھٹکارا ملا ہوا تھا آج وہ والمارٹ کی غلامی و نوکری کرنے پر مجبور ہیں۔دوسری جانب بڑے پیمانہ پر چھوٹے اور معمولی قسم کے تاجروں کا توخاتمہ ہی ہوچکاہے۔
اسی سلسلے کی ایک آواز آکوپائی وال اسٹریٹ یا وال اسٹریٹ پر قبضہ کرلو نامی تحریک ہے۔جو امریکہ کے مالیاتی مرکز نیویارک سے شروع ہوکر امریکہ کے بہت سے چھوٹے بڑے شہروں سمیت دنیا کے کئی ملکوں تک پھیل چکیہے۔ اس تحریک سے وابستہ افراد امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں اور ان کا کہناہے کہ اس کی ذمہ داری بڑے مالیاتی اداروں اور حکومتی پالیسوں پر عائد ہوتی ہے۔ ماہرین یہ سوچ رہے ہیں کہ امیر اور غریب کے درمیان فرق کیسے دور کیا جاسکتا ہے؟ مگر اس بارے میں پائے جانے والے نظریات کے درمیان موجود فاصلے بڑھ رہے ہیں۔مظاہرین کا کہناہے کہ مشکلات میں گھرے بینکوں کوٹیکس دہندگان کے پیسے سے بچالیا جاتا ہے مگر ان غریب لوگوں کے گھروں پر جو مالی مشکلات کے باعث اپنی ماہانہ قسطیں ادا نہیں کر سکتے ، بینک قبضہ کر لیتے ہیں۔تحریک کے سرگرم اراکین معاشی بحران کے لئے بینکوں اور وال سٹریٹ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک کے ایک فی صد امیر 99 فی صد آبادی کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاکر سب سے زیادہ دولت کماتے ہیں اور اپنے سیاسی اثر ورسوخ کے ذریعے امیروں پر ٹیکس نہیں لگنے دیتے۔قبضہ کرو تحریک ایک منصفانہ معاشرے کی خواہشمند ہے جس میں امیر زیادہ ٹیکس ادا کریں اور ان کے بڑے کاروبار کے لئے قواعد وضوابط بھی زیادہ ہوں۔لیکن امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے پیٹر ویلی سن کہتے ہیں کہ کم ٹیکس اور قواعد و ضوابط معیشت کے لئے نقصان دہ ہیں۔ ان کا کہناہے کہ حکومت کو نئے کاروبار شروع کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹیں نہیں کھڑی کرنی چاہیں، کیونکہ اپیل کمپنی کے اسٹیو جانز سمیت ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ غریب ہی سخت محنت کرکے امیر بننے میں کامیاب ہوئے۔ واشنگٹن کے ایک تحقیقی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ایک اسکالر جان کیواناگ کا خیال ہے کہ جب ملک میں بیروزگاری کی سطح اتنی بلند ہوتو غریب سے امیر بننے کے قصے خواب لگتے ہیں۔امریکی کانگرس کے بجٹ آفس کے اعدادوشمار کے مطابق پچھلی تین دہائیوں میں آبادی کے ایک فی صد کی آمدنی میں 275 فیصد اضافہ ہوا ہے مگرانتہائی غربت میں زندگی گذارنے والی20فیصد آبادی کی آمدنی صرف 18 فی صد بڑھی ہے۔آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ کے مطابق معاشرے کے دس فی صد امیروں کی آمدنی غریب آبادی کی کل آمدنی سے کئی گنا زیادہ ہے۔مظاہرین کہتے ہیں کہ وہ بے روزگاری جیسے مسائل حل ہونے تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون کا کہنا ہے کہ G-20 کے رکن ممالک کے وزرائے خزانہ کو ان مظاہرین کی آواز پر کان دھرنا چاہیے اور ان کے تحفظات دور کرنے کے لئے قابل عمل منصوبے سامنے لانے چاہیں۔پولینڈ کے نوبیل انعام یافتہ ٹریڈ یونین راہنما لیخ ولیسا نے وال اسٹریٹ تحریک کے لئے حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اور تقریباً ایک سو مصنفین جن میں انعام یافتہ مصنف بھی شامل ہیں انٹرنیٹ پر ایک قرار داد پر دستخط کے ذریعے دنیا بھر میں اس تحریک کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
دوسری طرف ہندوستان میں والمارٹ اپنے اسر و رسوخ بڑھانے اور قانونی طور پر سرمایہ کاری میں داخل ہونے کے لیے لابئنگ کرتی نظر آرہی ہے۔لابئنگ گرچہ ہندوستان کی رو سے خلاف قانون ہے اس کے باوجود وال مارٹ کا کہناہے کہ لائبنگ کے عمل میں کوئی غیر مناسب قدم نہیں اٹھایا گیا۔ امریکی عہدے داروں کا بھی یہی کہناہے کہ عالمی سطح کی کمپنی وال مارٹ نے کسی امریکی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی کیونکہ لائبنگ کو امریکہ میں قانونی تحفظ حاصل ہے۔ لیکن ہندوستان میں اپنے مفاد کے تحفظ کی خاطر اثرورسوخ پر پیسے خرچ کرنا ایک متنازعہ عمل ہے۔گرچہ ہندوستان میں اکثر کاروباری ادارے سرکاری عہدے داروں کے ساتھ اپنے منصوبوں پر بات چیت کرتے رہتے ہیں لیکن انہیں لائبنگ پر رقم خرچ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں کاروباری کمپنیاں اور ادارے سیاسی مہمات کے لیے عطیات بھی نہیں دے سکتے۔ چنانچہ پابندیوں کے باعث لائبنگ کو خفیہ رکھا جاتا ہے۔ 2010 میں لائبنگ کے ایک اہم ادارے کی ٹیلی فون کالز کے ریکارڈ سے پتا چلاتھا کہ وہ اہم وزارتوں پر بعض افراد کی تعیناتی کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کررہاہے جس پر کافی احتجاج بھی ہوا، کیونکہ اس سے بڑے کاروباریوں اور حکومت کے درمیان خفیہ رابطے افشا ہوگئے تھے۔ وال مارٹ سے منسلک لائبنگ تازہ ترین واقعہ ہے جو ہندوستانی حکومت سے اجازت حاصل ہونے کے بعد آئندہ تین برسوں میں وہاں اپنا اسٹور کھولنے کی منصوبہ بندی کررہاہے۔ حکومت نے پارلیمنٹ سے غیر ملکی کمپنیوں کو اسٹور کھولنے کی اجازت دینے کی منظوری حاصل کرلی ہے۔لیکن امریکی سپر اسٹور کا قیام حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان بدستور وجہ تنازع بنا ہوا ہے۔ حزب اختلاف کا کہناہے کہ کانگریس پارٹی غیر ملکی کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کررہی ہے اور بڑے غیر ملکی اسٹوروں کی آمد سے ملک کے چھوٹے کاروبار تباہ ہوجائیں گے نتیجتاً بڑے پیمانے پر بے روزگاری پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
والمارٹ کا طریقہ کار:
امریکہ میں وال مارٹ کے آنے سے رٹیل سیکٹر میں چار فیصد روز گار کم ہوئے تھے اور اس شعبہ میں کام کرنے والوں کی آمدنی میں 5 فیصد گراوٹ آئی تھی۔ قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ یوروپ اور امریکہ کا خردہ بازار منظم ہے۔ اس کے برخلاف ہندوستان میں 96 فیصد خردہ کاروبار غیر منظم اور بکھرے ہوئے شعبوں میں کام کر رہا ہے ۔ اس حالت میں ہندوستان میں بے روزگاری کا خطرہ اور بھی زیادہ ہے۔ وال مارٹ جیسی کمپنیاں سب سے پہلا کام یہ کرتی ہیں کہ سامان کی قیمت گھٹا دیتی ہیں۔ جس کی وجہ سے مقابل دکانوں اور خردہ سامان فروخت کرنے والی دکانوں کی بکری کم ہو جاتی ہے۔ دکاندار اپنی دکان میں کام کرنے والے لوگوں کو نکالنے لگتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے یہ دکانیں بند ہونے لگتی ہیں۔ ایک بار ان بڑی کمپنیوں کا بازار پر قبضہ ہو جائے تو پھر من مانے طریقے سے قیمتوں کو بڑھا تے ہیں، اور یہی کیچھ والمارٹ جیسی کمپنیوں کی آمد سے ہو رہا ہے ۔ ایک ریسرچ کے مطابق، جہاں جہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں خردہ بازار میں گئیں، وہاں دس سال کے اندر خردہ دکانوں کی تعداد آدھی رہ گئی۔ ہندوستان میں اس کا اثر پہلے سال سے ہی دکھائی دینے لگا۔ ایک اندازے کے مطابق، ایک کروڑ لوگوں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ بڑے سپر مارکیٹ بننے سے نئے مواقع تو پیدا ہوں گے لیکن اِن کمپنیوں کی وجہ سے بے روزگار ہونے والوں کی تعداد سے روزگار پانے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہوگی۔دوسری طرف عام اور چھوٹے کاروباریوں سے دولت بڑی کمپنیوں کے مالکان میں منتقل ہو جائے گی۔ جس کے نتیجہ میں دولت کا بہائو مزید متاثر ہوگا۔
عام حالات میںبڑی منڈیوں سے جو سامان انڈسٹری میں جاتا ہے وہ ایک الگ راستے سے بازار تک پہنچتا ہے۔ اس پورے عمل میں چھنٹائی سے لے کر بازار تک کروڑوں لوگ منسلک ہوتے ہیں۔ بڑی کمپنیاں سیدھے کھیتوں یا پروڈیوسر سے سامان اٹھاتی ہیں، خود ان کی پروسیسنگ کرتی ہیں اور پھر بیچتی ہیں۔ اگر یہ کمپنیاں خود ہی مال اٹھائیں گی، خود ہی پروسیسنگ کریں گی، تو بڑی تعداد میںہندوستانی شہری بے روزگار ہوجائیں گے۔حقیقت یہ ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں کے آنے سے مقابلہ آرائی ختم ہی ہو جائے گی۔ خردہ بازار پر ان کا قبضہ ہو گا۔ اپنے سرمایہ کی طاقت پر یہ کمپنیاں پورے بازار پر کنٹرول کریں گی۔ بڑی غیر ملکی کمپنیوں کی پالیسی ہے کہ صارفین کو کم قیمت پر اشیاء فراہم کی جائیں۔ یہ ایک ایسا فارمولہ ہے جس سے کم سرمایہ والے مقابلہ جاتی بازار میں ٹک ہی نہیں پائیں گے۔اور درحقیقتہوتابھی یہی ہیکہ ابتدائی دور میں یہ کمپنیاں پرانے بازار اور سپلائی چین کو برباد کرنے کے لیے قیمتیں کم کرتی ہیں اور جب اس شعبہ پر کچھ مٹھی بھر کمپنیوں کا تنہا قبضہ ہو جاتا ہے تب یہ سامان کی من مانی قیمت وصول کرتی ہیں۔ ان بڑی کمپنیوں کو چلانے والے نہایت چالاک ہوتے ہیں۔ وہ عام کسانوں سے سامان نہیں خریدتے، کنٹریکٹ فارمنگ کراتے ہیں۔ وہ پہلے کسانوں سے اپنا سیدھا رشتہ بناتے ہیں، اُن ہی چیزوں کی پیداوار پر زیادہ زور دیتے ہیں، جن کی ان رٹیل کمپنیوں کے اسٹورز میں زیادہ کھپت ہوتی ہے۔ اس پورے عمل میں سپلائی چین برباد ہو جاتی ہے اور کسان ان کمپنیوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ پھر ان کمپنیوں کے ساتھ جڑنے سے کسانوں کو کئی مسائل کا بھی سامنا ہوتاہے۔ زیادہ سے زیادہ پیداوار کے لیے یہ کسانوں کو مصنوعی بیج، کھاد، جراثیم کش اور دیگر کیمیکلز کا استعمال کرنے پر مجبور کرتی ہیں، تاکہ پیداوار زیادہ دنوں تک ترو تازہ دکھائی دے۔ اس سے نہ صرف صحت خراب ہوتی ہے بلکہ نئی بیماریاں بھی رونما ہونے لگتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امریکی عوام کا ایک بڑا گروہ زیادہ قیمت ادا کرکے آرگینک غذائی اجناس ، پھل اور سبزیاںخریدنے لگے ہیں۔ کئی ملکوں نے غذائی اجناس، پھل سبزیوں ، گوشت اور مچھلی کے خردہ بازار میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو داخلہ کی اجازت نہیں دی ہے۔ جب کہ حکومت ہندنے سب سے پہلے پھلوں، سبزیوں اور غذائی اجناس کے کاروبار میں ہی غیر ملکی سرمایہ لگانے کی اجازت دینے کی بات کی ہے۔حکوت کہتی ہے کہ بیرونی سرمایہ داروں کو تقریباً 50 فیصد سرمایہ خردہ بازار سے وابستہ بنیادی سہولیات پر لگانا ہوگا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ اس کے لیے پابند ہوں گے؟ اور کیا اس کی نگرانی رشوت خور اور کرپشن زدہ ذمہ دار نہیں کریں گے؟ دوسری جانب خردہ بازار میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا اثر صرف اقتصادی ہی نہیں ہے بلکہ سماجی اور ثقافتی صورت میں بھی سامنے آئے گا۔واقعہ یہ ہے کہ آج ہندوستانی سماج بے شمار مسائل میں گرفتار ہے جس کی بنیادی وجہ بین القوامی کلچر کو اختیار کرنا سامنے آرہی ہے!
ا یک مثال:
فی الوقت بنگلہ دیش چین کے بعد دنیا بھر میں گارمنٹس مصنوعات فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔بنگلہ دیش کی 19 ارب ڈالر کی گارمنٹس کی صنعت اس وقت دنیا کی ملبوسات بنانے والی بڑی برانڈ کمپنیوں میں سے چند معروف ترین کے لیے بہت زیادہ کشش رکھتی ہے۔ اس کی وجہ بنگلہ دیشی مصنوعات کی کم قیمت ہے تاہم اکثر ریٹیلرز کا کہنا ہے کہ اس صنعت سے وابستہ کارکنوں کی تنخواہوں میں کمی کے سبب پائے جانے والے عدم اطمینان اور شپمنٹ میں تاخیر سے بنگلہ دیش کی گارمنٹس کی صنعت کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے اور رفتہ رفتہ یہ صنعت عالمی شہرت کی حامل بڑے برانڈز کے لیے اپنی کشش کھوتی جا رہی ہے۔حال ہی میں مزدورں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک کارکن کے قتل اور بنگلہ دیش میں قائم ساڑھے پانچ ہزار گارمنٹس فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کی ناگفتہ بہ اور غیر محفوظ صورتحال کے بارے میں منظر عام پر آنے والی اطلاعات سے اس صنعت کی کافی بدنامی ہوئی ہے۔ حالات کے پیش نظر بہت سے ری ٹیلرز اپنیمستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ایک عرصے سے بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل صنعت کارکنان کا احتجاج جاری ہے۔جہاں آج کل ایسے برانڈز کے لیے ملبوسات تیار کیے جا رہے ہیں، جو یورپ اور امریکا میں بہت زیادہ مقبول ہیں۔ ان میں ٹیسکو، وال مارٹ، جے سی پینی، ایچ اینڈ ایم، مارکس اینڈ اسپنسر، Kohl,s اور Carrefour قابل ذکر ہیں۔ اس سال جون میں دارالحکومت ڈھاکہ کے نزدیک تقریباً 300 گارمنٹس فیکٹریاں ایک ہفتے بند رہیں۔ وجہ یہ تھی کہ وہاں کام کرنے والے مزدور تنخواہوں میں اضافے کا پرزور مطالبہ کر رہے تھے۔اس پورے واقعہ کے پس منظر میں یہ اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے کہ جس وقت ملٹی نیشنل کمپنیوںکا اثر و رسوخ و دخل اندازی بڑھ جاتی ہے اور وہ موجودہ معیشیت پر اثر انداز ہونے لگتے ہیں، اُن حالات میں ملک کے عام شہری مزید پریشانیوں میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں، اس کے باوجود نہ حکومت اور نہ ہی قانون مداخلت کی حالت میں رہتا ہے۔چونکہ یہ تانے بانے حکومت و قانون ہی نے جوڑے ہوتے ہیں!
حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو نہ صرف بیرونی سرمایہ کاری کی وجہ سے حکومتِ ہند گزشتہ دو دہائی سے دیگر پبلک شعبہ جات کے اداروں کو آہستہ آہستہ نجی شعبہ جات میں تبدیل کر رہی ہے۔بلکہ حکومت کہ جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ عوام کوتعلیم،روزگار،صحت اور مفاد عامہ سے وابستہ بجلی،پانی وغیرہ کے ادارہ جات کو سبسڈی فراہم کرتے ہوئے اِن اداروں کو مزید مستحکم کرتی وہاں رخ یہ اختیار کیاگیا کہ زندگی کے تقریباً تمام ہی شعبہ جات ،پبلک سے پرائیوٹ میں بتدریج تبدیل کر دیے جائیں۔گزشتہ دنوں ہندوستان کی “بھارتی” انٹر پرائزز کمپنی نے وال مارٹ کمپنی کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ دونوں کمپنیاں پورے ملک میں وال مارٹ کے نام سے کئی مالز اور اسٹور کھولنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔وال مارٹ سے قبل بھارتی کمپنی برطانیہ کی ’ٹیسکوکمپنی سے بات چیت کر رہی تھی۔ ٹیسکو بھارتی انٹر پرائزر کے ساتھ اسی طرح کا معاہدہ کرنا چاہتی تھی لیکن گزشتہ ہفتے دونوں کمپنیوں کے درمیان بات چیت ناکام ہو گئی۔اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی وال مارٹ کمپنی کے لیے یہ معاہدہ کافی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ہندوستان کا ریٹیل بازار اس وقت 300 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کا ہے اور اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ دس برس میں ہندوستان میں اشیاء صرف کابازار 637 ارب ڈالر تک پہنچ جائیگا۔ہندوستان میں ٹیسکو اور وال مارٹ جیسی بیرونی کمپنیوں پر ریٹیل سطح پر سرمایہ کاری کے لیے پابندی عائد ہے لیکن یہ کمپنیاں ہول سیل بازار میں سرمایہ کاری کر سکتی ہیں۔”بھارتی” ہندوستان کی ایک موبائل سروس فراہم کرنے والی کمپنی ہے اور اس کے تقریبا ڈھائی کروڑ صارفین ہیں۔ہند نزادسرمایہ دار اور ان کی ہندوستانی ناموں سے متعارف کمپنیاں بیرونی سرمایہ داروں کے ساتھ کھل کر معاہدے کر رہے ہیں، بیرونی سرمایہ داری میں شمولیت حاصل کر رہے ہیں،والمارٹ اور ان جیسی دیگر کمپنیاں ملک کے معاشی اور اقتصادی معاملات میں شامل ہو رہی ہیں، پرائیواٹائزیشن عام ہو رہا ہے،ملک کے عوام کو مختلف ٹیکسیس اور سروس ڈیوٹیز ادا کر نا پڑ رہی ہیں، سبسڈی جو عوام الناس سے متعلقہ شعبہ جات میں دی جاتی رہی اس کو کم اور ختم کیا جا رہا ہے،اور اسی کے ساتھ ساتھ ملک کے داغدار سیاستداں رشوت خوری میں ملوث ہوتے نظر آرہے ہیں،گھوٹالے بڑے پیمانہ پر کیے اور کروائے جا رہے ہیں، ملک کے عام شہری بنیادی ضروریات تعلیم و صحت جیسے مسائل سے حد درجہ متاثر ہیں،اس کے باوجود ملک فلاحی اسٹیٹ کا درجہ رکھتا ہے۔یہ بڑی ہی عجیب اور نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے!
آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ اور ہندوستان کی صورتحال:
آئی ایم ایف کی جاری کردہ تازہ رپورٹ میںکہا گیا ہے کہ اس وقت ہندوستان میں چالیس کروڑ سے زائد افراد کی آمدنی ایک ڈالر یومیہ سے بھی کم ہے۔ گویا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی گود میں دنیا کی سب سے بڑی غربت پرورش پارہی ہے ۔جس کی ایک وجہ دولت کی ناقص تقسیم ہے تو وہیں دوسری جانب مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی دولت پر قبضہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی شرح نمو جس کے متعلق دعویٰ کیا گیا تھا کہ 9.5فیصد رہے گی 8فیصد سے بھی نیچے جاچکی ہے۔ جس کے نتیجہ میںہندوستانی حکومت نے کئی بڑے پراجیکٹس پر جاری کام بند کر دیئے ہیں۔وہیں دوسری جانب عالمی ادارہ خوراک کے مطابق ہندوستان میں 71فیصد زراعت سے وابستہ کسان عالمی اداروں کی شرائط ،بیج ،کھاد اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے سبب مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔ کسانوں کی بڑی تعداد روزگار کے حصول کے لئے شہروں کا رخ کر رہی ہے جس سے آبادی کا توازن بری طرح متاثر ہے۔ کسانوں کی ابتر حالت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ مالیاتی سال کے دوران صرف تین ریاستوں میں 12سو سے زائد کسانوں نے قرضہ جات اور سود سے تنگ آکر خودکشی کر لی۔ماہرین کے مطابق اس وقت تیزی سے کسان زراعت کے شعبے کو چھوڑ رہے ہیں جس سے ملک میں غذائی اجناس کی قیمتوںمیں ایک سال کے اندر 31فیصد سے زائد اضافہ ہوگیا ہے۔
دیگر نو آبادیاتی ممالک کی طرح ہندوستان کا مقامی حکمران طبقہ بھی اپنی تاریخی متروکیت اور پسماندگی کی وجہ سے ہندوستان کو ایک جدید قومی، صنعتی، ترقی یافتہ ریاست بنانے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میںمعیشت اور منڈی کھولنے کے عمل نے ہندوستان میں بہت بڑے پیمانے کی معاشی تفریق کو جنم دیاہے۔ آج ہندوستان کی آبادی کا 10فیصد امیر ترین حصہ آمدنی کا 31.1فیصد حاصل کرتا ہے اور 10فیصدغریب ترین کے حصے میں کل ملکی آمدنی کا 3.6فیصد آتا ہے۔ ہندوستان کی آبادی کی وسیع اکثریت غربت کی اتھاہ گہرایوں میں گھری ہوئی ہے۔ 77فیصد افراد 20روپے یومیہ آمدنی کی لکیر سے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے غربت کا ’سرکاری‘ پیمانہ24روپے یومیہ کی حد ہے۔ 9کروڑ 30لاکھ لوگوں کی رہائش جھونپڑ پٹیوں میں ہے جو ہندوستان کی شہری آبادی کا 27 فیصد ہے۔ 1کروڑ 24لاکھ کی آبادی کے شہر ممبئی میں 86 لاکھ افراد ان کچی بستیوں کے رہائشی ہیں جہاں کوئی بھی بنیادی سہولت میسر نہیں ہے۔ دہلی میں یہ تعداد 31لاکھ ہے۔ دوسری جانب ہندوستان کے دوسرے امیر ترین آدمی مکیش امبانی نے حال ہی میں اپنے لیے 27منزلہ محل تعمیر کیا ہے جس کی مالیت ایک ارب ڈالر کے قریب ہے اور اس کی چھٹی منزل سے ممبئی کی جھونپڑ پٹیوں کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان کا امیر ترین آدمی لکشمی متل 31ارب ڈالر سے زائد اثاثوں کے ساتھ دنیا کا چھٹا امیر ترین آدمی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہندوستان خوراک کی کمی کے شکار بچوں کے تناسب میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں 47فیصد بچے خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ہندوستان میں ان کی تعداد افریقہ کے غریب ترین ممالک سے دوگنی ہے۔ہر سال 21لاکھ بچے 5سال کی عمر کو پہنچنے سے قبل ہی قابل علاج بیماریوں کی وجہ سے مر جاتے ہیں جن میں اسہال، ملیریا، خسرہ، ٹائیفائڈ اور نمونیا شامل ہیں۔ روزانہ ایک ہزار بچے صرف اسہال سے ہی مر رہے ہیں۔2008ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پانچ سال کے کم عمر بچوں میں سے 43فیصد وزن کی کمی کا شکار ہیں۔زرعی پیداوار میں دنیا میں دوسرے نمبر ہونے کے باوجود ہندوستان کو بڑے پیمانے پر بھوک کا سامنا ہے۔
کھدرے بازار میں بیرورنی سرمایہ کاری اور حکومت کا جواز:
آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ اور گزشتہ دو دہائیوں میں معیشت اور منڈی کے کھولنے کے عمل میں رونما ہونے والی غیر متوازن تبدیلیوں کے باوجودحکومت ہند نے کھدرے بازار میں بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت دینے کا فیصلہ اس جواز کے ساتھ کیا ہے کہ اس سے روزگار کے مواقع فراہم کرنے، کاشت کاروں کے معاوضہ میں بہتری پیدا کرنے، ٹکنالوجی درآمد کے قابل بنانے میں مدد ملے گی اور صارفین کو فائدہ ہوگا۔ساتھ ہی انفرا اسٹرکچر بہتر ہوگا، زرعی پیدوار کم ضائع ہوگی اور اس کے معاوضہ میں اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے ہمارے کاشتکار اپنی فصلوں کی بہتر قیمت حاصل کر سکیں گے۔چونکہ ہول سیل اور ریٹیل قیمتوں میں کافی فرق پایا جاتا ہے لہذا اس میں کمی واقع ہوگی اور صارفین روزانہ استعمال کے لیے کم قیمت میں اشیاء حاصل کر سکیں گے۔اس کے برخلاف بائیں پارٹیوں کے علاوہ سماج وادی پارٹی، بی ایس پی،این ڈی اے، ترنمول کانگریس اور آل انڈیا انا ڈی ایم کے کے اراکین نے ملٹی برانڈ ریٹیل میں 51فی صد اور سنگل برانڈ میں صد فی صد غیر ملکی راست سرمایہ کاری کی اجازت دینے کے سرکاری فیصلہ کے خلاف احتجاج درج کیا تھا۔حکومت کی بعض اتحادی جماعتوں سمیت بیشتر جماعتیں اس فیصلے کی مخالفت کر رہی ہیں اور اس پر انہوں نے پارلیامنٹ بحث کا مطالبہ بھی کیاتھا ۔ پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس میں لگاتار چھ دن اسی موضوع کی نظر ہو گئے۔ ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ سال بھی سرمائی اجلاس ہی میں پارلیامنٹ کے 21دن برباد ہوئے تھے جس پر 146کروڑ روپیہ خرچ ہوا تھا اور یہی صورتحال امسال بھی ہوئی ہے اور لگاتارموضوع زیر بحث ہے اور عوام کا پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔اور مزے کی بات یہ کہ ملک کی دولت جو غریبوں سے مختلف ٹیکسس کی شکل میں لی جاتی ہے اس کو اس ٹھاٹ باٹ کے ساتھ اڑایا جا رہا ہے اور عوامی نمائندے عوام کے سامنے جوابدہ بھی نہیں!بیرونی سرمایہ کاری کے تعلق سے مخالفین کا کہنا ہے کہ ا س سے ریٹیل بازار میں تجارت کرنے والے وہ لاکھوں گھریلو تاجر بے روز گار ہو جائیں گے جن کی روزی روٹی چھوٹی چھوٹی دکانوں سے چلتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بین الاقوامی کمپنیاں پہلے مارکیٹ میں آتی ہیں،سستا سامان فروخت کرتی ہیں لیکن جب ان کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے تو وہ اپنی من مانی کرتی ہیں۔لیکن حکومت کا خیال ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں کو ملک میں کام کرنے کی اجازت دینے سے ترسیل کی صورتحال بہتر ہوگی اور مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ دوسری طرف کارپوریٹ دنیا کا حکومت پر دبائو بادستور جاری ہے۔اور اسی دبائو میں آکر یا مخصوص نتائج کے پیش نظر حکومت ہند نے والمارٹ اور ان جیسی دیگر بیرونی سرمایہ دارکمپنیوں کو خردہ بازار میں سرمایہ داری کی اجازت دے دی ہے۔
حزب اختلاف نے آئندہ ہونے والے پارلیمنٹ انتخابات میں اس موضوع کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہے۔ فی الوقت بھی حکومت کے اس فیصلہ پرچہارجانب مذمّت جاری ہے اور عوامی احتجاج شروع ہو چکے ہیں۔چونکہ کھدرا بازار قومی آمدنی کا ایک اہم جز ہے جس کا راست تعلق عوام سے ہے۔یعنی پیدوار کرنے والے بھی عوام اور خرید و فروخت کرنے والے بھی عوام ۔لیکن اگر یہ تعلق بیرونی حکومتوں یا ان کے من چاہے افراد کی شکل میں تبدیل ہوجائے تو لازم ہے کہ ملک کی معیشت میںراست اُن بیرونی حکومتوں کی حصہ داری بھی بڑھ جائے گی جو چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر ابھرتا ہوا ہندوستان ان کی غلامی کے پنجے میں جکڑ جائے۔ہندوستان کی سیاسی صورتحال کا تجزیہ کرنے والے اس جانب بھی متوجہ کرتے آئے ہیں کہ ملک کو سیاسی رخ دینے میں سرمایہ داروں کے مفادہمیشہ پیش نظر رکھے جاتے ہیں۔ کہیں یہ سرمایہ دار ٹاٹا اور امبانی جیسے ناموں سے پہچانے جاتے ہیں تو کہیں دوسرے ناموں سے۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ آج ہندوستان میںسیاست ایک کھلا بازار بن چکا ہے جہاں مال و دولت کی بے انتہا فراوانی ہے۔انتخابات میں الیکشن کمیشن کی جانب سے طے کی گئی رقم کے باوجود سیاسی گٹھ جوڑ میں بے انتہا روپیہ صرف ہو تا ہے۔ اور جو شخص یا پارٹی جتنی دولت خرچ کرتی ہے اسی قدر اس کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ان حالات میں کھدرے بازار میں بیرونی سرمایہ داری کے اثرات دور رس محسوس کیے جا نے چاہیے۔ساتھ ہی یہ سرمایہ داری ان لوگوں پر بھی اثر انداز ہوگی جومارکیٹ میں کھانے پینے کی مختلف چیزوں کی ذخیرہ اندوزی صرف اس غرض سے کرتے ہیں کہ اس سے قیمتوں میں ذاتی مفاد کے پیش نظر اضافہ و کمی کی جا سکے گی نیز اس عمل کے نفاذ میںتعاون و مددکرنے والے چھوٹے سے لیکر بڑے تمام ہی سیاسی رہنما ہوتے ہیں۔اور یہ مدد و رہنمائی اس لیے کی اور کروائی جاتی ہے کیونکہ یہی وہ سرمایہ دار ہیں جوان سیاسی جماعتوں کو مالی تعاون فراہم کرتے ہیں۔پس ایسے حالات میں کیوں کر ان کے مفاد کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟یہ صحیح ہے کہ کھدرے بازار میں بیرونی سرمایہ داری سے ان چھوٹے قسم کے دلالوں و سرمایہ داروں کی گرفت کمزور ہوگی تو سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ وہ کون لوگ ہوں گے جن کی گرفت مضبوط ہونے کے امکانات ہیں؟کیا یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ملک کو پہلی دفعہ غلامی کا طوق پہنایا تھا؟یا ان ہی سے مشابہت رکھنے والے چند ملتے جلتے نام!
واقعہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے ملک میں روزمرہ کا سامان وہی لوگ فراہم کرتے آئے ہیں جن کو ہم اسرائیل،امریکہ، یورپین کمپنیز نیزچین و جاپان کے نام سے جانتے ہیں۔فرق اب تک بس یہ تھا کہ یہ کام قدرے کم اثر انداز تھا لیکن آج حکومت ان کے اثرات بڑھانے کیلیے جواز تلاش رہی ہے،قانون بنا رہی ہے اور کھل کر مداخلت کر تی نظرآرہی ہے۔ملک کے 80%فیصد عوام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں نیزان کی ذلت و رسوائی کے مزیدمواقع پیدا کیے جا رہے ہیں۔ اس مفروضہ کے ساتھ کہ یہ فیصلہ ملک کے مفاد میں بہتر ثابت ہوگا۔اس کے باوجود کہ نتائج و شواہد مکمل طور پر مفروضہ کے خلاف موجود ہیں۔واقعہ کے پس منظر میں سوال یہ ہے کہ والمارٹ اور ان جیسی دیگر کمپنیوں کاہندوستان میں آنا، ان کے لیے لابیئنگ جیسی باتوں کا منظر عام پر آنا،بیرونی سرمایہ کاری کے نتیجہ میں اسمال اسکیل انڈسٹریز کو نقصان پہنچایا جانا ،چھوٹے کاروبار کا مکمل طور پر قلع قمع کرنااور اسی طرز کے واقعات و اقدامات کیا ملک کے لیے سود مند ثابت ہو سکتے ہیں؟اس کے باوجود کہ چین، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ میں خوردہ فروشی کے شعبوں تک راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو صد فی صد رسائی حاصل ہے۔لیکن وہاں اور یہاں میں فرق شاید یہی ہے کہ ہم بے انتہا گھپلوں اور گھوٹالوں کے ریکارڈ محفوظ رکھتے ہیں جبکہ ان کا معاملہ ہم سے ذرا مختلف ہے!