Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

فٹ پاتھ سے عالیشان بنگلے تک کا سفر سبق آموز ہے

by | Nov 1, 2013

الصامت انٹر نیشنل کمپنی کے مالک غلام پیش امام کا بچپن بھی فٹ پاتھوں پر سو کر گذرا ہے،بھوک کی آگ مٹانے کے لئے انہوں نے بھی ہزار جتن کئے ہیں لیکن کبھی بھی اپنے اصولوں سے انحراف نہیں کیا،نہ ہی بڑا بننے کی خواہش میں کسی شارٹ ٹرم گیم کو کھیلا۔اب انہیں خوشی ان لوگوں کی مدد کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے جنہوں نے بچپن کی مسکراہٹ چھین کر انہیں پریشانیاں اٹھانے پر مجبور کر دیا تھا۔ خودداری،ہوشیاری اورغمگساری کے ذریعہ آج وہ مہاراشٹر میں اپنا دبدبہ رکھتے ہیں….دانش ریاض سے ہوئی گفتگو میں وہ اپنا درد بیان کرتے ہوئے ان تمام گوشوں کو کھنگالنے کی کوشش کرتے ہیں جو اب بھی ناپید ہیں ۔پیش ہیں اہم اقتباسات

غلام پیش امام دوسرے کل ہند تجارتی اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے

غلام پیش امام دوسرے کل ہند تجارتی اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے

سوال: مین پاور بزنس میں الصامت انٹر نیشنل کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ،ملک کی مشہور کمپنیوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے ،یہاں تک کا مرحلہ کیسے طے کیا؟
جواب: اللہ تعالی کا شکر ہے کہ آج میں کسی مقام پر ہوں ،یقینا ملک کی دس سر فہرست مین پاور کمپنیوں میں ہمارا بھی نام آتا ہے،ہمارا لائسنس نمبر بھی123ہے جسے1978میں رجسٹرڈ کروایا تھا لیکن یہاں تک پہنچنے کی داستان بڑی تلخ ہے۔میں نے 21جولائی 1946؁ ء کو مہاراشٹر کے ضلع رائے گڈھ کے دیویا گائوں(شری وردھن) میںایک زمیندار گھرانے میں آنکھیں کھولیں،ہماری اپنی حویلی تھی ،جائیداد تھا،نوکر چاکر تھے ،پر تعیش زندگی کا تمام سامان میسر تھا لیکن اسی دوران تقسیم ملک کا سانحہ پیش آیا اورمیرے والدمشیر پیش امام جو ar at law Bتھے ،ماں اور بھائیوں کو تنہا چھوڑ کر1956؁میں پاکستان چلے گئے اورپھر وہاں جا کر دوسری شادی کر لی ۔اب ہم اپنے چچا کے رحم و کرم پر رہنے لگے لیکن دھیرے دھیرے ہمارا اپنا گھرہی پرایا لگنے لگا،چچا ہمیں کسی صورت گھر سے نکالنا چاہتے تھے،اور بالآخر وہ وقت بھی آگیا جب چچا ظہیر پیش امام سے والدہ کی لڑائی ہوئی اور انہوں نے گھر خالی کرنے کا فرمان جاری کردیا،باپ کے ہوتے ہوئے ہم پہلے ہی یتیم ہو چکے تھے اب رہی سہی عزت بھی نیلام ہو گئی اور اپنے ہی محلّے میں کرائے کے مکان میں رہنے لگے،تنگ دستی کا زمانہ تھا ،میری پڑھائی جاری تھی،شاید میں پہلا طالب علم تھا جس نے درجہ اول سے انٹر میڈیٹ تک کی تعلیم کیلئے آٹھ سے دس اسکولوں میں داخلہ لیا اور اپنی پڑھائی مکمل کرنے کی کوشش کی۔1964سے 1977تک زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے تگ و دو کرتا رہا،اسی دوران ممبئی آیا اور بہرام پاڑہ کی جھوپڑ پٹیوں میں سکونت اختیار کر لی ،دن بھر روزی روٹی کی تلاش میںمارا مارا پھرتا اور رات کو فٹ پاتھ پر آکر سو جاتا،یہ 1972کی بات ہے جب میں نے بی اے مکمل کرنے کے لئے مہاراشٹر کالج میں داخلہ لیاتھا،پڑھائی کے ساتھ ساتھ مختلف کام کرتا رہا ،کبھی پرانی گاڑیا بیچیں ،کبھی جوتا چپل کا کاروبار کیا تو کبھی پتھر وغیرہ کی ڈلیوری دی ،یعنی جو کام بھی مل جاتا اسے کرنے کی کوشش کرتا 1977میں Manpowerکا بزنس شروع ہو رہا تھا،جس کا بڑا شور تھا،آخر میں نے بھی قرض لے کر ناگدا دیوی پر 4ہزارosit Dep ادا کر کے ایک چھوٹی سی دکان کھولی اور مین پاور کا کام کرنے لگا،اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لئے میں نے لائحہ عمل ترتیب دیااور پھر 1978میں سعودی عرب کے پہلے دورہ پرگیا،میں اپنا بیگ لئے مختلف کمپنیوں کی آفسوں میں بھٹکتا رہتا،ہر آدمی یہی پوچھتا کہ تمہارا پروفائل کیا ہے،آخر کار مایوس ہوکر جب میں لوٹنا چاہ رہا تھا تبھی ایک لبنانی کمپنی ’’توقیرۃ الحذ‘‘کے مالک انجینئر حسن سے ملاقات ہوئی ،انہوں نے بھی یہی سوال کیا کہ تمہارا سابقہ تجربہ کیا ہے ،میں نے ان سے صاف صاف کہا کہ میری پوری قابلیت آپ کے لئے ہے اگر آپ صرف بطور ٹرائل ہی کام دیں تو میرا پروفائل پتہ چل جائے گا ،انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا اور پھر میں ممبئی چلا آیا،ایک ماہ کا عرصہ بھی نہیں گذرا تھا کہ میں کسی کام سے دہلی گیا ہوا تھا وہیں میرے کزن افضل کا فون آیا کہ کوئی حسن ابو اسماعیل ملنے آئے ہیں آپ فوراً آجائیں ،یہ میرے کام کا آغاز تھا کیونکہ پہلی ہی مرتبہ حسن نے مجھے دو ہزار آدمی کاContract دیا تھااور پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔مجھے دوسرا بریک راس الخیمہ(دبئی)کی کمپنی ’’یونائیٹیڈ عرب‘‘کی طرف سے ملا،دراصل کمپنی کوفوری طور پر پچاس آدمیوں کی ضرورت تھی ،ممبئی میں شیخ آئے ہوئے تھے لیکن کاغذی کارروائی مکمل نہیں ہو پا رہی تھی ،کسی نے مجھ سے کہا کہ کیا تم فوری طور پر یہ کام کر سکتے ہو،میں نے حامی بھر لی ،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ سنیچر کا دن تھااور سوموار کے روز تمام لوگوں کی فلائٹ کروانی تھی میں فوراً ہی پاسپورٹ آفس گیا اوروہاں کے بڑے آفیسر سے بات کی ،انہیں اپنی مشکل سے آگاہ کیا اور 50لوگوں کے کاغذات تیار کرنے کے لئے مہلت طلب کی ، انہوں نے وقتی طور پرDuplicateکاغذات جاری کردئے اور Originalکاغذات جمع کرنے کی مہلت دے دی،بہر صورت تمام لوگ دبئی کے لئے سوموار کو فلائٹ پر سوار ہوگئے،میری حاضر دماغی اور کام کے انداز کو دیکھ کر کمپنی کے سربراہ بہت ہی خوش ہوئے اور پھر ان کا تمام کام مجھے ہی ملنے لگا۔
سوال :موجودہ آفس میں کب منتقل ہوئے؟یہاں بیٹھ کر تمام کاروبار کس طرح چلاتے ہیں؟
جواب:اللہ رب العزت نے جب کشادگی عطا کی تو 1982میں میںنے آفس خریدی اور ماہم آگیا،یہ خالصتاً شیو سینکوں کا علاقہ ہے لیکن اس کے باوجود میں نے یہاں سے اپنے کا م کا آغاز کیا،1983میں مجھے مہندرا اینڈ مہیندراکی ایجنسی مل گئی لہذا ان کے ساتھ کام کرنے لگا،اسی دوران میں نے ایک Presentation بنایا ،وہPresentation نوے فیصد جھوٹ پر مبنی تھا لیکن جس بھی کمپنی میں میں جاتا وہاں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا، دوسروں کے بجائے مجھے ہی کام دیا جاتا ،دراصل دنیا دکھاوے پر کافی توجہ دیتی ہے لہذا میں نے بھی دماغ کا استعمال کیا اور موریشس ،سری لنکا میں اپنے کاروبار کو پھیلایا۔1993میں جب ممبئی میں فساد پھوٹ پڑا تو میری آفس بھی نذر آتش کر دی گئی ۔معالات جب قابو میں آئے اور میں آفس آیا تو پھر میں نے شیو سینا کے لوگوں سے کہا کہ پہلے میں آپ لوگوں کو بھائی چارہ میں رقم دیا کرتا تھا لیکن اس کے باوجود آپ نے مجھے نہیں بخشا اور میرے کاروبار کو نقصان پہنچایا ،اب میں کوئی رقم نہیں دوں گا جسے جو کرنا ہو کر لے۔آخر اس واقعہ کے بعد کبھی بھی میں دب کر نہیں رہا۔
سوال:آپ نے کبھی نوکری کرنے کے بارے میں کیوں نہیں سوچا،خصوصاً سرکاری نوکری؟
جواب:بچپن سے ہی مجھے تجارت کا شوق تھا،جب میں سلیٹ اور پنسل سے پڑھتا تھا ،اس وقت ایک پیسے کی پنسل ملا کرتی تھی،میں ایک پنسل کے دو ٹکڑے کرتا اور اپنے دوستوں کو بیچ دیتا ،لہذا شروع سے ہی یہ ذہن تھا کہ تجارت کروں گا۔اسی طرح میرا معاملہ بڑا عجیب تھا، میں کبھی کسی کی صحبت سے متاثر نہیں ہوا،حالانکہ میں ہر طرح کی خراب صحبتوں میں رہا ہوں ،شرابی ،قمار باز،چور میرے ساتھی رہے ہیں ،بچپن میں معاملہ یہ تھا کہ جب کوئی بچہ میرے ساتھ کھیلنے لگتا تو آس پاس کے لوگ فوراً اس کے والدین کو خبر دار کرتے کہ اپنے بچے کو سنبھالو ورنہ بگڑ جائے گا،آج کل وہ غلام کے ساتھ کھیل رہا ہے۔مفلسی کے دور میں مجھ پر چوریوں کے الزامات بھی لگے ،کئی مرتبہ جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی،لیکن ان تمام کے باوجود میری خواہش رہتی کہ میں دن میں ایک دو گھنٹے کسی پڑھے لکھے آدمی کے ساتھ گذاروں ،آگرہ سے تعلق رکھنے والے ایک عالم الیاس صاحب تھے میں اکثر ان کے ساتھ رہتااور علمی گفتگو کرتا تھاجس کی وجہ سے میرا ذہن بھی کھلا ہوا ہے۔
سوال:کیا ہندوستان کا سیاسی نظام مسلم تاجروں کے لئے سازگار ہے؟
جواب:تجارت پیشہ افراد کے لئے ہمارا جمہوری نظام درست نہیں ہے۔خاص طور سے مسلمانوں کے لئے،بیوروکریسی میں آر ایس ایس کے افراد بھرے ہوئے ہیں،مسلمان تاجر 100سال قبل جس طرح آگے تھے اب ویسا نہیں ہے،جب کوئی مسلمان اپنی کمپنی شروع کرے گا اور اس میں کوئی غیر مسلم نہ ہو تو پھر فائل آگے نہیں بڑھے گی۔یہاں مسلمانوں کے لئے کوئی قانون نہیں ہے،جو لوگ ذاتی اثر و رسوخ سے کام کروا لیتے ہیں ان کی بات الگ ہے ورنہ عام مسلمان یہاں ہر ہر محاذ پر پریشان ہی نظر آئے گا۔آپ اس کا جائزہ اس طرح بھی لیں کہ جو مسلمان تاجر یہاں سے ہجرت کر کے پاکستان گئے آج وہ ترقی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں لیکن جو لوگ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی یہیں رہ گئے وہ مسلسل پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔
سوال: موجودہ نوجوانوں میں شارٹ ٹرم گیم کھیلنے اور پیسہ کمانے کا چلن عام ہوتا جارہا ہے آخر اس پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے؟
جواب: دراصل میڈیا کا اس میں بہت بڑا رول ہے۔ دنیا اتنی چھوٹی ہوگئی ہے اور خواہشات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔جب خواہشات بڑھ جاتے ہیں تو صبر و ضبط میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور ایسے لوگوں میں مستقل مزاجی بھی نہیں ہوتی اور وہ شارٹ کٹ راستے تلاش کرتے رہتے ہیں۔جو شخص شارٹ کٹ کمانا چاہتا ہے تو اسے کبھی بھی یہ سیدھے راستے نہیں مل پاتا نتیجتاً وہ جو حرکتیں کرتا ہے وہ الامان و الحفیظ۔خصوصی طور پر آج کل بلڈروں میںیہ وبا عام ہوگئی ہے۔دراصل تعمیرات میں آسان اسلئے ہے کہ ضرورت مند انسان کو جب روز یہ تصویر دکھائی جاتی ہے کہ تم جائداد کے مالک بن گئے ہو تو وہ پھر بغیر Agreementکے بھی دستخط کر دیتا ہے۔ اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ White Moneyاور Black Moneyکا بھی معاملہ ہوتا ہے ۔اگر بلڈر اپنا وعدہ پورا نہ کرے تو خریدار اسلئے بھی پریشان رہتا ہے کہ وہ عدالت کا دروازہ بھی Black & Whiteکی وجہ سے کھٹکھٹا نہیں سکتا۔جبکہ بلڈروں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے پاس اچھے اچھے وکلاء رہتے ہیںجو ان کے قانونی معاملات کو دیکھتے ہیں لہذا 15برس کے عرصے میں میں نے دیکھا ہے کہ جن کے پاس کچھ نہیں تھا وہ کروڑوں کے مالک بن گئے۔اصل میں ان کا Ambitionاصولوں پر نہیں ہوتاجس راستے سے بھی پیسے آجائیں وہ اس جد و جہد میں مشغول رہتے ہیںجبکہ ضمیر فروشی تو عام بات ہوگئی ہے۔
سوال : آپ نے شارٹ ٹرم بزنس کیوں نہیں کیا؟
جواب:مجھے بھی زندگی میں بہت سارے مواقع ملے اور شارٹ ٹرم گیم کھیلنے کا آفر ملا لیکن میں نے ہمیشہ اس سے کنارہ کشی اختیار کی۔میں نے تالاب کو ترجیح نہیں دی بلکہ چشمے کو ترجیح دی۔انسان کو صاف و شفاف پانی کی ضرورت ہے ،تالاب کا پانی بہت نظر آتا ہیلیکن وقتی ہوتا ہے۔اس میں استقامت نہیں ہوتی۔شارٹ ٹرم کمانے کا جو پلان بناتا ہے وہ صرف اپنا فائدہ سوچتا ہے اور کسی بھی حالت میں کمانا چاہتا ہے۔اسلئے نقصان چاہے کسی کا بھی ہو وہ اپنے فائدے کو ملحوظ رکھتا ہے۔میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ سلسلہ دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے۔اگر ممبئی کی تاریخ لی جائے تو اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنا سرمایہ تو بنایا لیکن کئی لوگوں کے سرمائے کی بربادی کا باعث بنے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کچھ نہیں کرپاتا ہے۔دراصل خواہشات پر نظر رکھ کر جو کام کرتا ہے وہ شارٹ ٹرم کی طرف سوچتا ہے کیونکہ ہمارا بھروسہ اللہ کی غیب کی باتوں پر نہیں ہوتا ۔مثال کے طور پر جس کو آخرت کا یقین پختہ ہوجاتا ہے اس کی نظر میں دنیا کی قدر و قیمت گرتی جاتی ہے تو غیب کی چیزوں پر یقین رکھنا شارٹ ترم گیم سے ہمیشہ دور رکھے گا۔

سوال:مین پاور کے علاوہ مزید کن چیزوں کی تجارت کرتے ہیں؟نیز سالانہ ٹرن اوور کیا ہے؟
جواب:خلیجی ممالک،سعودی عرب ،روس ،قزاقستان،موریشس کے علاوہ یوروپی ممالک میں بھی ہمارے آدمی بھیجے جاتے ہیں جن کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔مجھے فارمنگ کا شوق ہے لہذا میں نے دو تین ہزار آم کے درخت لگائے ہیں،آٹو موبائل اور Property کے بزنس میں بھی ہمارا عمل دخل ہے۔
سوال:زندگی کا کوئی ایسا واقعہ جو اب بھی بھلائے نہیں بھولتا ؟
جواب:میری زندگی کے بیشتر واقعات اب بھی مجھے یاد آتے ہیںلیکن کچھ خاص ایسے ہیں جو بھلائے نہیں بھولتے،جن دنوں میں ممبئی کے کریمی ہاسٹل میں رہتا تھااس وقت پیسوں کی بڑی تنگی رہتی تھی ایک مرتبہ عید کا دن تھا،میرے پاس کھانے تک کے پیسے نہیں تھے،میں بھوکا پیاسا ہاسٹل میں پڑا ہوا تھا شام کے وقت میرا بھائی جاوید آیا جس نے مجھے عیدی کے دو تین روپئے دئے جسے لے کر میں ہوٹل گیا اور پیٹ کی آگ بجھائی۔اسی طرح میرے والد جب کسی کام سے ہندوستان آئے تو ملاقات کے لئے ہم بھائیوں کو بھی بلایا ،میرے چھوٹے بھائی نے ابّا کو نہیں دیکھا تھالہذا اس کے اندر بڑا جوش تھا ،والد صاحب میرے سوتیلے بھائی کے ساتھ ہوٹل تاج میں ٹھہرے ہوئے تھے،جب ہم ملنے گئے تو والد صاحب نے چھوٹے بھائی پر توجہ تک نہیں دی،ملاقات کے بعد جب ہم سیڑھیوں سے اتر کر آرہے تھے میرا بھائی یہ کہہ کر رونے لگا کہ آخر ابا نے کیوں مجھے دیکھا تک نہیں؟اس کے آنسو آج بھی مجھے یاد آتے ہیںاور دل کو تڑپا جاتے ہیں۔البتہ میری زندگی کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ جب والد صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تو انہوں نے والدہ سے آکر معافی مانگی،مجھ سے معافی مانگی،میرے بھائیوں سے معافی مانگی اور پھر دوست بن کر ہمارے ساتھ رہے۔انتقال سے قبل اکثر لوگوں کو کہتے کہ مجھے اس بیٹے پر فخر ہے۔

غلام پیش امام(درمیان میں) اسلام جمخانہ میں منعقدہ دوسرے تجارتی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے

غلام پیش امام(درمیان میں) اسلام جمخانہ میں منعقدہ دوسرے تجارتی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے

جواب: دنیا میں تجارت یا معیشت کی ضرورت صرف زندگی گذارنے کے لئے ہے ورنہ حقیقت میں اس کی کوئی اہمیت نہیں،میں بھی اسے اتنی ہی اہمیت دیتا ہوں ۔فلاحی کاموں میں دلچسپی ہے۔سماجی کا موں سے لگائو کا ہی نتیجہ ہے کہ میں تیس برس سے انجمن اسلام (زنجیرہ )کا صدر ہوں،انجمن اسلام ممبئی کے ایکزکیوٹیو باڈی کا ممبر جبکہ کرلا انجمن اسلام کا ایکزکیوٹیو چیرمن ہوں۔کمیونلزم کمبیٹ(Communalism Combat )جس کی ایڈیٹر ٹیسٹا سیتلواد ہیں ،میری ہی کوششوں کی وجہ سے شروع ہوا ہے۔اسی طرحHuman Right تنظیم Citizen for Justice and Peace کوبھی میں نے ہی قائم کیاہے،لیگل سیل قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔لیکن تمام کام اللہ کی خوشنودی کے لئے کیا ہے،مجھے نام و نمود کبھی پسند نہیں رہا،یہی وجہ ہے کہ میں نے کبھی ٹرسٹ نہیں بنایا۔جب بھی میں بھلائی کے کام کرتا ہوں تو اسے بھول جانے کی کوشش کرتا ہوں،یہاں تک کہ بچوں اور بیوی تک کے علم میں کوئی چیز نہیں لاتا۔اسی طرح بھلائی کے بعد کسی سے معاوضہ کی توقع نہیں رکھتا۔
کھانے میں میں مچھلی پسند کرتا ہوں جبکہ گوشت بہت ہی کم کھاتا ہوں۔

Recent Posts

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستان کی چمڑا صنعت کے موجودہ حالات، چیلنجز، مواقع، تکنیکی ترقی اور مستقبل کے امکانات

ہندوستان کی چمڑا صنعت کے موجودہ حالات، چیلنجز، مواقع، تکنیکی ترقی اور مستقبل کے امکانات

کولکاتہ(معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستان کی چمڑا(لیدر) صنعت ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اس کا مستقبل بہت زیادہ امکانات سے بھرپور نظر آتا ہے۔ یہ صنعت نہ صرف روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہے بلکہ برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ کمانے میں بھی اہم شراکت دار ہے۔ اس مضمون...

آن لائن کاروبار میں خود کفیل ہوتی خواتین

آن لائن کاروبار میں خود کفیل ہوتی خواتین

ارچنا کشور چھپرا، بہار عورت قدرت کی خوبصورت ترین تخلیقات میں سے ایک ہے۔ پوری دنیا اس نصف آبادی پر مشتمل ہے۔ 8 مارچ دنیا کی اس نصف آبادی کا دن ہے۔ خواتین کا عالمی دن ہر سال اس دن منایا جاتا ہے جس کا مقصدانہیں ان کے حقوق سے آگاہ کرنا اور انہیں بااختیار بنانا ہے۔ تمام...

آر بی آئی نے ایمیزون پر عائد کیا جرمانہ

آر بی آئی نے ایمیزون پر عائد کیا جرمانہ

نئی دہلی : ریزروبینک آف انڈیا نے ایمیرزون کی ایک سبڈری کمپنی ’ایمیزون پے‘ پر ۳ کروڑ کا جرمانہ لگایا ہے۔ مرکزی بینک نے بتایا کہ ایمیزون پے نے کچھ اصولوں پر عمل نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے اس پر یہ جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ مرکزی بینک نے اس معاملے میں کمپنی کو نوٹس جاری کیا...