
میڈیا کے بڑھتے اثرات اور مدارس کی ذمہ داریاں

دانش ریاض
ممبئی سے شائع ہونے والے75سالہ قدیم اردواخبار’’انقلاب‘‘ کا سودا جب آر ایس ایس کی ترجمانی کرنے والے جاگرن گروپ سے دو سو کروڑ روپئے میں طے قرار پایا تو کسی کو حیرت نہیں ہوئی۔غیر مصدقہ رپورٹوں کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے وزارت اعلیٰ کے امیدوار نریندر مودی کی میڈیا میں تشہیر پرجب 500کروڑ روپئے لگائے گئے تو بھی کسی نے حیرت کا اظہار نہیں کیا۔لیکن جب انڈیا اگینسٹ کرپشن کے بینر تلے اروند کیجریوال نےاپنی مہم شروع کی اور محض گیارہ ماہ کی مدت میں ’’عام آدمی پارٹی‘‘بناکر دہلی کی وزارت پر قبضہ کرلیا تو اکثرو بیشتر لوگوں کو یہ تبصرہ کرتے ہوئے سنا گیاکہ میڈیا نے اروند کیجریوال کو وزارت کی کرسی تک پہنچایا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ہر کوئی میڈیا کے سہارے ہی اپنی تشہیر کروا رہا ہے اور لوگوں کے ذہن و دماغ پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
دراصل عالمی میڈیا پر اگر یہودیوں نے قبضہ جمائے رکھا ہے تو ہندوستانی میڈیا پر برہمنوں کی گرفت بہت شدید ہے۔کیا یہ سوال توجہ طلب نہیں کہ دنیا کی کل آبادی میں محض 0.2%حصہ داری رکھنے والے یہودی میڈیا میں 98%کیشراکت داری رکھتے ہیں۔جبکہ لٹریچر کے 22%نوبل انعامات بھی انہوں نے ہی حاصل کئے ہیں۔کیا یہ بات قابل غور نہیں کہ ہندوستانی آبادی میں محض 5%حصہ داری رکھنے والے برہمنوں کاہندوستانی میڈیا میں 59%حصہ داری ہے۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہندوستانی آبادی میں عیسائیوں کی تعداد محض 2%ہے لیکن انگریزی میڈیا میں ان کی شرکت 98%ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 13%مصدقہ اور( 25%غیر مصدقہ )ہے لیکن میڈیا میں ہمارا وجود نہ کے برابر ہے۔2فیصدکا تخمینہ لگایا بھی جاتا ہے تو وہ صرف ہندی اور اردو میڈیا کو شامل کر کے لگایا جاتا ہے جبکہ انگریزی میڈیا میں ہماری شمولیت بالکل نہیں ہے۔
آخر کیا وجوہات ہیں کہ تحریک آزادی میں ــ’’الہلال‘‘و’’ البلاغ‘‘کی اہمیت تسلیم کرنے والی امت وقت وحالات کے ساتھ صحافتی میدان میں پیچھے چلی گئی؟حالانکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں جتنے مدارس ہیں اکثر و بیشتر مدارس شاید میڈیا کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ہی اپنےادارے کی جانب سے کوئی نہ کوئی جریدہ و رسالہ ضرور نکالتے ہیں لیکن اپنے نصاب تعلیم میں اسے نظر انداز کرتے ہیں۔
بدلتے زمانے کے ساتھ میڈیا نے سب سے زیادہ مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کی ہے جس میں مدارس کو ہی سب سے زیادہ ٹارگیٹ کیاگیا ہے۔مدارس کی شبیہ خراب کرنے کے لئے جس پروپیگنڈہ ٹول کا استعمال کیا گیا ہےاس میں سب سے پہلے تو پرنٹ میڈیا کا کردار اہم رہا ہے اور بعد میںالیکٹرانک میڈیانے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔حالانکہ میڈیا میں کام کرنے والے افراد بخوبی واقف ہیں کہ میڈیا کے دروازے تمام لوگوں کے لئے کھلے ہوئے ہیںفرق صرف یہ ہے کہ چونکہ اہم عہدوں پراسلام دشمن طاقتوں کے ٹھیکیدار بیٹھے ہیں لہذا وہ اسلام دشمنوں کے فکر و خیال کی تر ویج و اشاعت کا کام کرتے ہیں،جن جگہوں پر سیکولر خیالات کے حاملین کا قبضہ ہے وہاں سے سیکولر خیالات کی ترویج ہوتی ہے۔
لہذا اس وقت جو بنیادی سوالات زیر غور ہیں وہ یہ کہ مدارس اسلامیہ ان بدلتے ہوئے حالات میں کس طرح کا کردار ادا کرے؟
جس کا جواب یہ ممکن ہے کہ اولاً ہمیں نصاب تعلیم میں ایک سبجیکٹ میڈیا کا بھی رکھنا چاہئے جہاں سے ابتدائی طور پر طلبہ وطالبات کی رہنمائی ہو کہ میڈیا کیا ہے اور وہاں کس طرح کام کیا جاتا ہے۔
ثانیاً یہ کہ چونکہ میڈیا میں مختلف زبان و ادب کا رول اہم ہوتا ہے لہذا جب ہم اپنے یہاں زبان و ادب پڑھا رہے ہوں تو طلبہ کو یہ باور کرائیں کہ اگر آپ محض اچھے مترجم بھی بن جاتے ہیں اور عربی،انگریزی اورفارسی کے ساتھ دوسری زبانوں میں تراجم کا رول ادا کرسکتے ہیں تو میڈیا میں آپ کے لئے بہتر مواقع ہیں۔
ثالثاً یہ کہ میڈیا میں خصوصاً الیکٹرانک میڈیا میں زبان و بیان کے ساتھ لہجہ و ادائیگی کو بھی اہمیت دی جاتی ہے اور اسے ایک اعزازی ہنر سمجھا جاتا ہے چونکہ مدارس کے اندرتحریر و تقریر کے ساتھ مخارج کی تعلیم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے طلبہ کے اندر بیان و اظہار کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے لہذا اگر ہم یہ بتائیں کہ بنیادی تعلیم تو دی جاچکی محض آپ پریکٹس کے ذریعہ اسے مزید بہتر کر لیں تو بھی طلبہ کے اندر دلچسپی پیدا ہوگی اور وہ تھوڑی سی مشق کر کے اپنے آپ کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔
میڈیا میں مارکیٹنگ اور اشتہارات کا بھی بڑا اہم رول ہوتا ہے مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران جہاں اپنے مدارس کی تشہیر کے لئے مختلف پوسٹر،ہینڈبل ،پمفلٹ شائع کرتے ہیں وہیں انہیں چاہئے کہ وہ مختلف اخبارات میں اشتہارات بھی شائع کریں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جہاںلوگوں کو معلومات حاصل ہوگی وہیں اخبارات کے مالکین و ذمہ داران سے رابطہ پیدا ہوگا ۔ وقتاً فوقتاً آپ اپنے فکر و خیال کی ترویج بھی بآسانی کر سکیں گے۔اسی کے ساتھ فارغین مدارس کو چاہئے کہ وہ اشتہارات و مارکیٹنگ کی فیلڈ میں بھی اپنی قسمت آزمائیں اور روزگار کے مواقع تلاش کریں۔اگر مدارس کے لوگ پہلے سے ہی رابطے میں رہیں گے تو فارغین مدارس کو نوکریاں بھی بآسانی مل سکتی ہیں۔
ٹکنالوجی کے بدلتے ہوئے دور میں بعض چیزیں مفت میں ہی میسر ہیں ،بس تھوڑی سی محنت اور کوشش آپ کو بہتر مواقع عطا کرسکتی ہے۔مثلاً یو ٹیوب انٹر نیٹ پر موجود ہے جہاں آپ اپنی بنائی ہوئی فلمیں مفت میں اپ لوڈ کرسکتے ہیں۔آگر آپ کی فلم یا ویڈیو کلپ مشہور ہوجاتی ہے تو یہ آمدنی کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے چونکہ اس وقت بیشتر موبائل فون میں ویڈیو کلپ تیار کرنے کا آپشن موجود ہے اور بیشتر طلبہ موبائل فون استعمال کرتے ہیں لہذااگر طلبہ کو ٹیکنالوجی کی بھی تعلیم دی جائے تو وہ نہ صرف جدید چیزوں سے آگاہ رہیں گے بلکہ بہتر معلومات کو اپ لوڈ بھی کرسکیں گے۔
مدارس اسلامیہ اپنے اپنے اداروں میں ہمہ وقت مختلف طرح کے پروگرام منعقد کرتے ہیں ۔ان دنوںبعض مدارس کے لوگ پروگرام کوریج کے لئے تو صحافیوں کو دعوت دیتے ہیں لیکن پروگرام کے حصہ کے طور پر انہیں مدعو نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ جنہیں آپ نے مدعو کیا وہ منفی رپورٹنگ کرکے چلا جاتا ہے نتیجتاً بلانے والا سبکی محسوس کرتا ہے اور بعد میں وہ کبھی رپورٹنگ کے لئے دعوت بھی نہیں دیتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر آپ نے کبھی بہتر پروگرام بھی کیا تو اس سے عوام واقف نہیں ہو پاتی۔لہذا جب آپ کسی ادارے کو شامل کریں گے اس کے ذمہ داران کو مدعو کریں گے تو انہیں آپ کی کوششوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع بھی ملے گا اور ممکن ہے کہ وہ کسی مقام پر آپ کے لئے مفید ثابت ہو۔
مدارس کے اساتذہ جب انشاء /گرامرپڑھا رہے ہوں تو وہ حالیہ دنوں کے اخبار(اردو،ہندی،انگریزی،عربی وغیرہ) کا سہارا لیں اور طلبہ کو کسی تازہ مضمون پر تبصرہ کرنے کے لئے کہیں،جب وہ طالب علم اپنا مضمون لے کر حاضر ہو تو اسے درست کرکے طالب علم سے کہیں کہ اسے کسی اخبار میں مراسلے کے کالم میں بھیج دے، ممکن ہے کہ پہلی ہی مرتبہ یا دو تین دفعہ کے بعد اس کی چیزیں مراسلے کے کالم میں شائع ہونے لگیں،جس سے نہ صرف طلبہ کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ میڈیا سے طالب علم کی دلچسپی بھی بڑھے گی اور آنے والے دنوں کے لئے ایک صحافی فارغ ہوکر نکلے گا۔