ہندوستان میں اسلامی فائنانس کے تدریجی مراحل

هندوستان میں غیر سودی نظام كے قیام كے لئے كی جانے والی كوششوں سے آگاهی ان تما م افراد كے لئے ضروری هے جو اسلامی مالیاتی نظام كا فروغ چاهتے هیں۔خلافت كے خاتمه كے بعد علمی و عملی طور پر كی جانے والی جد و جهد كا خاكه یقیناً بهت سارے نئے ابواب كی نشاندهی كرتا هے لیكن اس پر استقامت هی مستقبل كی تابناكی كا ضامن هے ۔پیش هے بین الاقوامی معیشت كی رپورٹ
ہندوستان میں اسلامی فائنانس پر عمل آوری کی ابتداء گذشتہ صدی میں اس وقت ہو گئی تھی جب 1944میں مشہور اسلامی اسکالر ڈاکٹر حمید اللہ علیہ الرحمہ نے دستاویزی طور پر ’’انجمن امداد باہمی قرض بلا سود‘‘کی کوششوں کو منظر عام پر لایا تھا۔دراصل یہ انجمن 1923میں ریاست حیدر آباد میں قائم ہوئی تھی جہاں انجمن کے ممبران کو بلا سودی قرض دیا جاتا تھا۔اس کے فوری بعد ہی 1939میں گجرات کے شہر سورت میں پٹنی کو آپریٹیو کریڈٹ سوسائٹی کی بنیاد رکھی گئی اور اسی سے تحریک پاتے ہوئے مجاہد آزادی مولانا حسین احمد مدنی ؒ نے1940میں اتر پردیش کے شہر ٹانڈہ بائولی میں پہلا مسلم فنڈقائم کیا۔ایک طرف اگر لوگوں نے عملی میدان میں اترنا اور اسلامی فائنانس پر کام کرنا شروع کیا تو دوسری طرف علمی میدان میں بھی علماء و دانشوران اپنی نگارشات پیش کرنے لگے ۔1938میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی کتاب ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘1944میں ڈاکٹر حمید اللہ کی کتاب ’’انجمن قرض ہائے بلا سود‘‘1946میںانور اقبال قریشی کی ,Islam and the Theory of Interest ،1947میں سیدمناظر احسن گیلانی کی ’’اسلامی معاشیات‘‘ اور 1948میں نعیم صدیقی کی ’’اسلامی اصول پر بینکنگ ‘‘نے لوگوںکی رہنمائی شروع کردی۔
1950سے قبل جو کام اردو میں شروع ہوا تھا وہ 1960-70میں انگریزی میں منتقل ہونے لگا۔ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی نے 1969میں Muslim Economic Thinking: A Survey of Contemporary Literature and Banking Without Interest لکھی۔لوگوں کے اندر پڑھنے پڑھانے کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں جد و جہد کے راستے بھی استوار ہونے لگے ۔لہذا اس روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ عملی طور پر اس میدان میں جو کام شروع ہوااس کی بہترین مثال 1961میں ہندوستان کی مشہورعلمی و تاریخی جگہ دیوبند میں مسلم فنڈ اور 1966میں حیدر آباد میں طور بیت المال کے قیام کی شکل میں دیکھنے کو ملا ۔یہ ادارے بھی سابقہ اداروں کی طرح ہی اسلامی اصولوں پر کاربند تھے لیکن ان کا امتیاز یہ تھا کہ یہ زیادہ منظم اورجامع انداز میں اپنا کام انجام دے رہے تھے۔ان دو اداروں کی مثال نے شمالی اور جنوبی ہندوستان پر مثبت اثرات ڈالے جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ اس کی تقلید میں کئی ادارے مذکورہ علاقوں میں قائم ہوگئے۔لیکن المیہ یہ رہا کہ سوائے مسلم فنڈ دیوبند کے کوئی بھی کامیابی کے ساتھ اپنا سفر طے نہیں کرسکا جبکہ مسلم فنڈ آج بھی بہتر طور پر قائم ہے اور پوری ایمانداری و استقلال کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔
اسی طرح 1970کے اوائل میں مزید دو غیر سودی ادارے قائم ہوئے جس نے ملک میںانٹرسٹ فری تحریک کو تقویت بخشی۔1971میں اتر پردیش کے شہر نجیب آباد میں مسلم فنڈ نے کام کرنا شروع کردیا۔یہاں یہ بات بلا مبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ ہندوستان کا یہ واحد سب سے بڑا مسلم فنڈ ہے جس کے ذیلی ادارے النجیب ملّی میچول بینیفٹس لمیٹیڈ کو شامل کر لیا جائے تو اس کا کل سرمایہ دو سو کروڑ روپیہ قرار پاتا ہے۔لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس کے کام کااندازبھی مسلم فنڈ کے اصولوں پر ہی منحصر ہے ۔1973میں بیت النصر اربن کو آپریٹیو کریڈٹ سوسائٹی لمیٹیڈ قائم ہوئی جس نے 2001تک تقریباً تیس برس اپنی خدمات انجام دیں ۔یہ بھی ایک قابل اعتبار غیر سودی ادارہ تھا جس نے مروجہ نظام سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے جدید رجحانات کی روشنی میں شرعی بنیادوں پر لوگوں کو اپنی گاڑھی کمائی جمع کرنے اور انہیں بلا سود قرض دینے کا کام شروع کیا تھالیکن تمام تر بہتر انتظامات کے باوجود اسے بھی 2001میں اپنی خدمات بند کرنی پڑیں۔دراصل یہ برکت انویسٹمنٹ گروپ کو بھی اپنا تعاون پیش کر رہا تھا جو کہ اسلامی فائنانس کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دے رہی تھی لیکن جب 2000؁میںاس پر خراب حالات آئے تو اسے بھی اپنا کام روکنا پڑا۔البتہ ہندوستان میں اسلامی بینکنگ کے آغاز کے لئے سب سے پہلے باقاعدہ کوشش جنتا پارٹی کے مختصر دوراقتدار1977 میں شروع ہوئی جب جماعت اسلامی نے اس سلسلے میں اپنا تعاون پیش کیا۔لیکن یہ کوشش بار آور ثابت نہیں ہوئی جس کے بعد 1983میں بیت النصر نے اسی سلسلے میں اگلا قدم بڑھایا۔
اسلامی مالیاتی سرگرمیوں کا آغاز
1980 کی دہائی میں ہندوستان میں اسلامی مالیاتی سرگرمیوں کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوا۔ اس دہائی سے قبل تک اسلامی مالیات سے متعلق تمام عملی سرگرمیوں کا دائرہ لوگوں کوسود سے آزاد قرض فراہم کرانے تک ہی محدود ہوتا تھا۔ اس وقت تک اسلامی مالیات سے کمائی کے بارے میں نہیں سوچا گیا تھا، حالانکہ ملکی اسلامی مالیات اورخارجی اسلامی مالیات دونوں کے اندراس بات کی گنجائش موجود تھی کہ اس مالی نظام کوکمرشیالائزکیا جا سکے۔ اس کے اندر اسلامی تجارتی ماڈل موجود تھا۔اس سلسلے میں 1980 میں کچھ تجارتی پہل کی گئی اورسیونگ اورسرمایہ کاری کا متبادل پیش کیا گیا۔ تاہم یہ پہل چند سالوں کے بعد ناکام ہوگئی۔ ان اداروں میں چند معروف نام اس طرح ہیں حیدرآباد واقع مرکزانوسٹمنٹ، اورمدراس میں واقع المیزان وغیرہ۔
1983 میں برکت انویسٹمنٹ گروپ کا وجود عمل میںآیا اس نے اسٹاک مارکٹ اورلیزنگ میں سرمایہ کاروں کے لئے مواقع پیدا کئے۔ برکت کی اس پیش رفت کےساتھ ہی ہندوستان میں اسلامی تجارتی مالیات کا آغازہوا۔ 1988 تک برکت گروپ کی توجہ خصوصی طورسے ریئل اسٹیٹ کی طرف مرکوزرہی۔ اس درمیان لیزنگ اورشیئرانویسٹمنٹ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ 1986 میں بنگلور واقع الامین تحریک کا آغازہوا۔ الا مین اسلامک فائنانس اینڈ انویسٹمنٹ کارپوریشن لمیٹیڈ (AIFIC)ملک کی پہلی لیزنگ این بی ایس ٹی تھی۔ اس کے بعد 1989 میں البرکہ فائنانس ہائوس لمیٹیڈ کا آغازہوا اوریہ مالیاتی ادارہ پہلا اسلامی ادارہ تھا جس میں خارجی اکویٹی اسٹیک بھی تھا۔ سعودی عرب کے دلہ البرکہ کا شیئر بھی اس میں شامل تھا۔لهذا اس روشنی میں یه بات كهی جاسكتی هے كه تجارتی اسلامی فائنانس حقیقی معنوں میں اب ہندوستان میں داخل ہوچکاہے۔
ترقی اور بحران
1990 کی دہائی کی ابتدا میں ہندوستان میں ہرطرف لبرالائیزیشن کا بول بالا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب اسلامی مالیاتی ادارے کام کرنا شروع کر رہے تھے۔ یہ ادارے آزادانہ اوراشتراک کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ یہ دوراسلامی اقتصادیات کا وہ دورتھا جب ہرطرف لوگ پرامید نظر آرہے تھے۔ اس دور میں سب سے اہم موڑ اس وقت آیا جب ٹاٹا کورسیکٹرنے اکویٹی فنڈ جاری کیا۔ اس کا نشانہ شریعت کی پیروی کرنے والے سرمایہ کارتھے۔ برکت انویسٹمنٹ گروپ نےاسے پورے ملک میں متعارف کرایا۔1990 کی دہائی میں اسلامی مالیات میں تیزی آئی ۔ انڈین ایسوسی ایشن فاراسلامک اکونامکس (IAFIE) کا قیام اسی برس یعنی 1990 میں عمل میں آیا اور1991 میں اس نے اسلامک اکونامک بلیٹن شروع کیا۔ اسی درمیان علی گڑھ مسلم یونیور سٹی نےاسلامی معاشیات پر گریجویشن كا كورس شروع کیا۔ البتہ اس دور میں بہتر نگراں کی کمی تھی۔ ایک وقت آیا جب معیشت بحران کا شکارہوگئی۔ اس درمیان آربی آئی نے اپنے اندربڑے پیمانے پر تبدیلی پیدا کی۔ معیشت کو بچانے کے لئے جو انتظام کیا گیا اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ نظرآیا۔ غیر بینکنگ مالیاتی اداروںپردبائو کی وجہ سے حالات مزید خراب ہوئے۔ اس کا اثربرکت گروپ پربھی پڑا اوراسے کافی نقصان اٹھانا پڑا۔
اسلامی معیشت کی قومی دھارے میں شمولیت
بحران سے نکلتے ہی ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سارے سروس آپریٹرزاسلامی معیشت اور اس میں كی جانے والی سرمایہ کاری ، سیونگ اور انویسٹمنٹ پروڈکٹس میں دلچسپی لینے لگے۔ اس سلسلے میں لوگوں میں بڑے پیمانے پر بیداری آئی۔ اگرچہ لوگوں نے اسے ایک متبادل نظام معیشت کے طورپربہت زیادہ نہیں سراہا تاہم وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔اس دوران کچھ خاص پہل بھی ہوئی۔ ان میں دو خصوصی پروڈکٹس تھے ۔ پہلا پروڈکٹ ٹورس میچوئل فنڈ نے جاری کیا تھا اوردوسرا ٹاٹا میچوئل فنڈ کی طرف سے جاری ہوا تھا۔ دو ریئل اسٹیٹ وینچرکیپیٹل اسکیم سیکورا انڈیا ریئل اسٹیٹ فنڈ کے نام سے جاری ہوا تھا۔ چارواسکیموں کو سیبی SEBI کی منظوری حاصل تھی۔ بجاج ایلینزلائف انشورینس نے پینشن پروڈکٹس کو لانچ کیا اور کارپوریٹ شرعیہ ایڈوائزری کمپنی تیارکی۔2009 میں جی آئی سی ری جو کہ حکومت ہند کی واحد ری انشورنس کمپنی ہے، نے ری تکافل پروڈکٹ کا اجرا کیا تاکہ عالمی پیمانہ پرری تکافل بزنس کا فائدہ اٹھا یا جا سکے۔ 2010 میں پہلی بار ہندوستانی سرمایہ کاروں کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ میٹلس metals میں شرعیہ کمپلائنٹ پیپر كے بغیر سرمایہ کاری کریں۔ یہ موقع انھیں نیشنل ایکسچینج لیمیٹیڈ کی طرف سے حاصل ہواتھا۔
کیرالہ کی ریاستی حکومت نے کیرالہ اسٹیٹ انڈسٹیریئل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے زریعہ این آرآئیزکے تعاون سے شرعیہ کمپلائنٹ این بی ایف سی کے ذریعہ شروع کیا تاکہ ریاست کی ترقی کی رفتارکو مزید تیزترکی جا سکے۔ لیکن کیرالہ ہائی کورٹ میں یہ معاملہ الجھ کررہ گیا۔ دوسری قانونی لڑائی ممبئی ہائی کورٹ میں زیرالتوا ہے، جہاں کالی کٹ واقع الٹرنیٹیو کریڈٹ اینڈ انویسٹمنٹ لیمیٹیڈ (AICL) اور NBFC مشترکہ طور پر بارہ سالہ اسلامی معاشی آپریشن کی جنگ لڑ رہی ہے ۔صدی کی پہلی دہائی کے اختتام پر دو بڑی پہل “سہولت” اور”جن سیوا” کے نام سے ہوئی۔ یہ پیش رفت ایک ہی وقت میں مختلف مقامات سے ہوئی۔ دہلی اور ممبئی بالترتیب اس کا مرکز رہا۔ یہ پہل اس بات کا مظہر ہے کہ ہندوستان میں کس طرح اسلامی معیشت رفتہ رفتہ پروان چرھ رہی ہے۔ انفرا اسٹرکچر کی سطح پراگر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ 2006 میں ہندوستان کا پہلا کو آپریٹیو شرعیہ ایڈوائزری فنڈ، تقوی ایڈوائزری، اور شرعیہ انویسٹمنٹ سالوشن پرائیویٹ لیمیٹیڈ (TASIS ( کا وجود عمل میں آیا۔ اس درمیان اسٹاک مارکٹ کے لئے دو شرعیہ انڈیکس کا اجرادو بڑے ایکسچینج یعنی نیشنل اسٹاک ایکسچینج(NSEL) اورممبئی اسٹاک ایکسچینج کے ذریعہ S&P اور تاسیس کے اشتراک سے ہوا۔ گلوبل اکائونٹنگ کے پی ایم جی نے تاسیس کے ساتھ کنسلٹینسی فراہم کرانے کے لئے سمجھوتہ کیا۔ دوسرے قانونی اداروں نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بھی اسلامی فائنانس میں اپنی خدمات انجام دینا چاہتے ہیں۔ بہت سارے اسٹاک بروکنگ کمپنیاں تمام بڑے میٹرو شہراوردوسرے درجہ کے شہروں میں وجود میں آئیں، اور یہ سب صرف شرعیہ پر ڈکٹس کی مار کیٹنگ کے لئے وقف تھیں۔
نیشنل مائیناریٹی ڈیولپمنٹ فائنانس کارپوریشن نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی اسکیم کا ازسرنو جائزہ لے گی اوراسے شرعیہ لائن کے سانچے میں ڈھالے گی۔ اقلیتی امورکے وزیر نےاس بات کا اعلان کیا ہے کہ حکومت حج فنڈ بنانا چاہتی ہے۔ اور یہ کام ملیشیا کے تبنگ حاجی کے طرز پر کرنا چاهتی ہے۔ واضح ہوکہ تبنگ حاجی پروگرام نے ملیشیا میں اسلامک بینکنگ کی داغ بیل ڈالی تھی۔اس کے علاوہ بھی حکومت میں کافی سنجیدہ کوشش چل رہی ہے۔ مثلا آنند سنہا اسٹڈی گروپ آن اسلامک بینکنگ 2005 کاوجود عمل میں آیا۔ پلاننگ کمیشن میں رگھو رام راجن کمیٹی کی تشکیل ہوئی تاکہ وہ اسلامی معیشت کے امکانات کا جائزه لے۔ خوش آئندبات یہ ہے کہ خود وزیراعظم نے بھی اسلامی بینکنگ کے فوائد اوربنیادی ڈھانچے اوراس کے خوشگواراثرات پر گفتگو کی ہے۔ اگر اکیڈمک سطح پر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ایکسویں صدی میں اسلامی معاشی تعلیم پرخصوصی توجہ دی گئی ہے۔ آج کی تاریخ میں آئی بی ایف ڈاٹ نیٹ بہترین آن لائن کورس فراہم کر رہی ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اسلامی فائنانس میں پی جی ڈپلومہ کرا یا جا رہا ہے۔ الجامعہ الاسلامیہ شانتاپورم کیرالہ میں بھی اسلامک فائنانس پرپی جی ڈپلومہ کرایا جا رہا ہے جبکہ BSAR یونیور سٹی اسلامک فائنانس میں ایم بی اے کا کورس کرا رہی ہے۔ ممبئی اسٹاک ایکسچینج کی بی ایس ای ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ لیمیٹیڈ نےدو دن کا پروفیشنل ورکشاپ کرایا ہے۔ اوراب اسلامک فائنانس میں ڈپلومہ کرانے کی تیاری کر رہی ہے۔
مندرجه بالا جتنے اداروں کا ذکر ہوا ہے ان میں زیادہ ترغیرمسلم ادارے ، کارپوریٹ اور بزنس ہائوسز ہیں جو اسلامک فائنانس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی معیشت بھی قومی دھارے میں شامل ہوگئی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *