
اقلیتوں کو قومی معاشی دھارے میں شامل کیا جائے

دانش ریاض
’’قومی دھارا‘‘ویسے ہی ذو معنی لفظ ہے جیسے ’’جمہوریت‘‘۔جس طرح جمہوریت کا نام لے کر کھلے عام غیر جمہوری طریقے اختیار کئے جاتے ہیں اور اس کی تشریح اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کی جاتی ہے اسی طرح قومی دھارے میں شمولیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر ان مذہبی اختیارات کو سلب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو انسان کا بنیادی حق ہے۔قومی دھارا بھی اتنا ہی مشکوک ہوگیا ہے جتنا آج سیکولرزم مشکوک نظر آتا ہے۔حالانکہ حقیقتاً ’’سیکولرزم ‘‘اور ’’جمہوریت ‘‘کی طرح ’’قومی دھارے‘‘ میں شمولیت کی خواہش بھی ہر اس شخص کو ہوتی ہے جوملک کو ایک ترقی یافتہ ملک دیکھنے کی تمنا لئے جی رہا ہو،لیکن جس طرح اولذکر اصطلاحات کو وقت و حالات کی مناسبت سے استعمال میں لایا جاتا ہے اسی طرح ’’قومی دھارا‘‘بھی ایک خاص حلقے کا خاص مطالبہ بن کر اقلیتوں کی پریشانی کا سبب بنا رہتا ہے۔
ہندوستان ایک سیکولر جمہوری ملک ہے جس کی اساس میں بقائے باہم کا اصول کار فرما رہا ہے۔اکثریتی فرقہ کے ساتھ اقلیتوں کو بھی مساوی دستوری حقوق دئے گئے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ یہاں کی اقلیت ہمیشہ سے ہی اکثریت کی مرہون منت رہی ہے۔انہیں دستوری طور پر یا پھرزبانی جمع خرچ کے لئے منعقدہ جلسے،جلوس،سیمینارو سمپوزیم میں حقوق ادا کئے جانے کا دلاسہ تو دیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر نہ تو ایسے اصول وضع کئے جاتے ہیں جو ان کی ترقی کا باعث بنیں نہ ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں جو اقلیتوں کو حقیقی فلاح و کامرانی سے ہمکنار کر سکیں ۔وعدے وعید کے سہارے اب ہم ستر کی دہائی تک آپہنچے ہیں لیکن پستی مزید ذلت و خواری میں تبدیل ہوتی جار ہی ہے۔سچر کمیٹی کے رکن ممبر ابوصالح شریف کے الفاظ میں ’’کانگریسی حکومت نے رپورٹ تو زور و شور سے تیار کروائی تھی لیکن طویل عرصہ گذرنے کے بعد بھی اس کے کسی ایک شق پر بھی عمل آوری کی کوشش نہیں کی گئی ۔‘‘مختلف رپورٹوں کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ حکومت اب تک اقلیتوں کو صرف بے وقوف بنانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔لہذا حکومت کی نوازشوں پر بھروسہ کئے بغیر اگر ہم قومی دھارے میں شمولیت کی کوشش کریں تو بغیر کسی اختلاف کے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ معاش و معیشت و ہ واحد میدان ہے جس میں اقلیتوں کو نہ صرف شامل کیا جانا چاہئے بلکہ پوری ذمہ داری کے ساتھ اس بات کی کوشش کی جانی چاہئے کہ انہیں معاشی میدان میں کس طرح قومی دھارے کا حصہ بنایا جائے۔
معاشی میدان میں سب سے ابتر صورتحال مسلمانوں کی ہے نیشنل کائونسل فار اپلائڈ ایکنومک ریسرچ( National Council for Applied Economic Research)کی جانب سے کئی برس قبل جوسروے کرایا گیا تھا اس میںبہ صراحت یہ بات درج تھی کہ 31%مسلمانوں کی آبادی محض 550روپئے ماہانہ پر زندگی گذار رہی ہے یعنی مسلمانوں کی بڑی تعداد یومیہ 18.33روپئے کماتی ہے جبکہ گائوں میں رہنے والے مسلمان محض 338روپئے پر ہی گذارہ کر رہے ہیں اور سارے گھر کا خرچ چلا رہے ہیں۔اس رپورٹ سے ان لوگوں کے ساتھ جو ــ’’پدرم سلطان بود‘‘کا نعرہ لگاتے ہیں ان لوگوں کو بھی بڑی حیرت ہوئی تھی جو مسلمانوں کو دلتوں سے بھی بدتر صورتحال کا سامنا کروانے پر مجبور کرنے کے خواہاں ہیں کہ آخر مسلمان دلتوں اور آدی باسیوں سے بھی بدتر زندگی گذارنے پر کیسے مجبو رہو گیاہے ۔یہ المیہ ہی ہے کہ غریبی کی سطح سے بھی نچلی سطح پر زندگی گذارنے والے مسلمانوں کی بڑی تعداد نہ تو حکومتی مراعات حاصل کر پارہی ہے اور نہ ہی سماج میں باعزت زندگی گذارنے کی کوئی سبیل ہی ڈوھنڈھ پارہی ہے۔دوسری طرف لال فیتہ شاہی کی عصبیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لہذا اب معاشی قومی دھارے کی صورت کیا ہوگی یہ صرف غور و فکر کا موضوع نہیں رہا بلکہ عملی جد و جہد کا متقاضی ہے۔
البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے معاشی جد وجہد کے کئی میدان ہیں جن پر اگر سنجیدگی سے توجہ دی جائے تو بغیر حکومتی مراعات کے وہ تمام حقوق دوبارہ حاصل کئے جاسکتے ہیں جوکبھی ماضی میں ہمارا طرہ امتیاز سمجھے جاتے تھے۔اگر ہم صرف تین چار دہائی قبل پر ہی نظر ڈالیں تو ہندوستان کی منڈی مسلمانوں کے ہاتھ میں نظر آتی ہے۔کھیت کھلیان سے لے کر بڑی بڑی جاگیروں کے مالک اگر مسلمان تھے تو بیشتر صنعتیں مسلمانوں کے دم پر ملکی شرحِ نمو میں اضافے کا باعث بن رہی تھیں۔اگر ہم مشرقی ہند سے سفر کا آغاز کریں اور مغربی بنگال کو منتخب کریں تومر شد آباد کے بعد کلکتہ کی منڈی پر مسلمانوں کا قبضہ دیکھتے ہیں،بہار میں داخل ہوں تو بھاگلپوری چادر ہماری ضیافت میں بچھائے جاتے ہیں ۔اتر پردیش میں مئوناتھ بھنجن،مبارک پوراور بنارس میں بننے والی ساڑیاں ہمارے دلوں کو لبھاتی ہیں جب کہ بھدوہی کے قالین ہمارے مہمانوں کو چوپال سجانے پر مجبور کرتے ہیں ۔مرادآباد کے برتن اگر ہمارے شاہی باورچی خانے کا پتہ دیتے ہیں تو رام پور کی ٹوپیاں اور خاص قسم کی چھریاں ہماری شرافت بیان کرتی ہیں ۔چوروں سے حفاظت کے لئے علی گڈھ کے تالے کی وکالت سارا ہندوستان کرتا رہاہے جبکہ شاہی موجڑی اور خاص قسم کے مربع (پیٹھا)کے لئے لوگ آگرہ کا سفر کرنا نہیں بھولتے۔چرمی موزہ ہویا جیکٹ،خالص چمڑے کے کاروبار کے لئے کلکتہ ،کانپور اور چنئی کو امتیاز حاصل ہے جہاں کھال کی دباغت گیری سے لے کر چمڑے کی تیاری تک اور مختلف ساز وسامان کی تکمیل تک ہمارا ہی جال نظر آتاہے۔
اگر مہاراشٹرمیں آئیں تو ٹیکسٹائل کا کاروبار ہمارے ہی مرہون منت سمجھا جاتاہے۔مالیگائوں اور بھیونڈی آج بھی اس کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔حیدر آباد ہماری تہذیب کا مسکن رہا ہے جبکہ کیرلہ میں پائے جانے والے مصالحہ جات کو ہم بیرون ملک بھیجا کرتے تھے۔
لیکن آخر چار دہائی بعد ہی ہماری حالت ایسی کیسے ہوگئی کہ ہمارے ہی لوگ 550روپئے پر گذارہ کرنے لگے؟دراصل ایک طرف جہاں حکومتی زیادتیاں تھیں وہیں دوسری طرف ہم زمانے کی رفتار سے نا آشنا تھے۔زمانہ نئی جُگل بندیوں کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا اور ہم علم کے ساتھ عمل میں بھی کمزور ہوتے جا رہے تھے۔ہماری صنعتیں حکومتی مراعات حاصل کرنے میں ناکام تھیں جبکہ ہم مشینوں کے دور میں بھی کاریگری پر توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے۔کمپنیاں سستے سے سستا مال تیار کرکے لوگوں کے سامنے پیش کر رہی تھیں اور ہم نفاست کا دامن تھامے کرتے اور آستین کی کرچ پر ہی نگاہیں مرکوز کئے ہوئے تھے۔ذرائع ابلاغ کے سہارے گھٹیا چیز کوبھی خوشنما بنا کر بیچ رہے تھے لیکن ہم بہترین مال بھی جائز خریداروں تک پہنچانے میں ناکام تھے۔مغربی بینکنگ نظام نے صنعت کاروں کو نئی راہیں دکھائی تھیں جبکہ ہم خود ساختہ ’’ہُنڈی ‘‘پر ہی کاروبار کئے جارہے تھے۔جب چھوٹے چھوٹے ساہوکار آپسی اتحاد کے ساتھ بڑی بڑی منڈیوں پر قبضہ کر رہے تھے اس وقت ہم اپنی ہی قوم کے بڑے بیوپاریوں کو نیچا دکھانے کی خاطر سازشی جال بن رہے تھے نتیجتاً نہ صرف بڑا بیوپاری ڈوب رہا تھا بلکہ وہ تمام چھوٹے کاروباری بھی ڈوب رہے تھے جو آپس میں مل جل کر کام کیا کرتے تھے۔
اس وقت المیہ یہ ہے کہ اب چھوٹے بیوپاریوں کے ساتھ بڑے صنعت کار بھی پریشان ہیں کہ ہندوستان کی منڈی پوری دنیا کے لئے کھول دی جانے والی ہے ۔پوری دنیا کے بڑے سرمایہ کار اب ہندوستان کو اپنا تختہ مشق بنانے والے ہیں ایسے میں مسلمانوں کی معاشی حالت کیا رخ اختیار کرے گی کچھ کہنا مشکل ہے البتہ انہیں سنجیدگی سے معاشی قومی دھارے میں شامل کیا جائے تو وہ اہداف حاصل کرنے میں آسانی ہوگی جس کا ہندوستان متمنی نظر آتا ہے کیونکہ مسلمانوں کی شمولیت کے بغیر خلیجی ممالک کواپنی طرف راغب نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ ان تمام مسلم ممالک کو بھی مثبت پیغام نہیں دیا جاسکتا جو کم از کم مسلمانوں حفاظت کا دم بھرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اگر ہندوستان کے اندر مسلمانوں کو ان کا معاشی حق ادا کیا گیا تو یہ فیصلہ نہ صرف ملک کی معاشی نمو میں بہتری کاباعث بنے گا بلکہ وہ تمام ہندوستانی مسلمان بھی جو خوف کھائے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں ملکی معیشت میں شمولیت کی کوشش کریں گے اور پوری ایمانداری کے ساتھ صنعت و تجارت کے فروغ میں حصہ لیں گے۔