
اسلامی معیشت :موجودہ صورتحال
عفان احمد کامل
ڈائرکٹر
اربن بلڈکان سالوشنس پرائیویٹ لمیٹد
Recessionکے بعد اسلامی معیشت پر مباحث کا سلسلہ کافی زور پکڑ چکا ہے ،پچھلے ایک دہائی سے قبل اسلامی معیشت،اس کے اصول و ضوابط،اس کی قابلیت اور اس کے نفاذ کی شکلیں جیسے مباحث ایک خاص حلقے تک محدود تھے ۔Recession کے بعد فضا نہ صرف ہموار ہوئی بلکہ بحث ایک خاص حلقے سے نکل کر عام ہو چکی ہے ۔اب اسلامی بینکنگ ، اسلامی مالیاتی ادارے،اسلامی انویسٹمنٹ اور ان میں استعمال ہونے والی اصطلاحیں جیسے مرابحہ،مشارکہ وغیرہ بھی ایک عام پڑھے لکھے شخص کے لئے کوئی چونکانے والی یا حیرت انگیز بات نہیں رہی۔
اس سنہرے موقع کو ہمارے ملک میں معاشیات سے جڑے دانش وروں نے بخوبی استعمال کیا اور اپنی حد تک اسے پورے زور و شور سے فروغ دینے لگے ہیں۔ان کو ششوںکے نتیجے میں بہت سی ملکی اور بین الاقوامی کمپنیوں نے اس طرف توجہ دی اور اپنی دوسری مصنوعات میں اسلامی اصولوں کی بنیاد پر تیار کردہ مصنوعات ((Products بھی شامل کیا اور مزید اس سمت میں کو ششیں جاری ہیں،حکومت ہند کی توجہ بھی اس جانب مبذول ہوئی ،کئی کمیٹیاں بنائی گئیں(آنند سنہا کمیٹی،رگھو رام راجن کمیٹی)اور تقریباً ہر ایک کمپنی نے امید افزا رپورٹ پیش کی جس سے اس جانب کوشش کرنے والوں کو مزید تقویت ملی۔کئی مسلم انسٹی ٹیوشنس Muslim Institutionsنے اس سے متعلق ماہرمعاشیات کی مدد سے باضابطہ نصاب تیار کر وایا اور مسلم طالب علموں کو اس جانب متوجہ کیا۔روشن و تابناک مستقبل کی امیدیں دلائیں(مثلاً علی گڈھ مسلم یونیورسٹی،جامعہ شانتا پورم وغیرہ)مجموعاً یہ بات نکھر کر سامنے آئی کہ اب اسلامی فائنانس ایک دقیانوسی کہانی یا ماورائی حقیقت نہیں ہیبلکہ وجود میں آنے والی سچائی ہے جسے ہر عالم و جاہل ،ہر کامل و ناقص،ہر عاقل و غافل اور ہر مرد و عورت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔خواہ اس کا تعلق کسی مذہب و ملت اور کسی بھی خطہ ارض سے ہو۔
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور اسلامی معیشت بھی اسی مکمل نظام دیات کا حصہ ہے،جہاں پہلے صرف دین و سیاست کی بات اسلامی روشنی میں کی جاتی تھی اب دین،سیاست کے ساتھ معیشت کی بحث بھی اسی اسلامی روشنی میں اسی جذبے اور اخلاص کے ساتھ اور اسی احساس ثواب کے ساتھ کیا جائے گا۔انشاء اللہ اب کوئی عالم یا جاہل،مالیات کی بحث کو دنیا داری یا مال و دولت کی بحث نہیں سمجھے گا۔ایک عرصہ لگا دین کی بحث میں سیاست کو شامل کر نے میں ورنہ غیروں سے پہلے ہم نے سیاست کو دین سے جدا کر دیا تھا۔الحمد للہ اب صاحب علم کی اکثریت اسے بھی دین کا حصہ تصور کرتی ہے اور بلا جھجھک اس کا اظہار بھی کرتی ہے۔اسلامی معیشت کے تعلق سے موجودہ تبدیلی اور موجودہ کو شش اس بات کا اشارہ ہے کہ اب اسلامی معیشت بھی ہر حلقے میں اسی شعور ی نظر سے دیکھی اور سمجھی جائے گی۔
معاشیات کو محض ’’مال و دولت جمع کرنا‘‘سے جوڑ کر دیکھنے کا نظریہ ہی ملت کو ہمیشہ اس سے دور کرتا رہا ہے۔اگر اسلامی معاشیات کو مندرجہ ذیل باتوں سے جوڑ کر دیکھا جائے تو مسئلہ آسان سے آسان تر ہوجاتا ہے۔
..1حلال رزق اور حلال روزگار کے مواقع
..2 عبادات
اسلام کی بنیاد موٹے موٹے طور پر دو چیزوں پر ہے
..1ایمان
..2اعمال صالحہ (عبادات)
عمل کے صالح ہونے کی بنیاد ایمان کے بعد رزق حلال ہی ہے۔اس کے بغیر عالم بے عمل بے اثر ہوجاتا ہے اور جب کوئی عمل اپنا اثر کھو دیتی ہے تو پھر مطلوب نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔پھر پوری عمارت بے مکین ہوجاتی ہے۔ عبادات بے روح ہوجاتے ہیں،دولت بے برکت ہو جاتی ہے۔خوشنما الفاظ اپنے اثر کھو دیتے ہیں بظاہر با صلاحیت ملت کند اور بے وزن ہو کر رہ جاتی ہے ۔تحرریکات منجمد ہو جاتی ہیں،کمیٹیاں اور ان کے قرار داد محض اوراق کی زینت بن جاتے ہیں۔قرآن و حدیث کا تذکرہ بھی نعوذ باللہ محض پروگرام کو مزین کرنے وا لے زرق برق بن کر رہ جاتے ہیں۔
معاش کے حلال ہونے کا مسئلہ بہت ہی اہم اور نازک ہے آج اللہ کی نصرت شامل حال نہ ہو نے کا بہت بڑا سبب ہے حلال معاش اور حلال رزق کا نہ ہونا ،دوسری طرف بے روزگاری اور بھوک و فلاس کی ماراصل دین سے بڑھتی بے عملی و حقیقی دوری و بے زاری کی دوسری بڑی وجہ ہے حلال رزق اور حلال معاش کے مواقع پیدا کررنے کی طرف ہماری توجہ ہمہ جہتی ہونی چاہئے۔
اسلامی معیشت کے تعلق سے جو کوششیں ہو رہی ہیں سیمینار و سمپوزیم کی شکل میں ،شریعہ بورڈ کی شکل میں،مختلف تحریکات کی جانب سے باضابطہ تشکیل شدہ شعبہ جات کی شکل میں،وہ حوصلہ افزا بھی ہیں اور امید افزا بھی،موقع کا بر وقت استعمال بھی۔لیکن میں ان تمام لوگوں کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرانا چاہتا ہوں جو مخفی ہیں اور شاید جس جانب اتنی جلد بہت زیادہ توجہ دینا ممکن نہ تھا کیونکہ یہ خالص Implementationکی چیزیں ہیں جن کا انطباق عملی میدان میں ناگزیر ہے۔ملت اسلامیہ ہند کا خاص مزاج ہے اور یہ مزاج بڑا ہی خاص ہوجاتا ہے جب بحث دینی زمرے میں شامل ہوجائے۔ملت بحیثیت کلمہ تو ایک ہے مگر بحیثیت مسلک و قیادت مختلف ہے۔الحمد للہ پرسنل لاء کے معاملہ میں ملت متحد بھی ہے اور چوکنا بھی،دوسری طرف وحدانیت و یکسانیت کے تصور کے باوجود جغرافیائی اعتبار سے مزاج،پسند و ناپسنداور ترجیحات میں بھی مختلف ہے۔معاشی صورتحال ،دینی شعور و بیداری اور دنیا کو برتنے و پرکھنے کا شعور و انداز بھی مختلف علاقے کا مختلف ہے۔اور کسی بھی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے قبل زمینی حقیقت سے آگاہ ہو کر صحیح تجزیہ کے ذریعہ ہی اقدام کرنا چاہئے،جہاں اخلاص کے ساتھ ساتھ طریقہ کار کا درست ہونا بھی شرط ہے۔کیوں کہ یہ محض ایک فردکا ذاتی معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک نظام کے نفوذ کا معاملہ ہے ۔ملت جب اسے دین و شریعت کی چیز سمجھے گی تو اس کا رد عمل بھی اسی اعتبار سے ہوگااور اس کا حل بھی ان ہی کے ذریعہ تسلیم شدہ ہوگا جو ان کے درمیان تسلیم شدہ عالم باقاعدہ ہیں۔
اس را ہ میں مندرجہ ذیل کو ششیں کا ر آمد ہو سکتی ہیں
الحمد للہ ملت اسلامیہ ہند اس پر فتن دور میں بھی متحد ہے۔اور ’’مسلم پرسنل لاء بورڈ‘‘اس کا زندہ ثبوت ہے۔ اس تعلق سے ایک مضبوط کوشش ملت مییں بیداری کی ہے ،یہ اتنا سہل کام نہیں ہے لیکن ضروری ہے اور عمل جتنا بڑا ہوتا ہے جد و جہد اتنی زیادہ کرنی پڑتی ہے ۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نتائج خوش آئند و پائدار ہوتے ہیں۔اس جانب کوشش ہو رہی ہے لیکن مزید توجہ خاص کی ضرورت ہے بلکہ ’’مر کزی توجہ ‘‘کی ضرورت ہے۔بے شمار مشکلات جو اس راہ میں تجرباتی طور پر آرہے ہیں وہ حل ہو جائیں گے۔
بحیثیت مجموعی ملت فائنانس Financeکی دنیا سے بے خبر ہے معلوماتی اعتبار سے بھی اور تجرباتی اعتبار سے بھی،وجوہات کئی ہیں،مثلاً سودی نظام،مالی تنگی،محدود نظریہ معیشت اور سب سے بڑی وجہ بے وجہ کی آرام طلبی۔
پہلے اس ملت کو خواب غفلت سے جگانا ہوگا،آرام طلبی کی جگہ جفا کشی اور متحرک ہونے پر آمادہ کرنا ہوگا۔رزق حلال اور حلال معاش کے مواقع پیدا کرنے کی اہمیت و ضرورت سمجھانی ہوگی۔پھر اس کے بعد معاشی نظام اور اس کے مصنوعات کی تکنیکی باریکیاں بتانی ہوں گی۔اس کام مییں اگر تمام مکتبہ فکر کے علماء و دانشور کا گروہ شامل نہیں رہا تو یہ کام مزید مشکل اور حوصلہ شکن ہو جائے گا،یہ تجرباتی حقیقت ہے جس کا اندازہ صرف ان لوگوں کو ہے جو باضابطہ میدان عمل اور میدان نفاذمیں مصنوعات کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ میدان عمل اور میدان مطالعہ و بحث دو مختلف چیزیں ہیں۔مردم شناس ہونے کے لئے افراد کو عملی طور پر پرکھنا ہوتا ہے محض تحریر و تقریر اور کانفرنسوں یا Public Meetingسے اصیلت واضح نہیں ہوتی ہے،اس کی مثالیں موجود ہیں،اور اس کا خمیازہ بھی لوگوں نے اور کمپنیوں نے بھگتا ہے۔اور جب حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں امیدیں مبہم ہو جاتی ہیں تو لوگ بد ظنی و مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔پھر نہ سیمینار ہی کام آتی ہیں نہ سمپوزیم اثر انداز ہوتا ہے اور نہ مقالات حوصلے کو جلا دیتے ہیں۔دوسری طرف ’’بہتی گنگا میں ہر شخص ہاتھ دھونا چاہتا ہے‘‘کے مصداق مختلف کمپنیاں بھی ان مواقع کو استعمال کرنے کی کو شش کریں گی بلکہ کر بھی رہی ہیں۔(وہ الگ بات ہے کہ غلط منصوبہ اور فکر کی وجہ کر اوندھے منھ گری بھی ہیں)ایسے وقت میں ایک بہت ہی شفاف اور مر کزی نگراں کی ضرورت پڑتی ہے جس کے لئے واپس اسی بورڈ کی طرف رجوع کرنا ہوگا جو پوری ملت کی نظر میں واحد اور معتبر تسلیم کی جاتی ہے۔ایک شریعہ بورڈ ہو اور وہ مسلم مسلم پرسنل لاء بورڈ کی منظور شدہ یا تسلیم شدہ ہو۔نہیں تو فرد یا کمپنی خود اپنی شریعہ بورڈ تشکیل دیں گی اور اپنے من پسند مصنوعات کو شریعت پسند Sharia Compliantبتا کر ملت میں فروخت کرنے کی کوشش کریں گی۔یہ بات صحیح ہے کہ اس سے ’’اصل‘‘کی حقیقت میںکمی واقع نہیں ہو گی اور’’ نقل‘‘جلد ہی منظر عام پر آئے گا اتنا ہی زیادہ ’’اصل‘‘ نکھر تا بھی جائے گا لیکن مقصد فوت ہو جائے گا۔مقصد معاشی مسئلہ کا حل ہے نہ کہ محض مسئلہ کو واضح کرنے کا ۔
ملت اسلامیہ ہند بہت حساس واقع ہوئی ہے ایک دفعہ’’ شریعہ‘‘لفظ بدنام ہوگیا تو دوبارہ اعتماد بحال کرنا اور اس تعلق سے بیداری کی باتیں کرنا بہت ہی مشکل اور صبر آزما ہوگا ۔اس بات کا بھی اندازہ ان لوگوں کو زیادہ ہوگا جو عملی طور پر ان مشکلات سے گزر رہے ہیں اور نت نئے تجربات سے واسطہ پڑ ررہا ہے ان کالی بھیڑوں کو روکنے کے لئے بھی ہمیں اپنی کوشش جاری رکھنی پڑے گی۔یہ باتیں میں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ لوگ ہمت ہار جائیں گے بلکہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ خود کو مزید آلات سے لیس کرنا ہوگا تاکہ جد و جہد کسی اعتبار سے ناقص نہ رہنے پائے اور ہمیں یہ افسوس نہ ہو کہ ہم نے اس پہلو سے تدبیریں کیوں نہ کیں۔جد و جہد کی راہیں اور مقصد کی طلب میں مزاحم حوصلے پست نہیں کرتے بلکہ مزید بلند اور مضبوط کرتے ہیں۔
یہ دور فتنوں سے بھرا دور ہے اللہ کے رسول ﷺ نے اس دور کے دو فتنوں کا تذکرہ کیا ہے ۔پہلا ’’عورت ‘‘دوسرا ’’مال‘‘ یہ فتنہ تب ہے جب انسان ان چیزوں کو مقصد حیات بنا بیٹھتا ہے اس وقت پوری دنیا ان دو نقطوں کے گرد گھوم رہی ہے۔کہیں مال فتنے کی وجہ ہے کہیں عورت کی وجہ کر فتنہ ہے کہیں انسان مال کا طواف کر رہا ہے تو کہیں عورت کی گردش کر رہا ہے۔مقصد بتانا یہ ہے کہ پورا Corporate Worldجو اس وقت حاوی ہے وہ ان دونوں فتنوں میں پوری طرح مبتلا ہے۔خال خال لوگ ہی محفوظ ہیں یہاں اخلاقی اقدار کی کوئی قیمت نہیں ہے یہاں قول و عمل کا تضاد روز کا معمول ہے ۔یہاں تصور حیات صرف اور صرف اپنی ترقی ہے اور ’’ھل من مزید‘‘ کی رٹ ہے۔ایسے وقت میں ہماری ذمے داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں اور راہیں مزید صبر آزما ہو جاتی ہیں ۔دو صورتیں ہیں
(۱)یا تو قطع تعلق کرلیا جائے،اس سمت آگے ہی نہ بڑھا جائے۔اور
(۲)دوسری صورت یہ ہے کہ داعی کا کردار ادا کیا جائے۔
پہلی صورت ایک عام ،کمزور و مفلوج شخص کی ہے ،جس نے ہمت ہار دی ہے اور خود کو حالات کے حوالے کر دیا ہے۔وقت کے فتنے جس طرف لے جائیں اس رخ پر بغیر حرکت ساکت پڑا رہے ۔دوسری صورت پر عزم با حوصلہ اور ایک ایسے مجاہد کی ہے جو اللہ کی اس زمین پر اللہ کے بندوں کو شیطانی قوتوں کے نرغوں سے آزاد کرانے کی جد و جہد کر رہا ہے۔ایک وہ شخص جو پوری ملت کے لئے فکر مند ہو کبھی خاموش نہیں بیٹھ سکتا ہے۔اس کا ایمان اسے تماشائی کر دار ادا کرنے نہیں دے گا۔جس شخص کو حلال معیشت کی اہمیت کا اندازہ ہے اس تعلق سے قر آن و احادیث میں موجود ہدا یات و احکامات ،بشارتیں و وعیدیں اس کی نظر سے گذری ہیں وہ تو خاموش تماشائی نہیں بن سکتا ہے۔حرام کمائی کے ایک لقمہ کے تعلق سے آتا ہے کہ اس کی وجہ کر چالیس دن تک کی کوئی عبادت قبول نہیں ہو گی۔مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا،اس تعلق سے اللہ سوال کرے گا ،انسان کا مقصد وجود عبادت ہے۔’’وما خلقت الجن والانس الاً لیعبدون‘‘ یہ قرآن بتاتا ہے۔اور رزق کے حرام ہونے کی وجہ کر عبادت قبول نہیں ہو پاتے۔حلال معیشت کی ترغیب دینا تو عبادت کی روح ہے جس طرح نماز بغیر وضوکے نہیں اسی طرح عبادت بغیر رزق حلال کے نہیں ،یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا اہم فریضہ ہے۔
آج ملت اسلامیہ جن صورتحال سے دو چار ہے وہ
ناگفتہ بہ ہے اس کی سب سے بڑی وجہ حلال و حرام کی تمیز کا فقدان ہے۔آج وقت کے سب سے اہم مقرر،محرر،خطیب،مدرس،معلم،حکیم موجود ہونے کے باوجود ملت مسائل سے گھری ہوئی ہے ،انداز خوبصورت ہے مگر بے اثر ہے مقاصد نظرسے اوجھل ہو چکے ہیں اور ذرائع مقاصد بن گئے ہیں خوبصورت جسم باقی ہے روح مومن فنا ہو چکی ہے۔وجوہات جو بھی ہوں لیکن معاف کریں گے کیا عام کیا خواص ،یہاں تو داعیانہ کردار ادا کرنے والوں نے بھی اس فکر کو بالائے طاق رکھ چھوڑا ہے۔دوڑتی بھاگتی دنیا اور اس کے چکا چوندھ نے ان سے بھی صبر اور عزیمت کا دامن چھین لیا ہے۔بعض لوگوں کو یہ اعتراض رہتا ہے کہ یہ کام بغیر پورے سسٹم کے اور نظام کے ممکن نہیں ہے،جب تک پورا نظام اسلامی نہیں ہو جاتا تب تک یہ کام انجام نہیں پا سکتاہے۔معاف کریں گے ،چھوٹی منھ بڑی بات ہوگی مگر کہنا تو پڑے گاپھر تو ایک سورت یہ بنتی ہے کہ اس نظام کا نتظار کیا جائے ’’خلافت علی منہاج النبوہ‘‘قائم ہوگی پھر بقیہ کام کیا جائے گا۔سوال یہ ہے پھر معیشت ہی کیوں ؟ بقیہ عبادات کے تعلق سے بھی یہی سوال پیدا ہوگا کہ تعمیر خلافت اور بغیر خلیفہ کے یہ عبادات قبول ہوں گے یا نہیں؟امامت و خلافت بھی تو مشروط ہے۔ایسی صورت میں کیا کریں ؟دوسری صورت یہ ہے کہ اللہ کے کام کو اپنے سپرد نہ کیا لیا جائے،ہم سے باز پرس ا س کی ہوگی جس کے ہم مکلف ہیں جس کی ہم کوشش کر سکتے ہیں،اور تبدیلی یکبارگیرونما نہیں ہو تی ہے۔اس کے لئے مستقل جد و جہد کی ضرورت پڑتی ہے اور موجودہ نظام میں رچنے بسنے کے بجائے اپنی حد تک دینی شعور کے مطابق راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے یہی ایک داعی کا کام ہے پوری ملت کو مفلوک الحال سور سودی نظام کی غلاظت میں چھوڑ کر بے دینی کی طرف ترغیب دینا تقوی کی علامت نہیں ہے اور نہ ہی ایمان کا تقاضہ ،داعی کو اپنی سکت بھر ان کو آگاہ کرنا ہوگا اور متبادل پیش کرنا ہوگا۔
ملت اسلامیہ ہند کی ابھی کیا صورتحال ہے ہر ذی شعور واقف ہے۔معاشی تنگی بہت بڑی وجہ ہے بے دینی اور جاہلیت کی ،جب تک اس مسئلہ کی طرف بھر پور توجہ نہیں دی جائے گی آپ لاکھ کوشش کر لیں مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو تا جائے گا۔انسان کو اچھی باتیں بھی تبھی بھلی لگتی ہیں جب اس کا شکم بھرا ہوتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے یہودیوں نے اپنے پروٹو کول میں یہ بات روز اول سے نقل کر رکھی ہے کہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے دوکام کرنے ہیں ۔پہلا قرآن سے دور دوسرا شکم میں لات(افلاس کا اشکار)ابھی بھی ہندوستا ن کے تناظر میں بھی جو دقتیں تجرباتی طور پر اور بڑے Levelپر پیش آرہی ہیں وہ انہی ذہنوں اور ان جیسے لوگوں (مثلا ًگجراتی،سندھی،مارواڑی)کی طرف سے پیدا کی جا رہی ہیںان کی دلی خواہش ہے اور عملی کوشش بھی کہ مسلمانوں کو عملی طور پر اس Financeکی دنیا سے دور رکھا جائے۔
یہ کام بہت بڑا ہے اور صبر آزما بھی ۔اس کام سے انشاء اللہ بہت سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور اللہ نئی راہیں بھی دکھائے گا۔ضرورت اخلاص کے ساتھ عبادات سمجھ کر داعیانہ کر دار ادا کرنے کی ہے ہمارا کا م ہے پوری تیاری کے ساتھ مستقل جد و جہد کرنا ،ہم اسی کے مکلف ہیں اللہ ہمارے اندر اخلاص کے ساتھ صحیح سمت میں کوشش کرنے کی توفیق عطا کرے۔آمین