کیا سود کے لین دین سے ملکی جی ڈی پی کو نقصان پہنچ رہا ہے

سید زاہد احمدعلیگ ، ممبئی۔ 9869814113

GDP urduیوں تو کرنسی( روپیہ پیسہ) براہ راست انسانی ضروریات کو پورا نہیں کرتی ، مگر ان سے انسانی ضروریات کے لئے اشیاء اور خدمات کی خریداری ممکن ہونے کی وجہ سے معیشت میں کرنسی کی بڑی قدر ہوتی ہے اور ہر انسان اسے زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا اور مستقبل کے لئے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ چوں کہ آج پہلے کے مقابلے کرنسی کی قیمت میں تیزی سے گراوٹ آ رہی ہے، اس لئے آج کے انسان کو پہلے کے مقابلے زیادہ روپیہ کمانے کی ضرورت پڑ رہی ہے، پھر بھی اس کی ضروریات پوری نہیں ہو پا رہی ہیں۔ آخر کرنسی کی قیمت کیوں کم ہوتی جا رہی ہے اور کیا اس پر قابو پانا کسی طرح ممکن ہے ؟
آج سے تیس سال قبل بازار میں پانچ، دس یا بیس پیسہ کے سکے بھی رائج تھے اور لوگ ایک دو روپیہ کا نوٹ بھی جیب میں رکھتے تھے، مگر آج بازار میں نہ پانچ ،دس یا بیس پیسے کے سکے چلتے ہیں اور نہ کسی کے جیب میں ایک دو روپیہ کا نوٹ نظر آئیگا۔ شاید آنے والے وقت میں بچوں کو یقین بھی نہ ہو کہ ایک اور دو پیسہ کے بھی سکے بازار میں رائج تھے۔ دس یا بیس پیسے کے سکوں کی جگہ اب ایک یا دو روپیہ کے سکے چلتے ہیں اور جس چیز کے لئے پہلے آٹھ آنہ خرچ کرنے پڑتے تھے اب پانچ روپیہ کا سکہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ سوروپیہ کا نوٹ تو اس طرح خرچ ہوتاہے ،جیسے سو کا نہیں بلکہ دس روپیہ کا نوٹ ہو۔ اس طرح تو ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں لوگوں کی جیبوںمیں ہزار روپیہ سے کم کا کوئی نوٹ نظر نہ آئے اور بازار میں دس ہزار سے لاکھ کے نوٹ رائج ہو جائیں۔ آخر کتنی بڑی رقم کے نوٹ بازار میں چلیں گے ؟ کیا اس کی کوئی انتہا ہے؟
آخر زیادہ روپیہ کمانے کی ہوس مہنگائی بڑھا رہی ہے یا پھر بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے کرنسی کی قیمت کم ہورہی ہے اور انسان کو زیادہ روپیہ کمانے کی ضرورت پڑتی ہے؟ ایک زمانہ تھا جب کرنسی نہیں تھی اور لوگ سامان یا خدمات کے بدلے سامان یا خدمات لیتے دیتے تھے۔ پھر زمانہ نے ترقی کی اور کرنسی کا ایجاد کیا۔ مختلف ملکوں نے مختلف کرنسی نکالی اور اپنی کرنسی کی حفاظت کے لئے ہر ملک نے ادارے اور نظم قائم کئے۔ ہندستان میں بھی انگریزی حکومت نے 1934 میں اس کام کے لئے ریزرو بینک آف انڈیا یعنی کہ آر بی آئی (RBI) قائم کیا۔ آر بی آئی کی ذمہ داری تھی کہ ملک میں جتنی رقم کی ضرورت ہو انتی رقم چھاپے۔ اب یہ کیسے طے ہوتا کہ ملک میں کتنی رقم کی ضرورت ہے؟ تو اس کے لئے ملک کی آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ لگایا جاتا رہا ہے۔
ملک کی آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ لگانے کے لئے سرکارملک میں پیدا کی گئی کل اشیاء اور خدمات کی بازار قیمت اور لاگت خرچ کا اندازہ لگاتی ہے۔ اس تخمینہ کو گروس ڈومیسٹک پروڈکٹس (Gross Domestic Products ) یا جی ڈی پی (GDP) کہتے ہیں۔ عام زبان میں اسے ملک میں اشیاء یا خدمات کی کل پیداوار بھی کہا جا سکتا ہے۔ جی ڈی پی کا اندازہ دو طریقہ سے لگایا جاتا ہے۔ ایک طریقہ ہے پیدا کی گئی کل اشیاء اور خدمات پر آنے والی لاگت کا اندازہ لگانا ، جسے لاگت خرچ پر جی ڈی پی (GDP at Factor Costs) کہتے ہیں۔ دوسرا طریقہ ہے لاگت خرچ پر جی ڈی پی میں بالواسطہ ٹیکس (جیسے سیل ٹیکس) کو جوڑکر سب سیڈیز (حکومت کی جانب سے مختلف اسکیموں کے تحت دی جانے والی رعایات) کو گھٹانا، اس تخمینہ کو بازار قیمت پر جی ڈی پی (GDP at Market Prices)کہتے ہیں۔ بازار میں چوں کہ مہنگائی کی وجہ سے مختلف اوقات میں آمدنی اور اخراجات کے تخمینہ میں فرق پایا جاتا ہے اس لئے مختلف اوقات کے آمدنی اور اخراجات کا اندازہ رائج بازار قیمت( at Current Prices)کے علاوہ کسی مخصوص سال کی بازار قیمت(at Constant Prices) پر بھی لگایا جاتا ہے تاکہ مختلف اوقات کے تخمینہ کا تقابلی جائزہ بھی لیا جا سکے۔ اور اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا کہ ایک سال یا کسی خاص مدت کے درمیان آمدنی یا اخراجات میں کتنا اضافہ ہوا اور کتنی مہنگائی بڑھی ہے۔

note

بازار قیمت پرجی ڈی پی کا تخمینہ لاگت خرچ پر آنکی گئی جی ڈی پی سے زیادہ ہوتا ہے۔ چوں کہ سرکار لاگت خرچ پرجی ڈی پی پر بالواسطہ ٹیکس لگانے کے علاوہ سب سیڈیز بھی دیتی ہے، اس لئے لاگت خرچ پر جی ڈی پی میں بالواسطہ ٹیکس کو جوڑنے کے بعد سب سیڈیز کو گھٹانے سے بازار قیمت پر جی ڈی پی کا تخمینہ لاگت خرچ پر جی ڈی پی سے زیادہ ہوجاتا ہے۔ خیال رہے کہ ملک میں رہنے والوں کی کل آمدنی لاگت خرچ پر جی ڈی پی سے آتی ہے، جو بازار میں فروخت ہونے والی کل اشیاء اور خدمات سے کم ہوتی ہے، اس لئے کبھی بھی پیدا کی گئی کل اشیاء یا خدمات فروخت نہیں ہوتی اور بازار میں ان کا کچھ اسٹاک باقی رہتا ہے۔
معیشت میں بازار قیمت پر آنکی گئی جی ڈی پی کے تخمینہ کے بعد بھی اشیاء اور خدمات کی بازار قیمت میں اضافہ کی دو اور وجہیں ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کل پیداوار کو بازار میں فروخت ہونے سے روک لیا جائے تاکہ بازار میں قلت ہو اور لوگ زیادہ قیمت پر اشیاء یا خدمات کو خریدنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ جیسا کہ تیل کی سپلائی کم کر کے تیل کی قیمت بڑھائی جاتی ہے، یا کھانے پینے کی اشیاء کو گوداموں میں روک کر بازار میں قلت برپا کر کے قیمت بڑھائی جاتی ہے۔ آج کل کھانے کی چیزوں کے دام اس لئے بھی بڑھ رہے ہیں کہ سرکار پہلے سے زیادہ بازار قیمت طے کرتی ہے اور کل پیداوار کو بازار میں فروخت کرنے کی بجائے گودام میںبھرتی ہے اور قلت دیکھ کر بازار میں اشیاء مہیا کراتی ہے ۔ جس کی وجہ سے مستقل طور پر بازار میں قلت محسوس کی جاتی ہے اور کھانے کی چیزوں کے دام بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
بازار میں قیمت کے بڑھنے کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ ملک میں کام کرنے والوں کو لاگت خرچ میں آنکی گئی جی ڈی پی کی شکل میں جتنی آمدنی ملتی ہے اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی آمدنی آ جائے جس سے ان میں زیادہ قیمت پر اشیاء یا خدمات کو خریدنے کی سکت پیدا ہو جائے ، جس کے بعد لوگ زیادہ قیمت پر پیداوار کو خریدنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ اسے بازار میں لیکویڈیٹی (liquidity)کا بڑھ جانا کہا جاتا ہے اور آر بی آئی اسی لیکویڈیٹی کو قابو میں رکھنے کے لئے بینکوں میں سود کی شرح بڑھا دیتی ہے تاکہ لوگ بڑھی ہوئی آمدنی کو خرچ کرنے کے بجائے بینکوں میں جمع کرا کر سود حاصل کرنا پسند کریں ۔ اور بڑھی ہوئی آمدنی کی وجہ سے بازار میں اشیاء اور خدمات کی مانگ اور رسد میں توازن بنایا جا سکے۔ آر بی آئی کے ذریعہ چلایا جانے والا یہ حربہ کتنا خطرناک ہے اس کا اندازہ نہ آر بی آئی کو ہے ، نہ سرکار کو ہے اور نہ عوام کو۔ اسی لئے سالوں سے بازار میں بڑھتی قیمت پر لگام لگانے کے لئے آر بی آئی سود کے شرح کو کم یا زیادہ کرتی رہی ہے۔ مگر اب تک کسی رپورٹ نے یہ نہیں بتایا کہ سود کس طرح معیشت کے لئے لعنت بنتی جا رہی ہے اور کس طرح سود کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اور کرنسی کی قیمت کم ہوتی جا رہی ہے۔ لاگت خرچ پر آنکی گئی جی ڈی پی کےذریعہ ملک میں کام کرنے والوں کی کل آمدنی کو بڑھانے میں بینکوں سے حاصل ہونے والی سود کا کتنا دخل ہے ، اس کا اندازہ لگانے پر کوئی بھی یہی کہے گا کہ معیشت میں مہنگائی اور کرنسی کی قیمت میں گراوٹ کی بنیادی وجہ بینکوں سے حاصل ہونے والا سود ہے۔
ملک میں بینکوں کی نگرانی اور مہنگائی پر لگام لگانے کی ذمہ داری ضرور آر بی آئی پر ہے مگر بینکوں کو بینکنگ ایکٹ 1949 کا پابند کیا گیا ہے اور نہ آر بی آئی اس ایکٹ کی مخالفت کر سکتی ہے اور نہ کوئی دوسری بینک۔ اس ایکٹ کے مطابق ملک میں کوئی غیر سودی بینک نہیں چلائی جا سکتی اور ہر بینک کو فکس ڈپازٹ میں جمع شدہ رقم پر سود کی شرح مقرر کرنی ہوتی ہے، اس کے علاوہ ہر قرضے ہر سود وصول کرنا ہے۔ چاہ کر بھی کوئی بینک کسی کو غیر سودی قرض نہیں دے سکتی۔ 1950-51 سے لیکر 2008-09 تک ہندستان کی بینکوں نے فکس ڈپازٹس کی رقم پر کتنا سود دیا اور کل قرضہ جات پر کتنا سود وصول کیا اس کا اندازہ لگایا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ کس طرح سود کی وجہ سے ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے اور کرنسی کی قیمت گر رہی ہے۔ فکس ڈپازٹس پر ملنے والا سود چونکہ جی ڈی پی سے ملنے والی آمدنی کے علاوہ ہوتا ہے اس لئے ملک کے خریداروں کی آمدنی بڑھ جاتی ہے۔ یہ زیادتی ہی معیشت میں مہنگائی کے بڑھنے اور کرنسی کی قیمت میں کمی کی اصل وجہ ہے۔ آر بی آئی بھی بینکوں کو سود لینے دینے سے نہیں روک سکتی۔ آر بی آئی توصرف مہنگائی کے شرح کو ایک حد میں رکھنے کے لئے سود کی شرح کو اوپر نیچے کر سکتی ہے۔ مگر جب تک بینک میں جمع رقم پر سود دیا جاتا رہے گا، اور قرضہ جات پر سود لیا جاتا رہیگا، تب تک نہ معیشت میں مہنگائی ختم ہوگی اور نہ کرنسی کی قیمت میں گراوٹ کا سلسلہ تھمے گا۔ آر بی آئی جو خود کرنسی چھاپتی ہے ، اپنی کرنسی کی قیمت میں گراوٹ کو نہیں روک سکتی تو مہنگائی کیا روکے گی؟ اب بینکوں کا سود کس طرح ہماری معاشی زندگی کو برباد کر رہا ہے ، ذرا اس کا بھی اندازہ کر لیتے ہیں۔
1950-51 سے لیکر 2008-09 تک 59 سالوں میں بینکوں کے ذریعہ فیکس ڈپازٹس پر دی گئی سود کی رقم 16,48,822 کروڑ روپیہ ہے جو 2008-09 کے کل فیکس ڈپازٹس کا 47 فیصد ہے۔ اس طرح ان سالوں میں بینکوں کے ذریعہ دئے گئے کل قرضہ جات پر وصول کی گئی کل سود کی رقم 18,43,154 کروڑ روپیہ رہی جو 2008-09 میں کل قرضہ جات کا 66.41 فیصد ہے۔ ان دونوں سود کی رقومات کو ملا دیا جائے تو 34,91,976 کروڑ روپیہ ہوتے ہیں جو 2008-09 میںملک کی کل مالیات کا 73.3 فیصد اور بازار قیمت پر آنکی گئی جی ڈی پی کا 65.62 فیصد، جبکہ لاگت خرچ پر آنکی گئی جی ڈی پی کا 70.79 فیصد ہے۔ شروع میں سود کی وجہ سے ہونے والے اثرات کم تھے مگر وقت کے ساتھ اس کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان 59 سالوں کے دوران بینکوں کے ذریعہ دئے گئے اور وصول کئے گئے کل سود کی رقم 2008-09 کے بازار قیمت پر آنکی گئے ملک کی جی ڈی پی کا اگر 65.61 فیصد ہو چکا ہے توجو 1950-51 کی کل جی ڈی پی کا 346 گنا رقم ہے۔
1950-51 میں بینکوں کے ذریعہ فیکس ڈپازٹس پر دی گئی سود کی رقم ملک کی جی ڈی پی کا صرف 0.2 فیصد تھی جو 2008-09 میں بڑھکر 5.69 فیصد ہو چکی ہے۔ اسی طرح فیکس ڈپازٹس پر دی گئی سود اور قرضہ جات پر وصول کی گئی سود کی کل رقم 1950-51 میں ملک کی جی ڈی پی کا صرف 0.6 فیصد تھی جو 2008-09 میں بڑھکر 12.16 فیصد ہو چکی ہے۔ 1950-51 میںملک میںفیکس ڈپازٹس پر دی گئی کل سود اور قرضہ جات پر وصولی گئی کل سود کی رقم معیشت میں کل مالیات کا صرف 2.47 فیصد تھی جو 2008-09 میں بڑھکر 12.60 فیصد ہو چکا ہے۔ اگر صرف فیکس ڈپازٹس پر دی گئی سود کی رقم کا معیشت میں کل مالیات کے اسٹاک میں حصہ داری دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ 1950-51 میں فیکس ڈپازٹس پر دی گئی کل سود کی رقم اس وقت معیشت کے کل مالیات کا 0.84 فیصد تھا جو 2008-09 میں بڑھکر 5.90 فیصد ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ معیشت میں سالانہ مہنگائی کم از کم 5.9 فیصد تو بڑھیگی ہی کیوں کہ فیکس ڈپازٹس پر دی جانے والی سود کی رقم کسی بھی طرح لاگت خرچ پر آنگی گئی جی ڈی پی کے علاوہ ہوتی ہے جو بازار میں اشیاء یا خدمات کے فروخت ہونے سے پہلے کھاتہ داروں کی آمدنی کو بڑھاتی ہے جس سے بازار قیمت کم از کم 5.9 فیصد زیادہ ہوگی۔ اب اگر معیشت کو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کرنسی کی گرتی قیمت سے کوئی بچانا چاہتا ہے تو سرکار سے در خواست کرے کہ بینکوں کو اس بات کی اجازت دے کہ وہ غیر سودی طرز پر بھی بینک کاری کر سکیں جس سے کہ معیشت کو سود کی لعنت سے بچایا جا سکے۔ بازار میں قیمتیں مستحکم رہ سکیں اور کرنسی کی قیمتوں میں مزید گراوٹ نہ ہو۔
صرف سرکار کی آمد و رسد کی پالیسیوں پر غور کرنے سے مہنگائی نہیں تھمنے والی اور نہ آر بی آئی کے ذریعہ سود کے شرح کو اوپر نیچے کرنے سے مہنگائی پر لگام لگایا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آر بی آئی بھی مان کر چلتی ہے کہ معیشت میں مہنگائی رہیگی، صرف اسے ایک حد تک رکھنے کی نیت سے سود کی شرح کم یا زیادہ کی جاتی ہے۔ اگر سرکار یا آر بی آئی معیشت سے مہنگائی کو ختم کرنا ہی نہیں چاہتی ہے، تو مہنگائی کیسے ختم ہو سکتی ہے۔ جس دن سرکار یا آر بی آئی یہ چاہیگی کہ اب معیشت کو گرانی سے بچانا ہے اور کرنسی کی گرتی ہوئی قیمت پر لگام لگانی ہے، اسے غیر سودی بینکنگ شروع کرنی ہوگی، جس کے بعد بینکوں مین جمع شدہ رقم پر سود نہیں دیا جائیگا۔ اگر کسی کو اپنی بچت کے رقم کو بڑھانا ہوگا تو اسے شرکت اور مضاربت کے اصول پر کاروباری جوکھم کے ساتھ سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ جو لوگ اس جوکھم کو نہیں اٹھا سکیںگے ان کو کرنٹ یا غیر سودی جمع کھاتوں مین رقم رکھنی ہوگی جہاں ان کی جمع شدہ رقم نہ کھٹیگی اور نہ بڑھیگی۔ اس کے بعد ہی کرنسی کی گرتی قیمت یا بڑھتی مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اب عوام طے کرے کہ اسے بینکوں میں جمع شدہ رقومات پر سود چاہئے یا معیشت کو مہنگائی اور کرنسی کی گرتی قیمت سے بچانا منظور ہے۔ سرکار عوام کی ہے اور عوام کی رائے سے جمہوری معیشت چلے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *