مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آبادمیں اسلامی مالیات و فروغ تجارت پر خطاب

حیدر آباد(معیشت ):’’ اسلامی معیشت روز بروز ترقی کی منزلیں طے کرتی جا رہی ہے جبکہ اسلامی بینکنگ کی غیر مسلم ممالک میں پذیرائی ہو رہی ہے۔اسلامک انشورنس یا تکافل پر کمپنیوں کے ساتھ اب حکومتیں بھی توجہ دے رہی ہیں اوراسلامک انشورنس کے ادارے قائم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ملیشیا میں اسلامک انشورنس پر زور و شور سے کام ہورہا ہے جبکہ غیر مسلم کمپنیاں اسلامک انشورنس سے استفادہ کر رہی ہیں‘‘۔ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر عبد الصمد محمد،اسسٹنٹ پروفیسر سلمان بن عبد العزیز یونیورسٹی،سعودی عربیہ نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ،حیدر آباد میں منیجمنٹ اور کامرس کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ ’’معاشی مندی کے بعد پوری دنیا ایک ایسے نظام کی تلاش میں مصروف ہے جو انہیں سکون عطا کرسکے اور الحمد للہ انہیں اسلامی معیشت میں وہ باتیں نظر آئی ہیں جس کے پیش نظر اسلامی مالیات پر پوری دنیا میں ریسرچ ہو رہا ہے اور اس ضمن میں ادارے قائم کئے جارہے ہیں۔‘‘انہوں نے پاورپوائنٹ پرزنٹیشن کے ذریعہ منیجمنٹ اور فائنانس کے طلبہ کو باور کرایا کہ’’ اگر وہ موجودہ دنیا میں اسلامک فائناس کی طرف توجہ دیتے ہیں اور اس باب میں اپنی صلاحیتیں لگاتے ہیں تو یقیناً انہیں بہتر نتائج ملیں گے۔‘‘

بین الاقوامی معیشت کے ایڈیٹر اور معیشت میڈیاگروپ کے منیجنگ ڈائرکٹر دانش ریاض نے طلبہ و طالبات کو خطاب کرتے ہوئے جہاں ذاتی تجارت میں دلچسپی لینے کی تلقین کی وہیں موجودہ ماحول میں اپنی تجارت کے فوائد کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے طلبہ تعلیم کی تکمیل سے قبل ہی ملازمت اورنوکری کی تلاش شروع کردیتے ہیں انہیں وہ ادارے اچھے لگتے ہیں جہاں سے بآسانی پلیسمنٹ ہوجائے۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ وہ اپنی تجارت کو فروغ دینے کے گُر زمانہ طالب علمی سے ہی سیکھیں اور یہ مزاج بنائیں کہ انشاء اللہ وہ ملازمت لینے والے نہیں ملازمت دینے والے بنیں گے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’جب آپ کا مزاج یہ بن جائے کہ آپ نوکری نہیں ،نوکر کی تلاش کریں گے تو یقین جانیں زندگی کا پورا نقشہ ہی بدل جائے گااور آپ کے جینے،رہنے سہنے،بات چیت کرنےمیںنمایاںتبدیلی رونما ہوگی۔‘‘دانش ریاض نے رزق حلال کمانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے سماج میں منفی مزاج رچ بس گیا ہے۔ہم دوسروں کے پروڈکٹ کا بائیکاٹ کرنے کی بات تو کرتے ہیں لیکن اپنا پروڈکٹ مارکیٹ میں پیش نہیں کرتے۔حالانکہ ہمارے طلبہ و نوجوانوں کے اندر ایسی صلاحیتیں ہیں کہ وہ بہتر سے بہتر پروڈکٹ پیش کر سکیں لیکن کوئی ان کی رہنمائی کرے والا نہیں ہے لہذا وہ جہاں چاہتے ہیں ملازمت کرتے ہیں اور اپنی صلاحیتیں چند روپیوں کے عوض گروی رکھ دیتے ہیں ایسے میں نہ تو وہ حلال و حرام کی تمیز کر پاتے ہیں اور نہ ہی اس بارے میں کچھ سوچ پاتے ہیں لہذا میںیہ چاہتا ہوں کہ ہمارے طلبہ جب کبھی بھی کسی کے یہاں ملازمت کریں تو وہ اس بات کا ضرور جائزہ لے لیں کہ ان کا کاروبار حلال ہے یا نہیں۔‘‘
مولانا آزاد نیشنل اردویونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر (مالیہ) ڈاکٹر خواجہ صفی الدین نے اس موقع پر مہمانوں کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے ادارے کی کوشش یہ رہتی ہے کہ ہر فیلڈ کے ماہرین کو یہاں جمع کیا جائے اور ان سے استفادہ کیا جائے الحمد للہ یہ سلسلہ جاری ہے اور آئندہ بھی ہم اس سلسلے میں کوشش کرتے رہیں گے۔