’’ابھی بنگال میں لیدر صنعت کی حالت بہتر نہیں ہے‘‘

Tripple'sکے مالک توفیق احمد
Tripple’sکے مالک توفیق احمد

کلکتہ کا مقامی برانڈTripple’sکے مالک توفیق احمد لیدر انڈسٹری میں بازی گر سمجھے جاتے تھے۔۸۰کی دہائی میں انہوں نے کلکتہ میں شہرت و دولت بھی کمائی لیکن اب کاروبار معیشت کو محض گھسیٹنے پر مجبور ہیں۔معیشت کے ایڈیٹر دانش ریاض سے ہوئی گفتگو میں وہ معاشی عروج و زوال کی داستان بیان کرتے ہیں۔پیش ہیں اہم اقتباسات

ایک زمانہ تھا جب کولکاتہ کے تاتی بگان میں لیدر انڈسٹری عروج کی نئی بلندیاں طے کررہا تھا۔ قدم قدم پر جوتا ،چپل کے کارخانے تھے،جبکہ آس پاس ہی لیدر مٹیریل بھی فروخت ہوتا تھا۔والدین کے ساتھ چار بھائی اور دو بہن پر مشتمل توفیق احمد کا گھرانہ پھول بگان کے ایک چھوٹے سے مکان میں قیام پذیر تھا۔گھر کے حالات بہت اچھے نہیں تھےجبکہ داداجان کا کارخانہ بھی بند پڑا رہتا تھا،کسمپرسی کی زندگی میں توفیق احمد نے درجہ ہفتم تک کا سفر تو طے کر لیا لیکن آگے کی تعلیم اب خواب معلوم ہونے لگی تھی۔اسی دوران انہوں نےدوستوں کے ساتھ تاتی بگان کی گلیاں چھاننے کا سلسلہ شروع کیا اور ۱۹۷۲میں گھر گھر جاکر سولوشن بیچنے کےکاروبارکا آغاز کردیا۔سولوشن بیچنے کے دوران ہی وہ کارخانہ داروں سے دوستیاں گانٹھتے اور کاروباری ہنر بھی سیکھتے تھےکہ۱۹۷۶میں میٹرک کا امتحان سر پر آن کھڑا ہوا۔ کسی طرح انہوں نے میٹرک تو پاس کر لیا لیکن اپنے ہنر کا اصل جوہر لیدر کے کاروبار میں ہی دکھایا۔توفیق کہتے ہیں’’داداجان کے استعمال میں رہنے والی چھینی ہتھوڑی ایک کونے میں رکھی ہوئی تھی جسے ایک دن میں نے اٹھالیا اور خود سے چمڑا چھیلنے کی کوشش کرنےلگا،پہلے پہل تو کامیابی نہیں ملی جبکہ چمڑا تراشتے ہوئے میری انگلیاں بھی زخمی ہوگئیں۔آخر سولوشن لگا کر میں نے انگلیوں سے بہنے والےخون کے فوارے کو توقابو میں کر لیا لیکن دل کے اندر جو جذبہ موجزن تھا اس پر قابو نہ پاسکا،یہی وجہ ہے کہ اب یہ روز کا معمول تھا اور میر ا جنون بھی‘‘۔
توفیق معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں’’جب میرے ہنر کے جوہر سے مارکیٹ کو آگہی ہوئی تو رات کی نیند اور دن کا چین ختم ہوچکا تھا۔ایک ہی جذبہ متحرک کئے رکھتا کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ آرڈر لوں اور زیادہ سے زیادہ مال بناکر پارٹی کے حوالے کردوں ۔لیدر چپل کی پارٹیاں بھی خوب آتیں اور انہیں میرا کام بھی بہت پسند آتا۔مارکیٹ میں اپنی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے۱۹۸۵-۸۶میںمیں نے جی کے انٹرپرائزز کے نام سےباقاعدہ کاروبار شروع کیااور پھر پورے ملک میں اپنے برانڈ کی چپل بیچنے لگا۔سائوتھ انڈیا میں بنگلوراورچنئی میرا مرکز تھا تونارتھ انڈیا میں گوہاٹی بڑا مارکیٹ ،پٹنہ کے راستے پورے بہار میں کاروبار پھیلائے ہوئے تھا،زمانہ بھی ایسا تھا کہ کلکتہ کا لیدر چپل ہی پورے ہندوستان میں سب سے بہتر سمجھا جاتا تھا۔۲۰۰۲؁ تک مارکیٹ کی یہی حالت رہی لیکن اس کے فوری بعد ہی پورے کاروبار پر زوال آگیا۔حکومت نے بھی اپنی پالیسی بدل دی،جبکہ لیدر کے کاروباریوں کو کارخانہ لگانے کے لئے دور دراز کے علاقے میں بھیج دیا گیا۔چونکہ ۱۹۹۰؁ سے قبل تک اس انڈسٹری پر صرف مسلمانوں کا قبضہ تھا لیکن ۱۹۹۰؁ کے بعد سے ہی غیر مسلم بھی اس انڈسٹری کا حصہ بننے لگےاور دھیرے دھیرے پوری صنعت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی۔‘‘
توفیق زوال کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں’’جب تک مسلمان اس انڈسٹری میں رہے انہوں نے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر کوئی توجہ نہیں دی ،حکومت نے مذکورہ انڈسٹری کے تعلق سے جب اپنی پالیسی تبدیل کی تو وہ اس کی چال کو بھی سمجھنے میں ناکام رہے لہذا دور دراز سے کاروبار مہنگا پڑنے لگا اور کاروباری دھیرے دھیرے ٹوٹنے لگے۔اسی دوران چائنیز پروڈکٹ کا مارکیٹ میں ریل پیل ہوگیا،جبکہ سنتھیٹک آئیٹم لوگوں کو بھانے لگا، اس نے بھی لیدر انڈسٹری کی پائیداری کو ختم کردیا۔لوگ سستا مال خریدتے اور چند ماہ میں ہی پھینک کر دوسرا پروڈکٹ گھروں میں لےآتے۔لیکن انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ سنتھیٹک پروڈکٹ لیدر سے زیادہ مہنگا پڑ رہا ہے۔ المیہ تو یہ تھا کہ وہ اس چیز پر بہت خوش تھے کہ جو خوبصورتی اس پروڈکٹ سے حاصل ہو رہی تھی وہ کولکاتہ کی لیدر انڈسٹری دینے میں ناکام ثابت ہورہی تھی۔لیکن کہتے ہیں کہ ہر عروج کو زوال ہے، تو سنتھیٹک کی چاہت بھی لوگوں میں کم پڑنے لگی اور اب مکمل طور پر چائنیز پروڈکٹ مارکیٹ میں چھایا ہوا ہے‘‘۔
توفیق احمد جنہیں کبھی لیدر چپل کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا جس کے نام کی ہنڈیا ںمارکیٹ میں خالی لوٹائی نہیں جاتی تھیںآخر وہ کاروبار میں ناکام کیسے ہوگئے؟وہ کہتے ہیں’’زمانہ تیزی کے ساتھ بدل رہا تھا لیکن میں اپنے مزاج کو بدلنے پر آمادہ نہیں تھا،چونکہ میرے مزاج میں لیدر بسا ہواتھا اور میں اپنے مزاج کی خلاف ورزی کرنا نہیں چاہتا تھا میں مینول کام کرنے کا عادی تھا جبکہ حکومتی مراعات بھی لینا نہیں چاہتا تھا،لہذا زمانہ کا ساتھ نہ دے سکا۔جب تک مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ اگر میں زمانہ کا ساتھ نہ دوں تو بہت پیچھے چلا جائوں گا اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی‘‘۔
جب مارکیٹ میں میرے برانڈ کے چپل کی ڈیمانڈ کم پڑگئی تو مجھے اپنے ہنر اور صلاحیتیوں کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ نیا کر دکھانے کی خواہش پروان چڑھنے لگی آخر کسی کے توسط سے ’’باٹا چپل‘‘کا کام ملنے لگا اور میںباٹا کے لئےچپل تیار کرنے لگا ،لیبل تو ’’باٹا‘‘کا ہوتا تھا لیکن اسے تیار میں کرتا تھا۔اس وقت بھی ’’باٹا‘‘نے اپنا Goodwillبنائے رکھا ہے حالانکہ اس کا تمام پروڈکٹ آئوٹ سورسنگ ہورہا ہے اور دوسرے لوگ مال بنا کر اسے دے رہے ہیںاور وہ اپنا لیبل لگالر مارکیٹ میں بیچ رہا ہے۔‘‘
توفیق احمد مارکیٹ کے حالات کو کاروباریوں کے لئے انتہائی خراب قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں’’جب لیبر بدل گیا تو اس کے مزاج میں بھی تبدیلی آگئی،المیہ تو یہ ہے کہ اب لیبر بھی بکھر چکا ہے مہنگائی کی وجہ سے کام کرنے والے کارکنان ان چیزوں کی طرف زیادہ توجہ دے رہے ہیں جہاں سے موٹی رقم ہاتھ لگ سکے،اسلئے لیدر صنعت ختم ہوتی جارہی ہے چونکہ یہاں منافع بہت زیادہ نہیں ہے اسلئے کام کرنے والے کارکنان بھی کم ہوتے جارہے ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ کلکتہ کا کاروبار جوٹ انڈسٹری کی وجہ سے بھی ترقی پر تھا،اس انڈسٹری میں جو لوگ کام کررہے تھے وہ لیدر کو بھی کسی حد تک سپورٹ کر رہے تھے لیکن جب یہ انڈسٹری بھی ختم ہوگئی تو اس کے بھی گہرے اثرات ہماری انڈسٹری پرپڑنے لگے۔‘‘یہ ایک حقیقت ہے کہ حالات کو بہتر بنانے میں رات و دن ایک کردینے والے توفیق کبھی بھی اپنی جد و جہد سے مایوس نہیں ہوئے انہوں نے بچپن سے جوانی تک جتنا اتار چڑھائو برداشت کر لیا تھا وہ کبھی انہیں پست ہمتی پر مجبور نہ کرسکا،یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی کہتے ہیں کہ ’’اگر میکنزم کو ڈیولپ کیا جائے تو آج بھی دنیا بدلی جاسکتی ہے‘‘۔
توفیق احمدبنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنر جی کو عوامی رہنما سمجھتے ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ممتا نے حالات کی بہتری کے لئے بہت کام کیا ہے لیکن اسی کے ساتھ وہ مزید کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔توفیق کے مطابق’’سمجھداری ہماری قوم میں ہونا چاہئے،کون لوگ ہمارے لئے مفید ہیں اور کون نہیں اس کا اندازہ اجتماعی طور پر ہمیں ہونا چاہئے ،لیکن یہاں یہ ہو رہا ہے کہ جو بھی آیا اسے جانچے پرکھےبغیر ہم اس کا جھنڈا اورڈنڈا اٹھا لیتے ہیںاور جب بعد میں اس کا اندرون ظاہر ہوتا ہے تو پھر کف افسوس ملتے ہیں۔‘‘توفیق کہتے ہیں کہ جس دن ہمارا سیاسی شعور بھی بیدار ہوجائے گا اسی دن سے ہماری انڈسٹری بھی ترقی کے منازل طے کرنے لگے گی۔‘‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *