
مغرب کے تشہیری نظام سے مقابلہ کیسے؟
اگر یہ دو جذبے بیدار ہو جائیں،یعنی اپنی تہذیب کی حفاظت اور دینی حمیت اور ملی غیرت کا بھرپور مظاہرہ تو بلاشبہ ہم مغرب کے فرسودہ طرز تشہیر کو گندے انڈوں کی طرح اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دیں
جب پردہ پوشی کی تشہیر پردہ دری کے ذریعے کی جائے، جب کفایت شعاری کا اشتہار خود ہوس کا سبق پڑھا رہا ہو، جب فلم اور شوبز کے سنسار سے تعلق رکھنے والوں کو ہیرو کے روپ میں لب بام لایا جا رہا ہو، جب غربت کدوں میں معیار زندگی کو بہتر کرنے کی آواز بلند کر کے قنوطیت کے بیج بوئے جا رہے ہوں اور جب عیاشی اور فحاشی کو دل لگی، زندگی اور زندہ دلی کا استعارہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہو… تو اس کا کیا مطلب ہو گا؟ یہ سوال آپ سے ہے۔ آپ جواب سوچیے! ہم ایک اور سوال پوچھتے ہیں۔
جب مغرب کی مارکیٹنگ تھیوری کو من و عن اور شد ومد کے ساتھ ہمارے دیار میں پڑھایا جا رہا ہو، جب ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چالبازیوں کو تکنیک کا نام دے کر اپنایا جا رہا ہو، جب پروڈکٹ اور دین کا سودا ایک ساتھ کیا جا رہا ہو، جب میڈیا ریٹنگ اور روپے کی دوڑ میں انجام سے بے پروا، بے لگام ہوا جاتا ہو اور جب بہن فروشی کو جدید اصطلاحات کی آڑ میں فن اور فکر کا درجہ مل جائے …تو اسے کیا نام دیا جائے گا؟ یہ سوال بھی آپ کے ذہن رسا کے حوالے۔ ہمیں چند اور باتیں بھی پوچھنی ہیں۔
کیا اسلام بزنس سے منع کرتا ہے؟ کیا اسلام آپ کی ہر ضرورت اور ہر جائز خواہش کا بندوبست نہیں کرتا؟ کیا دین میں کسی حوالے سے کوئی کمی یا کوتاہی محسوس ہوتی ہے؟ کیا ہمارے مذہب میں ہر ناگریز کا جائز متبادل نہیں پایا جاتا؟ کیا آپ کسی ایسے شخص سے ملے جس نے خود کو اپنے تمام تر احوال کے ساتھ دین اور دینداروں کے حوالے کیا ہو اور پھر اپنے فیصلے پر کبھی پشیمان نظر آیا ہو؟ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اللہ کا دین آپ کی ہر ضرورت پوری اور ہر پریشانی کا بہترین حل ثابت ہو گا؟
آپ یقینا اس بنیادی نکتے سے اتفاق کریں گے۔ آپ ایک پکے مسلمان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق ہیں۔ آپ دین کو بھی سمجھتے ہیں اور اسے ہر لحاظ سے اور ہر دور کے لیے قابل عمل بھی۔ آپ یہی خیال کرتے ہیں ایک اچھا مسلمان ، ایک اچھا تاجر بھی ہو سکتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو اسلام اسے ہر طرح کی خوشی اور ہر طرح کی ترقی سے مالا مال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تاہم اصل مسئلہ پہلے دو سوالوں کا اور ان کا مصداق بننے والوں کا ہے۔ آپ جب دیکھیں کہ تشہیر کے نام پر تہذیب کی دھجیاں بکھیر ی جا رہی ہیں اور جب نت نئے آئیڈیاز کے نام پر مادر پدر آزاد معاشرت کو رواج دیا جا رہا ہے تو اس کا مطلب ہے ایسی کمپنیاں عالم اسلام میں اپنے کلچر کو فروخت اور اس کے بدلے میں ہماری ثقافت کو خرید کر لے جا رہی ہیں۔ دوسرے سوال کے تناظر میں مغرب کی من و عن کاپی کرنے والے دراصل غیرت کے سودا گر ہیں۔ انہوں نے اس اندھی تقلید میں غیرت کو اپنے گھر سے پہلے ہی نکال دیا اور اب کدال لیے آپ کے درو دیوار کے درپے ہیں۔ اگر یہ دو جذبے بیدار ہو جائیں،یعنی اپنی تہذیب کی حفاظت اور دینی حمیت اور ملی غیرت کا بھرپور مظاہرہ تو بلاشبہ ہم مغرب کے فرسودہ طرز تشہیر کو گندے انڈوں کی طرح اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دیں۔ ہمیں ان کے طرز معاشرت سے گھن اور ابکائی آئے۔ ہم مارکیٹنگ کے اسلامی آئیڈیاز کی طرف دست شوق دراز کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس شخص نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی، وہ انہی میں شمار کیا جائے گا۔‘‘ کیا یہ آج کا طرز تشہیر سارا کا سارا یہود و نصاری کے گھسے پٹے تجربات کا چربہ نہیں۔ پھر ہم کیوں اس پہ لٹو ہوئے جاتے ہیں۔ دوسری حدیث پاک میں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالی بھی غیرت کرتا ہے اور اس کی غیرت کا مقام وہ ہے جب کوئی مومن بندہ اللہ کی حرام کردہ اشیا کا ارتکاب کر نے لگے۔‘‘ کیا ہم اپنے اختیار سے فحاشی و عریانی کو فروغ دے کر اللہ رب العزت کی غیرت کو چیلنج نہیں کر رہے؟
جس تشہیر کو ہم آئیڈیل سمجھ بیٹھے ہیں ذرا ان تازہ بیانات کی روشنی میں غور کیجیے، خود ان کے موجد اس کی زہر ناکیوں سے کس قدر پریشان ہیں۔ وہ فحاشی پر مبنی ایڈورٹائزنگ کی فوری تبدیلی چاہتے ہیں۔برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق:’’یورپی پارلیمنٹ میں میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی ہر قسم کی فحاشی پر مکمل پابندی کا مسودہ پیش کیا گیا ہے۔‘‘ وائس آف امریکانے یورپی پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے اس مسودے پر اپنا تبصرہ پیش کیا: ’’اس مسودے میں اگرچہ ہرقسم کی فحاشی کی تشہیر پر پابندی کا مطالبہ شامل ہے لیکن خیال ہے کہ اس پابندی کا اطلاق پرنٹنگ اور تشہیر کے لیے استعمال کیے جانے والے عریاں مواد پر ہو گا۔‘‘ برطانوی پارلیمنٹ میں بھی آواز اٹھائی گئی: پارلیمان فلو ایلا بنجامن کا کہنا تھا: ’’یہاں عورت کو محض نمائش کی شے سمجھ لیا گیا ہے۔ہمیں عورت کو شو پیس سمجھنے والوں کی سوچ کو بدلنا ہو گا۔‘‘ اسی طرح فروری2013ء میں آئس لینڈ میں بھی عریانیت کی تشہیر پر مکمل پابندی کا قانون پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے۔