
غیر سودی بینکنگ پر مثبت ہوا آر بی آئی(RBI) کانقطہ نظر
سید زاہد احمد برائے معیشت ڈاٹ اِن
ممبئی (معیشت نیوز)خبر رہے کہ ہندستان میں غیر سودی بینکنگ کے لئے اب تک آر بی آئی (Reserve Bank of India ) کا نقطہ نظر ہی سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے، لیکن ۲۸ دسمبر ۲۰۱۵ کو جب درمیانی مدّت میں مالی شمولیت کے لئے راستہ تجویز کرنے والی ( آر بی آئی کے ایگزیکیوٹیو ڈائرکٹر جناب دیپک مہنتی کی سربراہی والی) کمیٹی (Committee on Medium-term Path on Financial Inclusion) نے اپنی رپورٹ پیش کی تو غیر سودی بینکنگ پر آر بی آئی کا بدلا ہوا نقطہ نظر سامنے آیا ۔ اس سے قبل آر بی آئی یہی کہتی تھی ہے کہ ملک کا دستور اسلامک بینکنگ کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن اس بار کچھ ایسا ہوا کہ مودی سرکار میں اسلامک بینکنگ کی بجائے غیر سودی بینکنگ کے انوان پر آر بی آئی کا نقطہ نظر بدلا ہوا سامنے آیا۔ کمیٹی کی مکمل رپورٹ دس ابواب پر مشتمل ہے ، جس میں سے پانچواں بابــ “غیر سودی بینکنگ ، وصیع بنیاد تک پہنچ” ــ کے موضوع پر ہے جس میں کمیٹی نے واضح طور پر غیر سودی بینکنگ کے متعلق اپنی سفارشات کو دو نقطہ میں پیش کیا ہے۔
سفارشات کے پہلے نقطہ میں کہا گیاکہ ہندستان کے تجارتی بینکوں کو اس لائق بنایا جا ئے کہ وہ مخصوص غیر سودی بینکنگ کی کھڑ کیاں کھولیں، جہاںچالو جمع (demand deposits) کھاتہ کھولنے کے علاوہ شرکت اور مضاربت کے شرائط پر سیکیورٹیز ( agency and participation securities ) جاری کر کے رقم جمع لئے جا سکیں اور جمع شدہ رقومات سے بیع مرابحہ ( cost-plus financing) کے علاوہ موخر ادائگی( deferred payment) کے معاہدوں پر مالیات فراہم کرائے جا سکیں۔ اپنی سفارشات کے دوسرے نقطہ میں کمیٹی نے واضح کیا کہ ہندستان میں غیر سودی بینکنگ کو منظوری دیئے جانے کی صورت میں سرمایہ (capital) اور نقدی (liquidity) کے متعلق قابل اطلاق موجودہ ریگولیٹری ہدایات (extant regulatory guidelines)) تجاری بینکوں کے ساتھ ساتھ غیر سودی بینکوں پر بھی لاگو کر دئے جائیں۔
یوں تو آر بی آئی نے درمیانی مدت (پانچ سال) کے لئے مالی شمولیت(Financial Inclusion) کی راہ تجویز کرنے کی غرض سے یہ کمیٹی تشکیل دی تھی، اور کمیٹی کی رپورٹ کے پانچوے باب کے مضامین پر نظر ڈالنے سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ آر ی آئی کا مقصد ایسے افرادکو بینکنگ سے جوڑنا ہے جو اب تک اپنے مذہبی عقائدکی وجہ سے بیکوں سے نہیں جڑ پا رہے ہیں، لیکن سفارشات کے الفاظ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کمیٹی اسے اسلامک بینکنگ یا شریعہ بینکنگ کے بجائے غیر سودی بینکنگ کر طور پر پیش کرنا چاہتی ہے، جس میں کوئی شریعہ بورڈ یا کمیٹی نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ اپنی سفارشات میں جو طریقہ کار کمیٹی نے سجھائی ہیں، ان سے ایسا معلوم ہوتا ہے گو اس موڈل کا مقصد غریبوں کو غیر سودی مالیات فراہمم کرانے سے زیادہ سرکار کے لئے غیر سودی سرمایہ جمع کرانا رہے گا۔ ایسا اس لئے کہا جا سکتا ہے کیوں کہ رقم جمع کرانے کے لئے سرکار سیکیورٹیز کا استعمال سجھا رہی ہے، جس سے سرکار کے لئے سرمایہ جمع ہو سکتا ہے۔ وہیں رقومات فراہم کرانے کے لئے کمیٹی نے مرابحہ کی بات کہی ہے جو ایک بیع ہے جس پر بینکوں کو آذادی نہیں۔ ملک میںبینکنگ کے دستورکے مطانق بینکنگ کی کمپنیاں تجارتی کاروبار نہیں کر سکتی ہیں۔
سرکار اگر سچ میں بینکوں سے اچھوتے مسلمانوں کو بینکوں سے جوڑنا چاہتی ہے تو اسے اشتراکیت کی بنیاد پر سرمایہ کی فراہمی کے متعلق سنجید کوشش کرنی ہوگی اور پرائویٹ ایکویٹی(Private Equity) یا ڈیمنیشنگ مشارکہ (Diminishing Musharaka) جیسے مالی پروڈکٹس (Financial Products) لانے ہوںگے، تاکہ غریب عوام اپنے کاروبار چلانے نیز مکان دکان، گاڑی اور مشینوں کی خریداری کے لئے اشتراکیت کی بنیاد پر سرمایہ حاصل کر سکیں۔ بہتر ہوگا اگر آر بی آئی خود اپنے تعیں غیر سودی بینکنگ کے لئے ایک ماہرین پر مشتمل ایک مخصوص کمیٹی بنائے جو ان باریکیوں پر غور کرنے کے بعد بہتر طریقہ کار سجھا سکے۔ اس طرح کی کمیٹی میں زیادہ وزن ایسے افراد پر ہونا چاہئے جنکو غیر سودی بینکنگ پر علمی معلومات سے زیادہ کاروباری تجربہ ہو۔ تاہم کمیٹی اور سرکار جوبھی فیصلہ کرے مسلمانوں کو کمیٹی کے علاوہ سرکار اور آر بی آئی کا مشکور ہونا چاہئے کہ ان کے لئے غیر سودی نظام کے نام پر بینکوں میں الگ سے مخصوص کھڑکیاں کھولی جائیں گی۔ ساتھ ہی علماء الکرام کو اس بات کی فکر کرنی ہوگی کہ غیر سودی بینکنگ کے نام سے جو بھی نظام شروع ہو، اسے کامیابی کے ساتھ چلایا جائے۔ اس کے بعد علماء کو جائز طریقہ سے امت مسلمہ کی معاشیی ترقی کے لئے کام کرنے کا موقع فراہم ہو سکے گا۔