جیٹلی جی! بجٹ میں یہ اعلان کر دیں تو آ جائیں گے اچھے دن!

ARUN JETLY

از قلم: مولوی محمد کریم عارفی
اس وقت ملک کے ہر شہری کا سوال ہے کہ ہمارے معزز وزیر اعظم مودی جی اچھے دن کب آنے والے ہیں ۔؟ملک کی ترقی کا دار و مدارجہاں تمام محکموں کی اچھی کارکردگی سے ہوتا ہے لیکن سب سے زیادہ ملک کی ترقی کی بنیاد وزارت خزانہ یعنی فینانس محکمہ کے اعلی کارکردگی اور معاشی و اقتصادی طور پر بہترین اصلاحات کے نفاذ سے ہوتی ہے۔اگر ملک کا بجٹ ‘ اور معاشی طور پر اچھے انداز میں تبدیلیاں ہوں تو یقینا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار میں آنے سے پہلے ملک کے عوام سے کئی وعدے کیا ہے ۔ انہوں نے مختلف انتخابی ریلیوں کے ذریعہ خطاب کرتے ہوئے بار بار الزام لگایا کہ یو پی اے کی حکومت کی ناقص اقتصادی و معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ہی ملک کے غربت و افلاسی بڑھتی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ انکی حکومت آنے کے بعد وہ اقتصادی و معاشی اصلاحات میں تبدیلی کرینگے ۔ اور ساتھ ہی ساتھ کالابازاری ‘ سرکاری اسکیمات میں درمیانی افراد کے عمل و دخل کو روکنے کے ساتھ ساتھ کالا دھن واپس لائینگے۔ یہی نہیں انہوں نے کہا کہ انکی حکومت ہی کالا دھن واپس لا سکتی ہے اور انہوں نے یہاں تک کہ دیا کہ انکی حکومت آنے کے بعد وہ ملک کے ہر شہری کے اکائونٹ میں 15لاکھ روپئے جمع کرینگے ۔لیکن جب وہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھے تو بجائے تبدیلی لانے کے انہوں نے وہی ناقص پالیسیوں کو اپنایا اور اقتصادی اصلاحات سے متعلق کئے گئے اپنے تمام وعدوں کو فراموش کردیا۔اور عام آدمی کا نام لیکر اقتدار کی کرسی سنبھالنے والی مودی حکومت عام آدمی کو چھوڑ کر کارپوریٹ طبقہ کی حکومت بن گئی ہے۔
وزیر خزانہ ارون جیٹلی مودی حکومت کا تیسرا بجٹ 29 فروری کو پیش کریں گے۔ملک میں ترقی کی رفتار اس وقت 7.4 فیصد ہے اور ملک دنیا کی سب سے تیز رفتار سے بڑھنے والی معیشت ہے، لیکن کچھ ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں میں جوش و خروش نہیں دیکھا جا رہا ہے۔عام لوگوں کو کیا چاہئے … ان کے ہاتھ میں ان کی کمائی کا زیادہ پیسہ، مرضی کے مطابق اخراجات اور سرمایہ کاری کی آزادی، ٹیکس کے بوجھ سے نجات … یہی کچھ ہے جو اس سال کے بجٹ سے عام لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں. لیکن یہ سب کیسے ہوگا … کچھ تجاویز ہیں وزیر خزانہ کو … اگر وہ ان تجاویز پر عمل کر لیں تو عام لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ آ جائے گی.
یہ بات سننے میں کچھ عجیب سی لگ سکتی ہے ، لیکن کام ناممکن نہیں ہے. اور اگر ایسا ہوا تو اقتصادی اصلاحات کی سمت میں یہ سب سے بڑا قدم ہوگا. اگر پرسنل انکم ٹیکس سے نجات مل گئی تو عام لوگوں کے ہاتھ میں ٹیکس بریکٹ کے حساب سے 5 سے 35 فیصد تک زیادہ پیسہ آئے گا. توجہ رہے بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی اس کی کھل کر وکالت کرتے رہے ہیں. ہاتھ میں آنے والے اضافی رقم کو لوگ یا تو بچت میں رکھیں گے یا خریداری میں خرچ کریں گے جس سے معیشت کا پہیہ تیزی سے گھومیگا. تمام قسم کی صنعتوں کو پر لگ جائیں گے. ویسے ایک نظر ڈالیں تو حکومت کو ہر سال انکم ٹیکس سے کوئی پونے تین لاکھ کروڑ ( 2 لاکھ 78 ہزار 599 کروڑروپئے) ملتے ہیں۔ یہ حساب2014-15 کاہے. ملک میں 50 لاکھ سے بھی کم لوگ انکم ٹیکس بھرتے ہیں. ان میں سے بھی محض 20 لاکھ لوگ ہی 10 لاکھ یا اس سے زیادہ قابل ادا ٹیکس آمدنی یعنی ٹیکسیبل انکم ظاہر کرتے ہیں۔ لہذا کل ٹیکس کے بوجھ کا 75 فیصد انہی لوگوں کے کندھوں پر ہی ہے۔
پرسنل انکم ٹیکس حکومت کی کل آمدنی کا 17 فیصد ہوتا ہے. اگر حکومت اسے لینا بند کر دے تو ظاہر ہے اس سے آمدنی کا خسارہ یعنی حکومت کی آمدنی میں کمی آئے گی. آمدنی کم ہوگی تو حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے ہوں گے یعنی کسی اور شے سے اس کی تلافی کرنی ہوگی. دیہی روزگار طمانیت اسکیم منریگا (مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایملائمنٹ گیارنٹی ایکٹ)یا تیل کی سبسڈی طرح کے پروگراموں کو کم کرنا ہوگا . ان پروگراموں میں کمی پر حکومت کو سخت تنقید کا سامنابھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ تو پھر کیا کیا جائے۔ موجودہ بچت کی شرح کے حساب سے دیکھیں تو اگر لوگوں کو ٹیکس سے راحت ملے گی تو قریب 83 ہزار کروڑ روپے تو بینک، ایل آئی سی، مشترکہ فنڈ، اسٹاک مارکیٹ وغیرہ کے ذریعے بچت اکاؤنٹ یا انوسٹمنٹ اکائونٹ میں ہی پہنچ جائیں گے. باقی بچا پیسہ لوگ الیکٹرانک اشیاء ‘کپڑے ‘وغیرہ کی خریداری یا سیاحت وغیرہ پر خرچ کریں گے. ان سب سے جی ڈی پی کی رفتار بڑھے گی جو تقریبا ایک فیصد تک ہو سکتی ہے۔ جب لوگ خرچ کریں گے تو سروس ٹیکس، وی اے ٹی وغیرہ جیسے انڈائرکٹ ٹیکس(بالواستہ ٹیکس) کی مد میں تقریبا 30 ہزار کروڑ روپے اضافی آ سکتے ہیں. اس طرح حکومت کو ٹیکس ختم کرنے پر ہونے والے نقصان کی تقریبا 40 فیصد تلافی تو ہو ہی سکتی ہے. ویسے بھی سوا سو کروڑ لوگوں کو ملک میں مٹھی بھر لوگ ہی ٹیکس بھرتے ہیں. ایسے میں ان پر بوجھ ڈالنے سے بھی کیا فائدہ۔؟
اس کے علاوہ عوام کو جو سب سے زیادہ پریشان کرنے والا معاشی معاملہ یہ ہے کہ ٹیکس شرحمیں تبدیلی نہ ہونے کی وجہ سے انکم ٹیکس بھرنے والوں کو غیر ضروری طور پر بہت زیادہ رقم ٹیکس میں دینا پڑ رہا ہے۔
اگر حکومت انکم ٹیکس کو پوری طرح ختم نہیں کر سکتی تو اتنا تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ ٹیکس ریٹ یعنی جس شرح پر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اس میں کچھ کمی کرسکے۔ ابھی 10 لاکھ سے اوپر کی آمدنی حاصل کرنے والوں پر 30 فیصد کی شرح سے انکم ٹیکس لگتا ہے، جوکہ بہت زیادہ ہے۔ تنخواہ دار یعنی نوکری پیشہ شخص کے کمر پر یہ سب سے بڑا بوجھ مانا جاتا ہے۔ اگر حکومت اسکی جگہ ایسا کرے کہ ڈھائی سے 5 لاکھ تک کی آمدنی پر 5 فیصد، 5 سے 10 لاکھ پر 10 فیصد، 10 سے 15 لاکھ پر 20 فیصد، 15 سے 20 لاکھ پر 25 فیصد، 20 سے 25 لاکھ پر 25 فیصد، 25 سے 30 لاکھ پر 30 فیصد اور 30 لاکھ سے اوپر آمدنی پر 35 فیصد ٹیکس لگے. اس سے حکومت کو زیادہ آمدنی ہوگی اور زیادہ لوگ ٹیکس دیں گے۔
پٹرول اور ڈیزل پر اسپیشل ایکسائز ڈیوٹی یعنی ایکسائز ڈیوٹی ختم ہو
مودی حکومت کے اقتدار پر آنے کے بعد خام تیل کی قیمتیں تقریبا 70 فیصد گر کر 100 ڈالر سے 30 ڈالر کے ارد گرد آ گئیں ہیں ۔ لیکن اس کی قیمت میں کمی سے حکومت کو تو فائدہ ہو رہا ہے لیکن اس کمی کا فائدہ عوام کو دینے کے بجائے مودی حکومت عوام کے اس حق کو مزید چھین رہی ہے۔ لیکن دہلی جیسے شہروں میں پٹرول کی قیمت میں صرف 25 فیصد کی ہی کمی ہوئی اور قیمتیں 80 سے گھٹ کر 60 روپے پر آ گئیں۔ اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ حکومت نے ڈائریکٹ ٹیکس کلیکشن میں اضافہ کے لئے پٹرول اور ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھا دیہے۔ اس وقت پٹرول پر 21.5 روپے فی لیٹر ایکسائز ڈیوٹی لگتی ہے جبکہ اپریل 2014 میں یہ 9.50 روپے فی لیٹر تھی. اگر یہ اضافی 12 روپے کی جو ٹیکس کی رقم ہٹا دیا جائے تو پٹرول کی قیمت 48 روپے فی لیٹر ہو جائے گی۔ یعنی عام لوگوں کے ہاتھ میں تقریبا 1200 روپے ماہانہ اضافی ہوں گے۔ اب یہ بچت بھی تو لوگ خرچ کریں گے یا بچت کے طور پر جمع کریں گے۔ اگر ایسا ہو ا تو ڈائرکٹ یا انڈائرکٹ ٹیکس کے ذریعہ حکومت کے اکاؤنٹ میں زیادہ پیسے ہوں گے اور ترقی کی رفتار بڑھے گی۔
اگر حکومت ان تجاویز پر غور کرے تو عام لوگوں کے ہاتھ میں کچھ اضافی پیسہ آئے گا اور صحیح معنوں میں ان کے اچھے دن آئیں گے …!
(مضمون نگار عثمانیہ یونیورسٹی سے کامرس گریجویٹ اور روزنامہ اعتماد کے ویب ڈسک انچارج ہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *