
اللہ کے خوف، صبر اور خود اعتمادی نے کامیابی سے ہم کنار کیا
آپ کا تعارف جاننا چاہیں گے؟
میرا نام نغمین بن حامد الاحمدی ہے۔ بنیادی طور پر ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ 1926ء میں سعودی عرب کے شہر ینبوع میں پیدا ہوا۔ یہ شہر مدینہ منورہ سے 250کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ غربت اور گھریلو مجبوریوں کے باعث کوئی خاطر خواہ تعلیم حاصل نہ کر سکا۔ بچپن سے ہی والدین نے بازار کا راستہ دکھایا، چنانچہ نو عمری سے ہی محنت اور خود کما کر کھانے کا عادی ہو گیا۔
آپ کی ابتدائی زندگی بڑے کٹھن مراحل میں گزری، عملی تجارت کا آغاز کب کیا؟
جی ہاں! میری زندگی کا ابتدائی دور بڑا مشکل تھا۔ میں جب مدینہ منورہ محنت مزدوری کی غرض سے آیا تو میری عمر صرف دس سال تھی۔ شہر میں میرا جاننے والا کوئی نہیں تھا۔ ایک ہفتہ تک کام کی تلاش میں پھرتا رہا لیکن کوئی کام نہ ملا۔ گھر سے جو تھوڑی کھجوریں ملی تھیں، وہ بھی ختم ہو گئیں۔ پھر اللہ کا فضل ہوا اور میری ایک ’’پھیری والے‘‘سے علیک سلیک ہو گئی۔ میں سارا دن ا س کے ساتھ شہر گھومتا پھرتا۔ ہم ریڑھی پر خشک میوہ جات بیچاکرتے تھے۔ و ہ مجھے شام کے وقت جیب خرچ دے دیتا تھا۔ میں چھ سال تک یہ کام سیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ میری یومیہ آمدنی بیس ریال ہو گئی جو آج دو ہزار ریال کے برابر بنتی ہے۔ 1941ء میں، میں نے اپنی دکان کھول لی اور جدہ سے سامان لانے لگا۔ پھیری والے سے دکاندار بن جانا میرے لیے چیلنج سے کم نہ تھا۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ جدہ جا رہا تھا۔ اس زمانے میں ٹرانسپورٹ کا انتظام نہ ہونے کے برابر تھا۔ شاہراہیں بھی نہ تھیں۔ کچے راستے ہوتے تھے۔ بچے، بوڑھے، جوان اور جانور سب ایک گاڑی میں سفر کرتے تھے۔ دوران سفر بارش ہو گئی۔ ہماری گاڑی کیچڑ میں پھنس گئی۔ ہم آدھا دن تک اسے نکالتے رہے۔ ہم جیبوں میں سکوں کے ساتھ ریت بھی ڈالتے تھے تاکہ ان کی آواز نہ آئے اور کوئی ڈاکو اس طرف کا رخ نہ کر لے۔ غرضیکہ ابتدا بڑی مشکل تھی۔ خطرات تھے، دن رات محنت کرنا پڑتی تھی۔ میری زندگی میں کئی دن ایسے بھی گزرے جب مجھے اکیس اکیس گھنٹے کام کرنا پڑتا۔
وہ کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے آپ نے ترقی کی اور اس مقام تک پہنچے؟
میں سمجھتا ہوں میری تجارت میں کامیابی کے تین راز ہیں: اللہ کا خوف، صبر اور خود اعتمادی۔ میں نے اپنے اوپر یہ تین امور لازم کر لیے تھے اور انہی کا سہارا لیے آگے بڑھتا رہا۔ میں اب بھی انہی اصولوں پر کاربند ہوں اور مستفید ہو رہا ہوں۔ ہم گاہکوں کے ساتھ اپنے بچوں اور گھر والوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ منافع اور زیادہ فروخت ایک تاجر کی کامیابی کے لیے نہایت ضروری ہے۔ زیادہ نفع کمانے والا تاجر کبھی زیادہ سیل نہیں کر سکتا۔ تجارت میں کئی بار خسارہ بھی ہوا لیکن ہم نے صبرکا دامن نہیں چھوڑا۔ دنیا میں جو بھی کامیاب ہوا وہ اچانک سے اس منزل تک نہیں پہنچا، بلکہ لمبی جدوجہد، مسلسل حکمت عملی اورپیہم صبر سے کامیاب ہوا۔
تیسری چیز خود اعتمادی ہے۔ شک، بے سکونی اور عدم اطمینان جیسی بیماریوں میں مبتلا تاجر بہت جلد اپنا حوصلہ اور اپنی ساکھ کھو بیٹھتا ہے۔ تاجر کا اپنے ملازمین اور گاہکوں کے ساتھ معاملہ پُر اعتماد اور تسلی بخش ہونا چاہیے۔ اس سے نہ صرف گاہک مطمئن ہوتے ہیں بلکہ ملازمین اور عملہ دل جمعی سے کام کرتاہے۔
آج کل نوجوان محنت نہیں کرتے، اپنے والدین کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں، آپ کیا کہیں گے؟
یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ ہماری نوجوان نسل آرام پسند اور سست ہو چکی ہے۔ وہ روشن مستقبل کے خواب دیکھنا چھوڑ چکی ہے۔ ظاہر بات ہے جس نوجوان کو تیار کپڑے، لذیذ دسترخوان اور ایک اچھی گاڑی بغیر محنت کے مل جائے۔ وہ محنت کر کے اپنی قوت کیوں ضائع کرے گا۔ اس کے لیے حکومتی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو نوجوان نسل کے لیے مختلف کورسز اور مقابلے کروانے چاہییں۔ ان مقابلوں پر بڑے بڑے انعامات مقرر ہوں تاکہ نوجوان آرام پسندی سے محنت کرنے کے عادی ہوں۔ اپنے ملک و قوم کے لیے ترقی کا ذریعہ بنیں۔ اس کے لیے بہترین روزگار کے مواقع فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
تجارتی زندگی کا کوئی یادگار واقعہ جو آپ کو بھلائے نہیں بھولتا؟
جی ہاں! میری زندگی نصف صدی سے زائد ہے۔ ایسے کئی واقعات ہیں جو مجھے بھلائے نہیں بھولتے۔ ایک تاجر کی حالت ہر وقت میری آنکھوں کے سامنے رہتی ہے۔ جس کی تجارت کا پھیلاؤ ملکی سطح پر تھا۔ وہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتا تھا۔ تجارت میں شرعی اصولوں کا ذرا لحاظ نہ رکھتا تھا۔ پھر سود کا قرض بڑھا اور اس کا کاروبارآہستہ آہستہ ٹھپ ہو گیا۔ کچھ عرصہ تک وہ غائب رہا۔ ایک دن میں اپنے کھیت میں گیا تو وہاں ملازمین کے ساتھ اسے کام کرتے ہوئے پایا۔ میں بڑا حیران ہوا اور اس سے صورت حال پوچھی۔ اس نے بتایا کہ سود میری پوری تجارت کو کھا گیا۔ اب میں ایک کمرے میں رہتا ہوں۔ میری اولاد اپنے چچا کے پاس چلی گئی ہے۔
رفاہی کاموں میں آپ کا بڑا نام ہے، کیا تفصیل بتائیں گے؟
میں غریب تھا، میں غریبوں کے مسائل بخوبی جانتا ہوں۔میں اپنا ماضی نہیں بھول سکتا۔ الحمد للہ!ہمارا ملک کا دنیا میں رفاہی کاموں اور انسانیت کی خدمت میں بڑا نام ہے۔ خادم الحرمین الشریفین الملک عبداللہ رحمہ اللہ ایک غریب دوست انسان تھے۔ ان کے رفاہی کام رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے۔ میں اللہ کے فضل سے مدینہ میں موجود تمام رفاہی اداروں کا ممبر ہوں۔ بے گناہ قیدیوں کو چھڑوانے کی ایک نجی تنظیم کا نائب رئیس ہوں۔ اس کے ساتھ اصلاح و تربیت کی ایک تنظیم کا ممبر بھی ہوں۔ ہم نے آج تک ہزاروں قیدیوں کو رہا کروایا۔ ہماری تنظیم گھریلو مسائل کے حل پر مختلف کررسز کا انعقاد کرتی رہتی ہے۔ جس میں ہر طبقہ کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔
تاجروں اور عوام کے نام کیا پیغام دیں گے؟
تاجروں سے کہوں گا کہ غریبوں کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ زیادہ منافع کمانے کے بجائے لوگوں کے ساتھ تعاون کریں۔ اپنے کاروبار کو شرعی اصولوں پر ڈھال کر دین و دنیا کی بھلائیاں حاصل کریں۔ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں۔ اپنی دولت کے گھمنڈ میں آکر کسی غریب کی آہ کا شکار نہ ہو جائیں۔ اس سے بچنے کی کوشش کریں۔ تجارت میں آنے والی رکاوٹوں اور مصائب کو کھلے دل سے تسلیم اور ان کا مقابلہ کریں۔ ہر کامیاب شخص مصائب اور چیلنجز کا مقابلہ کرکے ہی منزل تک پہنچتا ہے۔
حکومت اور والدین سے کہوں گا کہ نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ تجارت کی بھی ترغیب دیں۔ دنیا میں گلوبلائزیشن کے بعد تجارتی اصول بدل چکے ہیں۔ اب ایک تاجر کے لیے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہو گیا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان اگر اس میدان میں آئیں گے تو بہت جلد ترقی کی منازل طے کر لیں گے۔
بہ شکریہ شریعہ اینڈ بزنس