مساوات اور سب کے لئے یکساں مواقع کے ساتھ ہندوستان کا سیکولر جمہوریت ہونا بہت ضروری

فرینک ایف اسلام
فرینک ایف اسلام

فرینک اسلام

گزشتہ 11دسمبر کو ہندوستانی پارلیمنٹ کے ذریعہ ترمیم شدہ شہریت کے قانون کے پاس ہونے کے بعد پورے ملک میں احتجاجی مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ گرچہ بڑے پیمانے پر مظاہرے ہندوستان کے لئے نئے نہیں ہیں لیکن 70کی دہائی میں ملک میں نافذ ہونے والی ایمرجنسی کے بعد سے اب تک ملک بھر میں عوام اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پر نہیں آئے تھے۔
جب سے یہ قانون پاس ہوا ہے تب سے ملک کے مختلف شہروں اور یونیورسٹیوں میں اس کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ ہندوستانی کی صنعتی راجدھانی کہے جانے والے شہر ممبئی میں بھی ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے اس قانون کے خلاف ہورہیمظاہرے میں حصہ لیاہے۔ گرچہ یہ مظاہرے عمومی طور پر پر امن رہے لیکن کچھ مقامات سے تشدد کی بھی خبریں آئی ہیں۔ کل ملاکر 20سے زائد لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور ان میں سے زیادہ ترکا تعلق ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش سے ہے۔
مختصرا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ترمیم شدہ شہریت کیقانون کی رو سے ہندوستانی حکومت مسلمانوں کے علاوہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں ظلم وستم کی وجہ سے وہاں سے بھاگ کر آنے والی اقلیتوں کو شہریت دے گی۔ مذہب کو شہریت کی بنیاد بنانے اور مسلم پناہ گزینوں کو خارج کرنے کی وجہ سے موجودہ قانون ہندوستان کی تاریخ سے بالکل میل نہیں کھاتا۔
بہت سارے لوگوں کو اندیشہ ہے کہ اس قانون اور پھر اس کے بعد متنازعہ این آر سی کے ذریعہ ملک کی دائیں بازو والی حکومت ہندوستان کے 20کروڑ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانا چاہ رہی ہے یا پھر ان کی شہریت ہی کو ختم کرنا چاہ رہی ہے۔ این آر سی ، جس کی شروعات 50کی دہائی میں ہوئی تھی کے مطابق ہر شہری کو اپنے والدین کی سند پیدائش جیسے دستاویزات کو پیش کرکیاپنی شہریت کو ثابت کرنا ہوگا۔لیکن آسام کے علاوہ این آرسی کا نفاذ کہیں اور نہیں ہوا۔ آسام کی سرحدیں بنگلہ دیش سے ملتی ہیں اور یہاں تقریبا 20لاکھ ایسے بنگلہ دیشی افراد قیام پذیر ہیں جن کے پاس کوئی دستاویز نہیں ہے۔ لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی لیڈر بشمول وزیر داخلہ امت شاہ نے یہ اشارہ دیا تھا کہ این آرسی کا پورے ملک کی سطح پر نفاذ ہوگا اور اس سے بہت سارے مسلمانوں کو خوف لاحق ہوا کیوں کہ یہ دو تین حرفوں والے اقدامات کی ضرب بہت کاری ہوگی۔
میں این آر سی یا قانون شہریت کا کوئی ماہر نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے ہندوستا ن میں رہ کر زمینی طور پر اس کا لوگوں پر اثر دیکھنے کا موقع ملا ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ مذہب کو شہریت کی بنیاد نہیں بنایا جانا چاہیے۔ اس طور پر مذکورہ قانون نہ صرف مکمل طور پر غیر اخلاقی اور ہندوستانی آئین کے خلاف ہے بلکہ ملک کی سیکولر جمہوریت اور اقدار کے بھی مغایر ہے۔ این آر سی انتہائی پریشان کن اور بھید بھاؤ والا ہے۔ اگر اس کو پور ے ملک کی سطح پر نافذ کیا جاتا ہے تو ہندوستان کے ہر شہری کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ زمین ، کرایہ داری کے دستاویز، سند پیدائش، حکومت کے ذریعہ جاری کی گئی دستاویزات، ووٹر آئی ڈی کارڈ وغیرہ اپنی شہریت کے ثبوت کے طور پرجمع کرائے۔ ہندوستان میں لاکھوں کی تعداد میں ناخواندہ لوگ بھی رہتے ہیں۔ اور ان میں سے بہت سارے ایسے ہیں جن کو اس طرح کی دستاویز محفوظ رکھنے کا نہ تو سلیقہ ہے اور نہ ہی اس سے پہلے انہیں اس کی ضرورت پیس آئی۔ ایسے لوگ چاہے کئی پشتوں سے یہاں رہ رہے ہوں اب بیوروکریسی کے رحم وکرم پر ہوں گے کہ وہ ان کو شہری مانے یا نہ مانے۔بی جے پی حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس معاملیمیں مسلمانوں کو کچھ زیادہ ہی مسائل درپیش ہیں۔
آسام میں جہاں این آرسی کی شروعات کی گئی تقریبا 3کروڑ 30لاکھ لوگوں نے اپنا نام درج کرانے کے لئے درخواست جمع کرائی جس میں سے 20 لاکھ لوگ غیر قانونی تارکین وطن پائے گئے۔ ہوسکتا ہے کہ جو لوگ اپنی شہریت ثابت نہیں کرپائے ان کو ان حراستی کیمپوں میں بھیج دیا جائے جو ریاست میں تعمیر کئے جارہے ہیں۔ ہندوستان اور بیر ون ملک میں انسانی اور شہری حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ترمیم شدہ شہریت کے قانون کو واپس لے اور پورے ملک میں این آرسی کے نفاذ سے باز رہے۔ اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ اور امریکہ کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی جیسے اداروں نے اس معاملے میں ہندوستان پر تنقید کی ہے۔
پچھلے ہفتہ اس قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر کریک ڈاؤن کو ہندوستانی میڈیا کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی کافی جگہ ملی۔ امریکہ میں جس دن امریکی پارلیمنٹ میں صدر ٹرمپ کے خلاف تاریخی مواخذہ پر رائے شماری ہونی تھی، امریکہ کے تین بڑے اخبار نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور وال اسٹریٹ جرنل نے ہندوستان کو اپنے پہلے صفحہ پر جگہ دی۔ درحقیقت ہندوستانی مسلمانوں پر جو بیت رہی ہے اس حوالے سے واشنگٹن پوسٹ اور نیو یارک ٹائمز کا سال 2019 کی رپورٹنگ بہت موافق نہیں رہی ہے۔ ان دونوں اخبارات نے کئی تنقیدی مضامین شائع کئے ہیں جن میں کشمیر میں پابندیوں اور 20 لاکھ لوگوں کو جن کا نام این آرسی میں نہیں آسکا ہے کو حراستی کیمپوں میں منتقل کرنے اور ان کے مقدمہ کا فیصلہ ہوجائے اور ان کو ملک بدر کرنے تک قید کرنے کا تذکرہ ہے۔
شہریت کے ترمیم شدہ قانون، این آرسی اور کشمیر میں حکومت کا ایکشن۔۔کل ملا کر امریکہ اور پوری دنیا میں ہندوستان کی سمجھ کے حوالے سے ایک مسئلہ پیداکررہا ہے۔ایک ایسا ملک جو دہائیوں تک جمہوریت کے مشعل بردار کے حوالے سے جانا جاتا تھااب اس کا نام حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے کچھ سنگین معاملوں میں لیا جارہاہے۔ مہاتما گاندھی کے ہندوستان کا اس سب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہندوستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر نہیں جانا جانا چاہئے جہاں مسلمانوں اور اقلیتوں کو یکساں مواقع اور جامع معاشی نقل و حرکت کے مواقع میسر نہ ہوں۔بلکہ ہندوستان کو ایک ایسی جمہوریت کے طور پر جانا جانا چاہیے جہاں سب کو تحفظ حاصل ہو، جہاں خوف کے بجائے امید اور افتراق کے بجائے اتحاد کی حکمرانی ہو۔ ایک ایسی جگہ جہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور نیک نیتی کا راج ہو۔
ہم سب کو اس بات کا بہت اچھی طرح ادراک ہونا چاہیے کہ اقلیتوں کو پس پشت ڈال کر ہندوستان کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ اگر اقلیتیں اور مسلمان کامیاب ہوں گے تو ہندوستان کامیا ب ہوگا اور پوری دنیا کامیاب ہوگی۔ آئین ہندمیں ملک کو سب کے لئے ایک جمہوری ملک بنانے کا عزم بہت ہی واضح ہے۔ صحیح کام یہ ہے کہ اس عزم کا احترام کرتے ہوئے مسلمان ودیگر اقلیتوں کے ساتھ مساوات کا برتاؤ کیا جائے۔ اس سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے گا کہ ہندوستان پوری دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کا درجہ برقرار رکھے گا اور دوسروں کے لئے بھی ایک قابل تقلید مثال قائم کرے گا۔
مودی انتظامیہ کہتی آرہی ہے کہ شہریت کا قانون اور این آرسی ہندوستان کے داخلی مسائل ہیں لیکن اس کا اثر ملکی سرحدوں کے باہر بھی پڑے گا۔ اس کا اثر دونوں طریقوں سے پڑے گا یعنی ہندوستان کی شبیہ پوری دنیا میں ایک شاندار سیکولر جمہوریت والی ہوگی یا ایک قوم پرست آمرانہ ملک کی اور اس کا اثر پوری دنیا سے یہاں آکر کاروبار اور سرمایہ کاری کرنے والے لوگوں پر بھی پڑے گا۔
نئے بیانیہ اور بدامنی کی جو کیفیت ابھی پائی جاتی ہے وہ پچھلے سال سے ہی خستہ حال معیشت کے لئے کسی طرح بھی معاون ثابت نہیں ہوگی۔ ایک تاجر کے طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہندوستان کی شبیہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی کرنے والے کے طور پربن گئی تو معیشت پٹری پر لانا مشکل ہوگا۔ ترمیم شدہ شہریت کے قانون اور این آرسی کے نفاذ سے بیرون ممالک سے سرمایہ کاری کم ہوجائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان اپنی معیشت کے فروغ ، نئی ملازمت کے مواقع اور انفراسٹرکچر کی فراہمی نہیں کرپائے گا۔
آخری بات یہ ہے کہ یہ وزیر اعظم مودی کے مفاد میں ہوگا کہ وہ ہندوستان کی سڑکوں پر جو ہورہا ہے تھوڑا اس پر بھی توجہ دیں۔ سال 2011 میں آزادی کی لڑائی لڑ چکے انا ہزارے کی قیادت میں بدعنوانی کے خلاف برپاہونے والی تحریک نے منموہن سنگھ کی سربراہی والی یو پی اے حکومت کو چولیں ہلادی تھیں۔انسداد بدعنوانی کیبل کو لے کر حکومت کی سردمہری کے خلاف پورے ملک میں ہزاروں لوگ سڑک پر آگئے تھے۔اس وقت کانگریس پارٹی سڑکوں پر یہ محاذ ہار گئی تھی۔ منموہن سنگھ جن کی شبیہ عمومی طور پر ایک ایمان دار اور بدعنوانی سیدور رہنے والے شخص کے طور پر ہوتی ہے اس سے کبھی ابھر نہ سکے۔ اور تین سال کے اندر ہی اگلے انتخابات میں اس سے مود ی کوعروج حاصل ہوا۔
گرچہ موجودہ احتجاجی مظاہرے دوسرے مقاصد کے لئے ہیں لیکن پورے ملک میں ان کا اثر ویساہی پڑ سکتا ہے۔ آزاد ہندوستان میں ہندوستان نے جو سب سے زیادہ ذہین سیاست داں پیدا کئے ہیں مودی ان میں سے ایک ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ کچھ ایسا کریں تاکہ موجودہ حالات ان کے لئے اناہزارے کی تحریک نہ بن جائیں۔
٭(فرینک ایف اسلام امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک کامیاب ہند نڑاد تاجر، مخیر اور مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل کے ذریعہ رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ffislam@verizon.net)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *