میں صحافی کیوں بننا چاہتا ہوں؟

معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن کے اشتراک سےجامعہ سیدنا ابن عباس میں منعقدہ یک روزہ سیمینار ’’عہد حاضر کی اردو صحافت اورمستقبل کا منظرنامہ‘‘ میں یہ تحریر پیش کی گئی تھی جسے افائدہ عام کی خاطر شائع کیا جارہا ہے۔ادارہ

معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم کے طلبہ اپنےاسناد کے ساتھ

معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم کے طلبہ اپنےاسناد کے ساتھ

محمد عدنان (طالب علم ،معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن بہ اشتراک جامعہ سیدنا ابن عباس )

کئ مقاصد و وجوہات کی بنا پر میں صحافی بننا چاہتا ہوں، جس کو میں ان شاء اللہ ابھی بیان کروں گا، سب سے پہلے تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ صحافت کیا ہے ۔
صحافت کے لغوی معنی
صحافت کے لغوی معنی تحریر یا رسالے کے ہیں، مصنف “لسان العرب ” بیان کرتے ہیں کہ”صحف صحیفہ کی جمع ہے، صحیفہ وہ ہے، جس میں قرآن کریم لکھا جاتا ہے : إن هذا لفي الصحف الأولى، صحف إبراهيم وموسى -(یہ باتیں صحیفوں میں بھی لکھی ہے، یعنی ابراہیم اور موسی کے صحیفوں میں) معجم “متن اللغہ” کے مصنف لکھتے ہیں کہ ” صحافت نشر کرنے اور ان میں کام کرنے کے پیشے کو کہتے ہیں ۔ مصنف “اساس اللغہ “لکھتے ہیں کہ “صحیفہ، صحف، یا صحائف وہ کھال یا کاغذ کا ٹکڑا ہے، جس پر لکھا جاتا ہے ۔صحیفہ مکتوب یا کتاب کے لئے اچھے مواد کو بھی کہتے ہیں، عربوں نے زمانہ قدیم میں اسے خبر واعلان یا معلومات کےلئے بھی استعمال کیا، کتب سیر میں مذکور ہے کہ قریش نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بنی ہاشم اور مسلمانوں کا جو مقاطعہ کیا تھا، اور اس کے متعلق جو وثیقہ لکھ کر کعبہ شریف کی دیوار پر خبر کے طور پر لٹکایا تھا، اسکا نام بھی انہوں نے صحیفہ رکھا تھا ۔
صحافت کا مفہوم
محمود عزمی صحافت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ”یہ ایک اجتماعی عمل ہے، جس کے ذریعے مناسب اور اچھی معلومات اور افکاروخیالات کو اخبار کے ذریعے پڑھنے والوں تک پہنچایا جاتا ہے، ہم یہاں مزید وضاحت کے لئے مشہور صحافی اور انگریزی صحافت کے صدر “ویکھام اٹییڈ” کی رائے پیش کرتے ہیں کہ “صحافت دوسرے پیشوں کی طرح کوئی پیشہ نہیں ہے۔بلکہ مختلف پیشوں کا مجموعہ ہے ۔صحافی غیر سرکاری طور پر عوام کے خادم کی حیثیت رکھتا ہے ۔اسکا اولین مقصد معاشرے کی سربلندی کے لئے سعی وکوشش کرنا ہے ۔ڈاکٹر عبدالسلام خورشید تحریر کرتے ہیں کہ “صحافت اس آرٹیکل یا مضمون کو کہتے ہیں جو مقررہ وقت پر شائع ہوں”۔محمد خیر الدرع لکھتے ہیں کہ ” کلمہ صحافت ایک عصر تک مہمل رہا، پھر رشید الدحداح نے 1858ء میں اس میں روح پھونکی اور گزت اور جرنل جیسے غیر عربی الفاظ کو اس کے لئے استعمال کیا ۔مختلف اہل علم نے صحافت کی تعریف اپنے فکری اور نظریاتی انداز پر کی ہے ۔کمیونسٹوں کے مطابق صحافت اسے کہیں گے جو مارکسی اور شیوعی نظریات کی ترجمانی کرے ۔سرمایہ داروں کی رائے میں صحافت ایک آزاد تجارت ہے، اور اسکا مقصد مال کمانا یا مال جمع کرنا ہے ۔میرے مطالعے کے مطابق صحافت ان تمام طریقوں پر محیط ہے، جن کے ذریعے معلومات، خبریں، تعلیقات، اور تبصرے لوگوں تک پہونچیں ۔

محمدعدنانمعیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشنکی سند قطر کے مشہور تاجر حسن عبد الکریم چوگلے سے حاصل کرتے ہوئے: تصویر معیشت
محمدعدنان معیشت اکیڈمی اسکول آف جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشنکی سند قطر کے مشہور تاجر حسن عبد الکریم چوگلے سے حاصل کرتے ہوئے: تصویر معیشت

اب میں اپنے صحافی بننے کی وجوہات بیان کررہا ہوں ۔
سب سے پہلی وجہ جس کے لئے میں صحافی بننا چاہتا ہوں وہ یہ ہےکہ صحافت ہر زمانے میں حیات انسانی کی ایک ناگزیر ضرورت اور اسکا ایک جز رہی ہے، صحافت کا آغاز اسوقت ہوا جب سے انسان نے خبریں معلوم کرنے اور حالات کی جانکاری کے ساتھ اپنے مقدور پھر ان کو محفوظ کرنے کا کام شروع کیا، جب ہم قدیم تاریخی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض قومیں اپنی تاریخ لکھنے اور اسے نشر کرنے کی بڑی شوقین تھیں۔اہل بابل نے حضرت عیسی کی پیدائش سے تقریباً تین صدی قبل حوادث و واقعات کی تسجیل کے لئے لوگوں کو مقرر کیا تھا، اہل چین حوادث وواقعات کاریکارڈ رکھنے کا خاص اہتمام کرتے تھے، ان کے یہاں قدیم ترین زمانے سے اخبارات پائے جاتے تھے۔یونانیوں کے یہاں خبریں پہنچانے کا خاص طریقہ رائج تھا، اہل روم خبروں کی ترتیب وتنظیم میں پیش پیش تھے، ان کے یہاں ایک گشتی فرمان ہوتا تھا جسے پوپ گرجے میں منعقد ہر اجتماع یا پارٹی میں بورڈ پر لکھتا تھا، اس طرح کے اجتماعات اور پارٹیاں وقتاً فوقتاً ہوتی ہی رہتی تھیں ۔لیکن جب رومن حکومت بہت وسیع ہوگئی تو یہ طریقہ کار آمد نہیں رہا، اس سے ضرورت کی تکمیل نہ ہوسکی ۔جس کی وجہ سے قیصر نے حکم دیا کہ خبریں، اخباری نشریہ کی شکل میں ہرشہر کی دیواروں اور دکانوں پر چسپاں کی جائیں، اس نشریہ میں وقوع پذیر یومیہ واقعات وحوادث کا بیان ہوتا تھا ۔یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن جب رومن حکومت زوال پزیر ہوئی تو یہ سلسلہ موقف ہو گیا ۔ یہاں تک کہ ہر زمانے میں ہر ملک خبروں کو جمع کرنے اور نشر کرنے کا کوئی نہ کوئی نظم ہوتا تھا، حتی کہ قریب ہی میں مطبوعہ اخبارات کا ظہور ہوا۔جب پریس کا حصول آسان ہوا اور اخبارات چھپنے لگے تو صحافت نےایک نئی کروٹ بدلی ۔مؤرخین کے مطابق سب سے پہلا مطبوعہ اخبار 974ء میں چین سے تی باؤ(محل کی خبریں) کے نام سے شائع ہوا پھر اس کا نام پیکنگ گزٹ (peking Gazette )ہوگیا۔
یورپین ممالک میں مطبوعہ اخبارات کا آغاز سترہویں صدی عیسوی سے ہوا، محض چالیس سال کے عرصے میں وہ پورے یورپ میں پھیل گئے پہلا اخبار جرمنی سے 1609ء میں اویزارلیش اورڈرزیٹنگ (Aviza Relation order zeitung )کے نام سے شائع ہوا انگلینڈ سے پہلا مطبوعہ اخبار 1620ءمیں ویکلی نیوز (Weekly News) شائع ہوا، فرانس سے پہلا مطبوعہ اخبار 1631ء میں مشہور صحافی ٹیوفراسٹ نے گزٹ کے نام سے شائع کیا، پھر اس کا نام بدل کر گزٹ دوفرانس (Gazeet du France) ہوگیا،1703ءمیں امریکہ سے پہلا مطبوعہ اخبار بوسٹن نیوز لیٹر (Boston News Latter) کے نام سے جان کامبل شائع کیا ،بعض مورخین نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ امریکہ سے شائع ہونے والا پہلا مطبوعہ اخبار 1690ء میں پبلک اکورینسیز (Public Occurrences) کے نام سے شائع ہوا ،1660ء میں اسپین سے پہلا مطبوعہ اخبار شائع ہوا جس کا نام گزٹ میڑرڈ(Gazette Madrid) تھا، ہالینڈ سے 1620ء میں متعدد اخبار شائع ہوئے، سویزر لینڈ سے آرڈیزی واچ ٹینٹنگ (Ordinary Watch Tanting) نامی اخبار 1701ء شائع ہوا ،روس میں 1703ءکے بعد اخبار نویسی آغاز ہوا۔
مصر کے متعلق بعض مورخین کا خیال ہے کہ فرانس نے اپنی عارضی حکومت کے دوران میں ایک عربی اخبار شائع کیا تھا لیکن بعض کی رائے ہے کہ مصر کی جدید حکومت کے بانی محمد علی نے “وقائع مصریہ” نام سے پہلا اخبار نکالا ،مورخین کی ایک جماعت کا یہ بھی خیال ہے کہ “وقائع مصریہ “سے پہلے ایک دوسرا اخبار “جرنال خدیوی” کے نام سے شائع ہو چکا تھا، جزائر سے 1847ء میں پہلا مطبوعہ جریدہ فرانس نے “المبشر” کے نام سے نکالا، استنبول سے 1855ء میں اس رزق اللہ حسون حلبی نے “مرآۃ الاحوال العربیہ” کے نام سے پہلا مطبوعہ جریدہ نکالا، لبنان سے پہلا مطبوعہ جریدہ 1757ءمیں” حدیقۃ الاخبار” کے نام سے خلیل خوری نےشائع کیا،تونس سے 1860ءمیں “الرائد الفرنسی” کے نام سے پہلا مطبوعہ جریدہ نکلا ،شام سے 1865ء میں “سوریا” نامی جریدہ نکلا،لیبیا سے 1866ءمیں”طرابس الغرب “نامی جریدہ نکلا، عراق سے ترکی گورنر مدحت باشانے 1869ء میں “الزوراء” نامی جریدی نکلا، بیت المقدس سے “القدس” جریدہ 1876ء میں شائع ہوا، مراکش سے “المغرب” نامی جریدہ 1889ء میں نکلا، سوڈان سے 1899ء میں “الغازیۃ السودانیہ” پہلا مطبوعہ اخبار نکلا، جزیرۃ العرب سے “صنعاء” نامی پہلا مطبوعہ جریدہ 1879ءمیں شائع ہوا ،کویت سے “الکویت” نامی روزنامہ اخبار 1928 میں نکلا ،بحرین سے 1933ءمیں روزنامہ “البحرین” شائع ہوا ،سعودی عرب میں پہلا چھاپہ خانہ 1882ء یا 1883ءمیں مکۃ المکرمہ میں قائم ہوا اور وہاں سے پہلا جدید حجاز 1908 میں شائع ہوا، ہندوستان میں مطبوعہ اخبار کی نشر واشاعت کا آغاز ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں ہوا اور پہلا اخبار کلکتہ سے جنوری1780ء میں ہکی گزٹ (Hicky Gazette) کے نام سے شائع ہوا ,
دنیا کے مختلف ممالک سے شائع ہونے والے اخبار کا اس زمانے میں ایک ہی مقصد تھا خبروں کو جمع کرکے عوام کے لیے نشر کردیا جائے ان میں واقعات اور حوادثات پر کسی قسم کا کوئی تبصرہ نہیں ہوتا تھا،
میرے صحافی بننے کی دوسری اور بڑی وجہ یہ ہیکہ موجودہ دور میں صحافت کو جو اہمیت حاصل ہے، وہ ماضی میں کبھی اسے حاصل نہ تھی، آج اس نے وہ مرکزی مقام حاصل کرلیا ہے، کہ زندگی اسکے اردگرد گھومتی نظر آتی ہے، اور انسانی زندگی کے تمام بنیادی معاملات کا اس پر دارومدار ہوگیا ہے، صحافت فکری رہنمائی کرتی ہے، بامقصد تنقید کے ذریعے غلطی سے روکتی ہے، فکرانسانی کے دائرے کو وسیع کرتی ہے ،معاصر تاریخ لکھتی ہے، علمی و ادبی ترقی کے ساتھ اس میدان میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے ۔ترقی کے راستوں کو آسان کرتی ہے ،اور ادب کو حقیقی زندگی سے قریب کرکے اس میں واقعیت اور فعالیت پیدا کرتی ہے، وہ وضاحت وصراحت سے واقعات وحوادث کو پیش کرتی ہے، خبروں اور اہم معاملات سے پردہ ہٹاتی ہے ۔اور قاری کے لئے ہو وہ چیز پیش کرتی ہے جسکا وہ ضرورت مند ہوتا ہے، دور حاضر میں صحافت اقوام کر ترقی و پختگی کا مظہر ہے، حصول حق وعدل میں معاون اور امن سلامتی کے پھیلانے میں مددگار ہے، اس سے ہمیشہ ہر امت اور ہرمعاشرے کی تعلیم وثقافت میں اضافہ ہوتا ہے، صحافت وطن کی محافظ اور اہل سیاست کا ہتھیار ہے، قدیم قوموں اور امتوں سے واقفیت کا خزانہ ہے، یہ تعمیر وتخریب کا قومی ہتھیار ہے، صحافی کا قلم صحیح اور غلط ہرقسم کی معلومات فراہم کرنے کی طاقت رکھتا ہے، اس کے تعمیری اور تخریبی اثرات کا ہونا ناگزیر ہے ۔یہ ملک کی بنیاد اور اہل ملک کی زبان ہے، نپولین نے کہا تھا کہ “چار مخالف اخبار ایک ہزار بموں سے زیادہ خطرناک ہیں”
اکبر الہ آبادی کہتے ہیں کہ
کھینچوں نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالوں
جب توپ مقابل ہوتو اخبار نکالوں
صحافت کو عصر حاضر میں وہ اعلی وارفع مقام حاصل ہوگیا ہے، کہ کسی بھی طرح اس سے بے نیازی نہیں برتی جاسکتی ہے، اگر ہم نے اسے دعوت اسلام کے لئے استعمال کیا تو ہم اس سے زبردست کام لے سکتے ہیں، اور دعوت وتبلیغ کو اچھی طرح ادا کرسکتے ہیں، علم وفکر کے میدان میں ہم قائدانہ کردار ادا کرسکتے ہیں ۔
میرے صحافی بننے کی تیسری وجہ یہ ہیکہ صحافت کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے، اسلام میں صحافی ایک رہنما کا مقام رکھتا ہے، حالات وواقعات اور حقائق کی خبر ذہنوں کے لئے روشنی کے مانند ہے، لیکن جن اطلاعات سے ذہنوں میں اجالے کے بغیر اندھیر چھاجاتا ہو، ان کو عام کرنا بھی کوئی اچھا فعل نہیں ہوسکتا، صحافت یہ دونوں کام کرتی اور کرسکتی ہے، لیکن اچھی اور اسلامی صحافت وہی ہے جو ذہنوں میں اجالے کرے، روشنی سے محروم لوگوں کو روشنی مہیا کرنا ایک ایسا عظیم الشان کام ہے جو اللہ تعالیٰ خود بھی کرتا ہے، ارشاد ربانی تعالیٰ ہے ۔
اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
جو لوگ ایمان لاتے ہیں، اُن کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے حامی و مدد گار طاغوت ہیں اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے،
تاریکیوں سے نکال کرروشنی میں لانے اور راہ ہدایت دکھانے کا فریضہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی سپرد کیا گیا :
الر كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ.
ا ل ر اے محمدؐ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ، ان کے رب کی توفیق سے، اُس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے،
صرف اللہ اور رسول ہی نہیں بلکہ، قرآن بھی اندھیرے سے نکال کراجالے میں لانے والی کتاب ہے،
{ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ * يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ } { قَدْ جَاءَكُمْ }
تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آ گئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے اُن کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے
اس سے معلوم ہوا کہ مومن صحافی وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے رسول کی سنت پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کو حالات و واقعات کی ٹھیک ٹھیک خبریں مہیا کرے ، اس طرح انہیں وہ تاریکی سے نکال کر روشنی میں لانے کا فرض انجام دے ، قرآن پاک میں روشنی کو خبر بھی کہا گیا ہے، ممتاز صحافی جناب محمد صلاح الدین” اسلامی معاشرے میں ذرائع ابلاغ کا کردار” کے موضوع پر اپنے مقالہ اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں
{ روشنی درحقیقت خبر ہی کا دوسرا نام ہے، اللہ تبارک و تعالی نے نے انبیائے کرام کے ذریعے ہمیں اندھیرے سے نکال کر جس روشنی میں پہنچایا تھا، وہ اللہ تبارک و تعالی کے وجود اس کی وحدانیت اس کی صفات ، آخرت میں اس کے اس کے حضور پیشی پھر جزا و سزا کے طور پر جنت اور جہنم کی زندگی سے متعلق خبر ہی تھی جو ہمیں پہنچائی گئی، اور اس مصدقہ خبر سے محرومی کی صورت میں ہم اندھیرے میں تھے، صحیح خبر ہی پہنچانے کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نام مخبر صادق بھی تھا، خبر روشنی ہے اور بے خبری اندھیرا، اور یہ بھی ذہن نشین کر لیجئے کہ روشنی انسداد جرائم کیا سب سے بڑا موثر ذریعہ ہے، اندھیرا مجرم کی بنیادی ضرورت اس کا سب سے بڑا سہارا اور سب سے مضبوط ترین محافظ ہے، ہر مجرم خواہ وہ رشوت خور ہو، خائن اور چور ہو، زانی وشرابی ہو۔ ملاوٹ، اسمگلنگ اور کم تولنے کا مرتکب ہو، تخریب کار، وطن دشمن، بیرونی ایجنٹ ہو، ان سب کی مشترکہ ضرورت اخفاء اور اندھیرا ہے، خبر اور روشنی انکی موت ہے}
روشنی کو عام کرنا بظاہر بہت آسان بات ہے یا ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنے کی بات ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *