جاویدجمال الدین
انگریزی کا صحافی ،اردو دوست ۔سینہ میں ملت کادرد بھی ، جس نے مجھے ہیروبنایا۔
دوستوں،حسب وعدہ میں اپنے ساتھی صحافیوں ، قریبی سماجی اور سیاسی لیڈران کے بارے میں تعارف پیش کررہا ہوں ،آج بھی ایک صحافی کے بارے میں لکھنے کی جسارت کررہا ہوں جوکہ ہے تو انگریزی کا صحافی،لیکن اردو کا خدمت گار ہے اور اپنی کوشش سے انگریزی داں طبقہ کواردو کی چاشنی سے متعارف کراتا رہتا ہے۔
خیر دوستوں یہ اُن دنوں کی بات ہے جب 2002فروری میں مرحوم عبدالحمید انصاری کی سوانح عمری شائع ہو کر منظر عام پر آچکی تھی، ایک روزمیں جب رپورٹنگ کے سلسلے میں مسلم محلوں کی خاک چھاننے کے بعد اخبار کے دفتر پہنچا تو مجھے ٹیلی فون آپریٹر نے مطلع کیا کہ معروف انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس سے میرے لیے کسی محمد وجیہہ الدین نامی نامہ نگار کا کال آیا تھا،خیر میں نے اپنی رپورٹ فائل کرنے کے بعد وجیہہ الدین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی،ہم دونوں کی سرسری ملاقات رہی تھی ،اکثر پریس کانفرنس اور تقریبات میں ملاقات ہوجاتی تھی، ان سے رابطہ ہونے پر انہوں نے مطلع کیا۔میں آج دوپہرڈاکٹر رفیق زکریا سے ملاقات کی غرض سے ان کے گھر گیاتھا، توانہوں نے تمہارا اور بانی انقلاب عبدالحمید انصاری کی سوانح حیات کا ذکرکیاہے اورمیں نے انڈین ایکسپریس میں تمہارے انٹرویو کی منظوری بھی حاصل کرلی ہے،
میری خوشی کی انتہا نہیں رہی ایڈیٹر سے پہلے عزیز کھتری کے کان میں یہ بات ڈال دی ،پھر مدیر صاحب کو مطلع کردیا اور انہوں نے میرے سامنے ہی انٹر کوم پر عزیز بھائی سے بات کی جوکہ پہلے ہی مجھے اجازت دے چکے تھے،انقلاب کا ایڈیٹر کتنا بھی پاور فل ہو ،پرنٹر پبلشر کے حکم کا پابند ہوتا ہے۔جوکہ مالکان اور ایڈیٹوریل کے درمیان ایک رابطہ کا کام کرتا ہے ،اور پتہ بھی نہیں ہلتا ہے۔
دراصل انقلاب کے پرنٹر اور پبلشر جناب عبدالعزیز کھتری نے سوانح عمری کی چند کاپیاں لیکرجنوبی ممبئی میں کف پریڈ میں واقع مرحوم ڈاکٹر رفیق زکریا کی رہائش گاہ جانے کی ہدایت دی تھی،صبح میں ان کے گھر پہنچ گیا اور دوپہر میں وجیہہ الدین ان سے ملنے چلے گئے اور انہوں نے کتاب کے بارے میں مطلع کردیا۔پھر دوسرے روزہم دونوں ناگپاڑہ جنکشن پر ملے اوربات چیت کا دور شروع ہوا،وجیہہ الدین کسی ایسے تاریخی مقام پر کھڑا کرکے میری تصویر چاہتے تھے،جہاں مرحوم انصاری نے وقت گزارا تھا،میں نے مدنپورہ میں افضال پیمبری،عبدالقادر مینشن ،جو انصاری صاحب کی رہائش گاہ تھی اور تاڑدیو کے دفتر کا ذکرکیا،لیکن وجیہہ الدین کچھ ‘یونیک’ چاہتے تھے اور اچانک مجھے یاد آیا کہ کچھ فاصلہ پربائیکلہ بریج اورممبئی فائر بریگیڈ کے صدر دفتر کے مقابل چوک مرحوم عبدالحمیدانصاری صاحب کے نام سے منسوب ہے،پھر کیا تھا میرے دوست اورمحسن وجیہہ الدین نے کیمرہ مین کو بلالیا اور مذکورہ چوک پر نصب سیاہ تختی کے سامنے کھڑا کرکے میری تصویرکھینچ لی۔جس پر سنہرے حروف میں عبدالحمید انصاری چوک تحریر تھا۔دوروز بعد بروز پیر9،مارچ 2002 کے انڈین ایکسپریس کے ضمیمہ نیوز لائنز کے فیچر پیج پر میری رنگین تصویر کے ساتھ میرا انٹرویو شائع ہوگیا،جس نے میری عزت و شہرت میں چار چاند لگا دئیے ۔عزیز صاحب نے چپراسی موہن سنگھ بشٹ سے دس پندرہ کاپیاں خریدوالیں اور خالد انصاری اور طارق انصاری سے لیکر مڈڈے کے اعلیٰ عہدیداروں کے ڈسک تک انڈین ایکسپریس پہنچادیاگیااور خود مدیر صاحب دوسرے اخبارات کے درمیان رکھ کر اسے پڑھ رہے تھے،انہوں نے میرے دفتر پہنچنے پر لقمہ دیا کہ “وجیہہ نے تم کو ہیرو بنادیا۔”
یہی وجہ تھی کہ انقلاب اور مڈڈے ملٹی میڈیا کے مالک وچئیرمین خالدانصاری کے ذریعے 25ہزار کا چیک اور سوئزر لینڈ کی ایک قیمتی گھڑی مجھے بطور انعام پیش کی گئی،اورانگریزی میں ترجمہ کا فیصلہ بھی لےلیااور ڈاکٹر رفیق زکریا کا اس میں اہم رول رہاتھا،اس ناچیزکانام انگریزی کتاب کے سرورق پر نظرآگیا۔
لیکن وہ لقمہ تین مہینے بعد یکم جولائی 2002 کو سنگین نوعیت اختیار کرگیا،جب مدیرمحترم نے پونہ تبادلہ کرادیا،اور پھر دوسال بعدانگریزی کتاب کی اشاعت نے دوسال کے لیے دلی کی خاک چھاننے کا موقعہ دے دیا،خیر یہ ایک لمبی کہانی ہے،شاید اسے ہی Part Of the Lifeکہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والے میرے انٹرویو نے میری کتاب کو شہرت دلادی تھی جوکہ ایک۔میڈیا ہاؤس سے وابستہ تھی۔اور مجھے اردو صحافت میں ایک بہتر جگہ عطا کی ۔اس کے بعدمیں اور وہ دونوں اچھے دوست بن گئے ،حالانکہ۔میں عمر میں ان سےکچھ بڑاہوں،لیکں فاروق سید کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے،وہ چھوٹا ہے ،لیکن ایک اچھا دوست بھی۔سر ی کرشنا کمیشن رپورٹ کے اردو ترجمہ کے کتابی شکل میں شائع ہونے کے بعد اور انصاری صاحب کی بائیو گرافی کے حوالے سے میرا تعارف پیش کیا جاتا ہے،اب اس کا کیا جائے کہ گوگل نے بھی یہی ‘شرارت ‘کی ہے کہ جاوید جمال الدین سرچ کرنے پر میرے سے وابستہ دونوں تصانیف کی تفصیل نمایاں ہوجاتی ہے، اور انگریزی کتاب بھی رزلٹ میں ا ر کر آجاتی ہے،جو کہیں کہیں لوگوں کے سینے میں چبن پیدا کردیتی ہے۔
انڈین ایکسپریس کے بعد وجیہہ الدین ایشین ایج اور پھر ممبئی مرر اور ٹائمز آف انڈیا سے وابستہ ہوگئے اورآج سنئیر اسسٹنٹ ایڈیٹر کے عہدہ پر فائز ہیں۔وجیہہ الدین وقتاً فوقتاً مسلم مسائل،اردو طبقے کی سرگرمیاں اور اردو اخبارات کے موقف انگریزی داں طبقہ تک پہنچاتے رہتے ہیں تاکہ اس ملک کی اقلیت کے مسائل سے انہیں واقف کراسکیں۔اردو ادب اور مسلم ثقافت پر وجیہہ الدین نے 20-25سال میں انگریزی میں جتنا لکھا ہے،شایدکبھی لکھا گیا ہو۔ساتھ ساتھ مسلم تہواروں ،خصوصا ماہ رمضان کی رونق اور عید کی سوئیوں اور شیر خورمہ کا ذکر بھی پیش کرتے رہے۔میں بھی اس کا حصہ رہا ہوں مینارہ مسجد ممبئی کے مالپوے کی خوشبو اور ذائقہ کے ساتھ ساتھ فرنی کی لذت انگریزی داں طبقے کے نتھنوں تک انہوں نے ہی پہنچائی ہے۔تعلیم پربھی ہمیشہ سے انہوں نے فوکس رکھا،انجمن اسلام،انجمن خیرالاسلام،رضوی ایجوکیشن کمپلیکس،خلافت ہاؤس ،بھیونڈی ، مالیگاؤں کے تعلیمی ادارے ہوں یا سولا پور کا تنویر منیار،یا اعظم کیمپس پونے کی زرین خان کی ایس ایس سی میں شاندار کامیابی وجیہہ الدین کی تحریر کے بغیر ادھورا پن نظرآتاہے،اصلاح معاشرہ اور مسلم مسائل پر ان کے بلاک آ ج کل کافی پسند کیے جاتے ہیں اور اب تو اردو ترجمہ کرکے ملک بھر کے اخبارات کی زینت بن رہے ہیں،مسلمان معاشرے کی صحیح تصویر اور صورت پیش کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔کسی شخصیت کو ترجمہ کی ضرورت ہوتو میرانام پیش کردیتے ہیں۔ایک اپنائیت نظرآتی ہے،’وجیہہ ‘اسی پیار بھرے نام سے مقبول ہیں،قوم وملت کے اتحادواتفاق کے کٹر حامی ہیں اور ان کی بہتر زندگی اورفلاح وبہبود کے خواہ اوردل میں اپنوں کے لیےایک جذبہ رکھتے ہیں۔وہ مسلمانوں کے تمام فرقوں ،طبقوں اور مسالک میں یکساں طور پرمقبول بھی ہیں ،کوئی بے چارہ مسلک کا ٹھیکہ دار اس اخبار والے سے اس کا مسلک بھی نہیں پوچھتا ہے،اپنا بھی یہی حال ہے۔
بہارسے تعلق رکھنے والے وجیہہ الدین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دہلی یونیورسٹی سے فارغ ہیں ، 1990 کے عشرے میں ممبئی آمد کے بعد سے صحافت میں سرگرم رہے ہیں۔آج جرنلزم میں اپنا ایک الگ مقام بنا چکے ہیں،میں ملت کے لیے ان کے دل میں ایک الگ نرم اورجذباتی گوشہ محسوس کرتا ہوں۔اور ان کے اس جذبہ کی قدر بھی کرتا ہوں۔
دعاگو ہوں کہ وجیہہ الدین اسی طرح قوم و ملت کی خدمت کرتے رہیں ۔
آمین