نبوی دور میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دارالقضاء ،معاشی مسائل کا حل اور مہمانوں کے قیام کا انتظام تھا
معیشت کی خصوصی پیشکش مثالی مسجد سیریز:
دارالقضاء: مسجد کو قضا اور عدالت کے لیے مرکز بنانے کا سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوا۔آپؐ مسجد میں فیصلے فرماتے ،اور مدعی اور مدعا علیہ ،ان کے گواہ اور دوسرے لوگ مسجد میں حاضر ہوتے ،جہاں ان کے بیانات لیے جاتے تھے اور فیصلہ سنایا جاتاتھا۔ایک لحاظ سے یہ کھلی عدالت تھی ،جس میں ہر شخص کارروائی سننے اور دیکھنے آ سکتا تھا۔آپؐ نے عدالتی فیصلے مسجد میں کیے جیسے فاطمہ مخزومیہ کی چوری ثابت ہونے پر ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ اور غامدیہ کے رجم کا فیصلہ۔قبیلہ بنی قریظہ کے محاصرے کے دوران ان کے سرداروں نے آپؐ سے درخواست کی کہ آپؐصحابیٔ رسول ابو لبابہ ؓ کو ان کے پاس بھیج دیں تاکہ وہ مشورہ کر کے کوئی فیصلہ کریں۔ابولبابہ ؓجب اس قبیلے کے پاس پہنچے تو عورتیں اور بچے دھاڑ یں مار مار کر رونے لگے اور اس کیفیت کو دیکھ کر ان پر رقت طاری ہو گئی ۔انھوں مشورہ دیا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں لیکن ساتھ ہی حلق کی طرف اشارہ بھی کر دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ انھیں قتل کر دیا جائیگا،لیکن انھیں فوراً احساس ہوا کہ ان کا اس طرح اشارہ کرنا اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ خیانت ہے اور اپنے آپ کو مسجد کے ایک ستون (کھمبے)سے باندھ لیااور قسم کھائی کہ انھیں اب رسول اللہ ﷺہی اپنے دست مبارک سے کھولیں گے۔ابولبابہؓ چھ رات مسلسل ستون سے بندھے رہے اس کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی اور آپ ؐ نے انھیں کھول دیا۔
مالی اور معاشی معاملات: نبی کریم ﷺ کا معمول تھا کہ جب کوئی اہم مالی معاملہ پیش آتاتومسجدہی سے اس کابھی حل نکالتے نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے بعد اوراگر نماز کا وقت نہ ہوتا تو ’’الصلوۃ جامعۃ‘‘کا اعلان کرا کے لوگوں کومسجد میں جمع فرماتے اور معاملہ ان کے سامنے رکھتے ۔ایک دن دوپہر کو قبیلہ مضر کے لوگ آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے جو تقریباََ ننگے بدن ،کمبل یا عبا لپیٹے ہوئے تھے اور گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے۔ان کے فقر و فاقے کی یہ حالت دیکھ کر آپ ﷺکا چہرہ متغیر ہو گیا۔آپؐ گھر میں تشریف لے گئے پھر باہر نکلے اور حضرت بلال ؓ کو اذان دینے کا حکم دیا ۔چنانچہ بلال ؓ نے اذان دی پھر اقامت کہی،آپؐؐ نے نماز پڑھائی اور پھر حاضرین کو خطاب فرمایا۔سورۃ النساء کی پہلی آیت اور سورۃ الحشر کی ۱۸ ویں آیت پڑھی اور اس کے بعد فرمایا:’’ہر شخص اپنے دینار و درہم ،کپڑے ،اور جو کی مقدار میں سے صدقہ و خیرات کرے ۔‘‘پھر فرمایا:خیرات کرو چاہے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔لوگ آتے گئے اور کھانے کی چیزوں اور کپڑوں کے ڈھیر لگ گئے،جسے دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کا چہرہ آفتاب کی طرح چمکتا دیکھا گیا۔آپؐ نے قبیلہ مضر کے ان قلاش کی بھر پور مدد کی۔اسی طرح ایک انصاری صحابی کا واقعہ ہے جو آپؐ کے پاس سوال کرنے کے لیے آئے۔آپؐ نے پوچھا :تمھارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟وہ بولے کیوں نہیں ۔ایک کمبل ہے کچھ اس میں ہم اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھاتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں ۔آپؐ نے فرمایا:دونوں چیزیں ہمارے پاس لے آؤ۔وہ گئے اور دونوں لے کر آئے ۔آپ ؐ نے ان دونوں کو ہاتھوں میں لیا اور فرمایا: کون خریدتا ہے ان دونوں چیزوں کو؟ ایک شخص بولا:میں لیتا ہوں دونوں کو ایک درہم کے بدلے میں ۔پھر آپ ؐ نے دو یا تین بار فرمایا:کون ایک درہم سے زیادہ دیتا ہے؟آخر آپؐ نے نیلام کے ذریعے دو درہم میں دونوں چیزوں کو فروخت کر دیا اور اس انصاری صحابی سے فرمایا کہ ایک درہم کا اناج لے کر اپنے گھر میں ڈال دے اور ایک درہم کی کلہاڈی لانے کو کہا ۔پھر اس کلہاڑی میں ایک دستہ اپنے ہاتھ سے ٹھونک کر فرمایا:جاؤ لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور پندرہ دن بعد آنا۔وہ صحابی گئے اور وہی کام کیا ۔پندرہ دن بعد انھوں نے دس درہم کما لیے تھے کچھ درہموں کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ۔آپ ؐ نے انھیں سمجھایا کہ یہ کام ان کے لیے سوال کرنے سے بہتر ہے۔اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فائنانشیل ایکسپرٹ (ماہر اقتصادیات)کہتے ہیں کہ آج کے دور کے مائکرو فائنانس کی بنیاد یہی حدیث ہے۔کسی شخص کے پاس جتنی کچھ بچت ہے ،اسے کار آمد نفع بخش کمائی کا ذریعہ بنانا اور اس کے لیے رہنمائی فراہم کرنا اور اپنی معمولی بچت اور حقیر سرمایا سے اپنے پیروں پر کھڑے ہونا ہی اصل کامیابی کا راز ہے۔نبی ﷺکا یہ بھی معمول تھا کہ فجر اورعصر میں سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ پھیر کر بیٹھتے اور غیر حاضر صحابہ کے بارے میں دریافت کرتے اور ان کی ضرورتوں کو جان کر پوری کرنے کی کوشش فرماتے۔
مہمان و وفود کا قیام: نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔آپ نے مسجد میں نہ صرف ان کی مہمان نوازی کی بلکہ اس عیسائی وفد کو جس کے افراد کی تعداد ساٹھ تھی انھیں اجازت دی کہ وہ اپنے طریقہ سے عبادت بھی کریں ۔اسی طرح قبیلہ ثقیف کا وفد آیا تو آپ ؐ نے نہ صرف مسجد میںبحیثیت مہمان ٹھہرایا بلکہ ان کے لیے مسجد نبویؐ میں ایک خیمہ نصب فرمایا اور ان کی تکریم کے لیے کئی صحابہ آگے بڑھے۔مغیرہ بن شعبہؓ نے ان کی خدمت کے لیے بارگاہ نبوی ؐ میں درخواست دی تو فرمایا کہ ان کی خدمت و تکریم سے آپؐ نہیں روک رہے ہیں لیکن انھیں ایسی جگہ ٹھہرائیں جہاں سے قرآن سن سکیں ۔اس وفد میں ان کا سردار ابن عبد یالیل بھی تھے ،جنھوں نے سفر طائف کے موقع پر آپؐ سے بدسلوکی کی اور شہر کے لڑکوں کو اور غلاموں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا کہ تضحیک و تحقیر کریں ۔انھوں نے آپ ؐ پر کیچڑ پھینکا اور پتھروں کی بوچھاڑ سے زخمی کر دیا۔پیشانی مبارک کے خون نے بہہ کر پائے مبارک کو رنگین کر دیا تھا۔بقول مولانا آزادؒ آپ نے اس سخت بت پرست اور اسلام سے عداوت میں سنگ دل لوگوں کو مسجد میں ٹھہرایا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ جس قلعہ طائف کو مسلمانوں کے منجنیق چالیس دن تک سنگ باری کر کے فتح نہ کر سکیں اس کے بسنے والوں کے دلوں کو آنحضرت ؐ کے خلق عظیم ،اسلامی مصالحت ،مسجد کے قیام اور اسلامی عبادت کے نظارے نے چند گھنٹوں کے اندر فتح کر لیا ۔لوہے کی تلوار کو سر پر روکا جا سکتا ہے لیکن محبت کی تلوار کے لیے کوئی سپر نہیں۔(جامع الشواہد،ص ۱۹)