Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

…تو بورڈ برداشت نہیں کرے گا: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

by | May 17, 2022

نئی دہلی(پریس ریلیز)

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اپنے پریس نوٹ میں کہاہے کہ گیان واپی مسجد بنارس،مسجد ہے اور مسجد رہے گی،اس کو مندر قرار دینے کی کوشش ،فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے کی ایک سازش سے زیادہ کچھ نہیں،یہ تاریخی حقائق کے خلاف اور قانون کے مغائر ہے،1937میں دین محمد بنام اسٹیٹ سکریٹری میں عدالت نے زبانی شہادت اور دستاویزات کی روشنی میں یہ بات طئے کردی تھی کہ یہ پورا احاطہ مسلم وقف کی ملکیت ہے۔اور مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کا حق ہے،عدالت نے یہ بھی طئے کردیاتھاکہ متنازعہ اراضی کا کتنا حصہ مسجد ہے اور کتنا حصہ مندر ہے،اسی وقت وضوءخانہ کو مسجد کی ملکیت تسلیم کیا گیا،پھر 1991ءمیں(Places of Worship Act 1991) پارلیمینٹ سے منظور ہوا،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ 91947ءمیں جو عبادت گاہیں جس طرح تھیںان کو اسی حالت پر قائم رکھا جائےگا۔

 

 

 

2019ءمیں بابری مسجد مقدمہ کے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے بہت صراحت سے کہا کہ اب تمام عبادت گاہیں اس قانون کے ما تحت ہوں گیں اور یہ قانون دستور ہند کی بنیادی اسپرٹ کے مطابق ہے۔اس فیصلہ اور قانون کا تقاضہ یہ تھا کہ مسجد کے شبہ میں مندر ہونے کے دعوی کو عدالت فورا (خارج) رد کردیتی،لیکن افسوس کہ بنارس کے سول کورٹ نے اس مقام کے سروے اور ویڈیو گرافی کا حکم جاری کردیا،تاکہ حقائق کا پتہ چلایا جا سکے،وقف بورڈ اس سلسلہ میں ہائی کورٹ سے رجوع کرچکا ہے اورہائی کورٹ میں یہ مقدمہ زیر کارروائی ہے،اسی طرح گیان واپی مسجد کی انتظامیہ بھی سول کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرچکی ہے۔

سپریم کورٹ میں بھی یہ مسئلہ زیر سماعت ہے،لیکن ان تمام نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے سول عدالت نے پہلے تو سروے کا حکم جاری کردیا اور پھر اس کی رپورٹ قبول کرتے ہوئے وضوءخانہ کے حصہ کو بند کرنے کا حکم جاری کردیا،یہ کھلی ہوئی زیادتی ہے اور قانون کی خلاف ورزی ہے جس کی ایک عدالت سے ہرگز توقع نہیں کی جاسکتی،عدالت کے اس عمل نے انصاف کے تقاضوں کو مجروح کیا ہے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر اس فیصلہ پر عمل آوری کو روکے،الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کرے اور 1991ءکے قانون کے مطابق تمام مذہبی مقامات کا تحفظ کرے،اگر ایسی خیالی دلیلوں کی بناءپر عبادت گاہوں کی حیثیت بدلی جائے گی تو پورا ملک افرا تفری کا شکار ہوجائیگا،کیونکہ کتنے ہی بڑے بڑے مندر بودھ اور جینی عبادت گاہوں کو تبدیل کرکے بنائے گئے ہیں اور ان کی واضح علامتیں موجود ہیں،مسلمان اس ظلم کو ہر گز برداشت نہیں کرسکتے،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ہر سطح پر اس نا انصافی کا مقابلہ کرے گا۔

 

 

 

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...