شاہ تاج خان، پونے
کسی کوکامیابی تبھی ملتی ہے،جب منصوبہ بند طریقے سے محنت کی جائے،اس کی عمدہ مثال ریاست مہاراشٹر کے شہر پونے سے تعلق رکھنے والی خاتون شاہنواز خان پٹھان عرف سمیہ ہیں۔ وہ فرسٹ کلاس جج کے عہدے کے لیے منتخب کر لی گئی ہیں۔ان کی ٹریننگ آئندہ ماہ اگست2022 میں شروع ہونے والی ہیں۔ فی الوقت مقامی کورٹ میں پریکٹس کر رہی ہیں۔
پونے کے گھوڑپڑی پت لوہیا نگر کی کچی آبادی کے ایک چھوٹے سے کمرے میں زندگی بسر کرنے والی خاتون شاہنواز خان پٹھان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کامیابی انہی کے قدموں کو چومتی ہے، جومحنت کرتے ہیں۔
آگے بڑھتے چلیں
کامیابی ایک دن میں نہیں ملتی، تاہم اگرآپ ارادہ کر لیں تو یہ ایک دن ضرور ملے گی۔ شاہنواز خان پٹھان عرف سمیہ چار بہنوں اور ایک بھائی میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ ان کے والد امان خان پٹھان کی پرچون کی ایک چھوٹی سی دکان ہے۔کم آمدنی کے باوجود انہوں نے اپنے تمام بچوں کو مناسب تعلیم دلانے کی پوری کوشش کی ہے۔ امان خان پٹھان کے پانچوں بچے پڑھے لکھے ہیں۔
شاہنواز خان پٹھان کا استقبال
شاہنواز خان پٹھان کی کامیابی نے ان کے والد کو خوش کر دیا ہے۔ان کا سر فخر سے بلند ہوگیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ خراب مالی حالت کی وجہ سے وہ اپنی خواہش کے مطابق خود توتعلیم حاصل نہیں کرسکے تاہم انہوں نے اپنے بچوں کو ضرور تعلیم دلانے کی کوشش ہے۔ جب کہ ان کی بیٹی شاہنواز خان پٹھان نے کامیابی حاصل کرکے یہ دکھا دیا کہ جو میں نہیں کر سکا،وہ اس سے بہت آگے پہنچ چکی ہیں۔آج لوگ مجھے میرے نام سے نہیں بلکہ شاہنواز خان پٹھان کے والد کے طور پر جانتے ہیں۔ وہ بہت ہی جذباتی انداز میں کہتے ہیں کہ مجھے اپنی بیٹی شاہنواز خان پٹھان پر فخر ہے۔
ایک مسلم خاتون فرسٹ کلاس جج کی والدہ صغرا بی پٹھان اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کی بیٹی شروع سے ہی پڑھائی میں بہت اچھی تھی۔ ہمیں اس سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔اس نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ میں ہمیشہ اس کی کامیابی اور کامرانی کے لیے دعا گو ہوں۔
محنت کا کوئی متبادل نہیں
لوہیا نگر کی تنگ گلیوں میں ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں رہنے والی شاہنواز خان پٹھان نے اپنی محنت سے تاریخ رقم کی۔یہ علاقہ نہ صرف چھوٹا سا تھابلکہ یہاں تعلیم کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ وہیں انہیں اس بات کا بھی اعزا مل گیا ہے کہ وہ پونے کی پہلی ایسی مسلم خاتون ہیں فرسٹ کلاس جج کے طور پر منتخب ہوئیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ محض تخیل سے کامیابی نہیں ملتی۔ خوابوں کو پورا کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اہل خانہ کے تعاون کے حوالے سے وہ کہتی ہیں کہ والد ہر قدم پر میرے ساتھ تھے، میری رہنمائی کرتے رہے۔ میری تعلیم کے لیے جو بھی ضرورت تھی، انہوں نے اپنی محدود آمدنی کے اندر اسے پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ میرے چچا ضیا خان پٹھان اور چچی نے بھی میرے لیے بہت کچھ کیا ہے۔
شاہنواز خان پٹھان کا استقبال
وہ کہتی ہیں کہ ان کےچاچا ضیاخان پٹھان ہمہ وقت ان کے ساتھ رہے۔ وہ پہلی جماعت سے لے کرجےایف ایم سی کے انٹرویو تک سائے کی طرح ان کے ساتھ رہے۔ جب بھی شہر سے باہر امتحان کے لیے جانا ہوتا تو چچا اورچچی ہروقت میرے ساتھ رہتے تھے۔
انہوں نےمجھے کبھی اکیلا نہیں چھوڑا۔ میری ماں اور میرے پورے خاندان، دوست احباب، پڑوسی سبھی نے میری حوصلہ افزائی کی۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ 2019 کی ناکامی نےمجھےمایوس کردیاتھا۔ میں کئی سالوں سے محنت کر رہی تھی۔ اس وقت میرے والد نے میری ہمت کو بڑھایا اور مجھ پراپنا اعتماد ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میں دوبارہ کوشش کروں۔
میں نے نئے جوش اوراعتماد کے ساتھ دوبارہ کوشش کی اور یہاں تک کہ میں سنہ 2020 میں منتخب ہوگئی۔ اعلان کردہ نتائج کی فہرست میں اپنا نام دیکھ کر مجھ کو بے حد خوشی ہوئی۔آج میں جہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہوں اس میں میرے پورے خاندان کی دعائیں شامل ہے۔
آپ جیسا سوچتے ہیں، ویسے ہی بنتے ہیں
مشہور مفکرسوفوکلس نے کہا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ ہر شخص ایک صلاحیت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، ہمیں بس اس صلاحیت کو نکھارنے کی ضرورت ہے۔ اس کی تصویر ہمیں شاہنواز خان پٹھان میں من وعن دکھائی دیتی ہے۔شاہنواز خان پٹھان نے نہ صرف اپنی صلاحیت کو پہچانا بلکہ صحیح سمت کا انتخاب کرتے ہوئے محنت بھی کی ہے۔ منزل تک پہنچنے کے لیے صحیح راستے کے فیصلے نے انھیں تیزی سے منزل تک پہنچنے میں مدد دی۔
شاہنواز خان پٹھان اپنے خاندان اور محلہ والوں کے ساتھ
مہارشی انا صاحب شندے، ضلع پریشد اسکول سے اپنا تعلیمی سفر شروع کرنے والی خاتون شاہنواز خان پٹھان آج جج کی کرسی پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ تعلیم زندگی کی تیاری نہیں بلکہ تعلیم ہی زندگی ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ وہ پرعزم تھیں کہ آس پاس کا ماحول ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ کچھ دن قبل ان کا خاندان کندھوا کے علاقے میں اپنے نئے مکان میں شفٹ ہو گیا ہے۔
کامیابی کا سفر
خیال رہے کہ شاہنواز خان پٹھان مہاراشٹر پبلک سروس کمیشن کی دوسری کوشش میں سول جج کم-جوڈیشل مجسٹریٹ فرسٹ کلاس(JFMC) کے طور پر کامیاب ہوئی ہیں۔ جے ایف ایم سی کے نتائج آنے سے قبل ان کی شادی سافٹ ویئر ڈویلپر سنی سید سے 25 مئی 2022 کو ہوئی۔ ان کے والد نے بہتے آنسووں کے ساتھ اپنی بیٹی کو رخصت کیا۔فی الحال وہ اپنے شوہر کے ساتھ پونے کے اُروڈی کنچن علاقے میں رہتی ہیں۔
فرسٹ کلاس جج
شاہنوازخان پٹھان کا کہنا ہے کہ عام لوگوں کو قانونی معلومات دینے کے لیے بیداری مہم چلائی جانے کی ضرورت ہے تاکہ انہیں یہ معلوم ہو سکے کہ قانون ان کی مدد کیسے کرسکتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ قانونی کیمپ، اسٹریٹ ڈرامے وغیرہ ہندوستانی امن و امان کے بارے میں صحیح معلومات دینے میں بہت مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ مناسب معلومات کی کمی مسئلہ کو حل نہیں کرتی بلکہ اس میں اضافہ کرتی ہے۔ جبکہ ایک عام شہری اپنی شکایات کے ازالے کے لیے قانون کے دائرے میں رہ کر ملک کی ترقی میں مددگار بن سکتا ہے۔
محنت، محنت اور صرف محنت
کامیابی حاصل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے محنت۔ آج پورے پونے شہر میں شاہنواز خان پٹھان کے لیے پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں، ہر دوسرے تیسرے دن انھیں کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر نوازا جا رہا ہے۔ وہ لوگوں کے لیے تحریک کا ذریعہ بن گئی ہیں اور اسے ان کی انتھک محنت اوریہ اعزاز بخشا۔ یہ ابھی ان کی شروعات ہے تاہم انہیں کامیابی کے مزید منازل طے کرنے ہے۔