از ۔ محمدشاہد الناصری الحنفی
بانی وصدر : ادارہ دعوۃ السنہ ویلفیئر ٹرسٹ ممبئی مہاراشٹرا
حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب کے اچانک انتقال پرملال سے کئی اداروں کی سربراہی کی جگہ خالی ہوگئی تھی ۔ بحمداللہ مرشد الامت حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی دامت برکاتہم نے اپنی مومنانہ فراست کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جگہ کو ہندوستان کے ممتاز عالم دین حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے ذریعہ فی الحال پر کر دیا ہے اورخانقاہ رحمانی کی گدی بھی مرحوم حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب کے صاحبزادے نے سنبھال لیا ہے، جو بہت خوش آئند قدم ہے۔ اب بات رہ گئی ہے امارت شرعیہ پھلواری شریف کی تو ان شاء اللہ یہ جگہ بھی صالح، متدین اور تجربہ کار عالم دین کے ذریعہ پر ہوگی۔سوشل میڈیا پر مختلف احباب نے اپنی آراء کا اظہارکیا ہے اور مختلف نام پیش کیے ہیں۔ نیز ایک فہرست بھی متعدد اصحاب علم و فضل کے اسماء گرامی پر مشتمل امیر شریعت کے منصب کے لئے سوشل میڈیا پرگردش کررہی ہے۔خاکسارنے بھی مخدوم گرامی حضرت مولانا انیس الرحمن صاحب قاسمی مدظلہ ناظم امارت شرعیہ کا نام ارباب حل وعقد اور بہار و اڑیسہ جھارکھنڈ کے باشعور عامتہ المسلمین کے حضور میں پیش کر دیا تھا، اسی بیچ عزیز گرامی مولانا مولانا سید فضیل احمد ناصری فاضل دیوبند نے غایت محبت و لطف کی بنیاد پر خاکسار کا نام بھی امیرشریعت کے منصب کیلئے پیش کردیا اور برکۃً سابق ولاحق اکابر امت کے اسماء گرامی کا ذکر بھی خاکسار کے تعارف میں درج کر دیا۔ تحریر کے مشمولات اور اکابر کی نسبت ملاقات پر خاکسار کو بے اختیار حضرت مرشدی پرتابگڈھی رحمۃ اللہ علیہ کا شعر یاد آگیا:
اسلاف سے نسبت نہیں کچھ بھی مجھے واللہ
وہ اور کہیں رہتے تھے میں اور کہیں ہوں
اس لئے جی چاہا کہ احباب کی خدمت میں دوبارہ یہ عرض کردوں کہ جتنے لوگ امارت میں قدیم ہیں اور جتنے جدید آئے ہیں ان سب میں لائق وفائق ہراعتبارسے فکر امارت، کار امارت، تحریک امارت سے قریب صرف اور صرف حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی کی ذات گرامی ہے جن سے خاکسار کا کوئی نسبی رشتہ نہیں ہے۔حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی قدس سرہ نے حضرت امیرشریعت رابع مولانا سیدمنت اللہ رحمانی قدس سرہ کے وصال کے بعد انتخاب امیر شریعت خامس کے سلسلے میں حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب مرحوم سے فرمایا تھا کہ ابھی یہ منصب آپ کیلئے نہیں ہے، بلکہ ہم سب کے مخدوم بزرگ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مدظلہ مقیم سیوان کیلئے ہے۔ چناں چہ سخت مشکل حالات میں وہ انتخاب ہوا۔ ان حالات کے اسباب وعوامل کے ذکر کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ بس خدا کا شکر تھا کہ ایک صاحب نسبت بزرگ عالم کا انتخاب ہو گیا تھا۔ پھر خدا کے فضل سے خامس امیر کے بعد سادس امیر کیلئے حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب مرحوم کا انتخاب ہوا، جو اس وقت امارت شرعیہ کی نظامت پر فائز تھے۔ آپ کے انتقال کے بعد حضرت مولانا ولی رحمانی صاحب امیرشریعت سابع بنائے گئے۔اب ان تمام بزرگوں کے بعد ان مرحومین کے علم و تجربہ اور تفقہ سے طویل عرصہ تک فیضیاب ہونے والے حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی کے بعد کوئی دوسری شخصیت موجود نہیں ہے، اس لئے مولانا قاسمی سے زیادہ موزوں ترین کوئی دوسری شخصیت امارت کے منصب امیر کے لئے موجود نہیں ہے، گرچہ دیگر بہت سارے اہل علم وفضل ہماری ریاست میں بحمداللہ موجود ہیں جو اپنی اپنی جگہ کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں اورکسی درجہ میں ان اکابر کا امارت سے بھی ضرور تعلق ہے۔
خاکسار عقیدت اور محبت میں غلوکا قائل نہیں ہے اورنہ کسی کی تنقیص یا بے عزتی کا۔جولوگ حسد کی وجہ سے علم علماء کے نام پر ایک دوسرے کی بے آبروئی کرتے ہیں وہ آخرت میں خود بھگت لیں گے، اسی طرح جولوگ نا اہل لوگوں کو محض نسبت کی بنیاد پر کسی ادارے پر مسلط کریں گے وہ بھی آخرت میں مواخذے سے نہیں بچ سکیں گے۔المستدرک کتاب الاحکام حدیث نمبر 723 میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نظر سے گزری ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جس نے گروہ میں سے کسی شخص کو ذمہ دار بنا دیا۔ حالانکہ اس گروہ میں پسندیدہ شخص موجود تھا تو اس نے اللہ کے ساتھ، اللہ کے رسول کے ساتھ اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی۔اس حدیث کے پیش نظر بھی خاکسار اس منصب کا اہل نہیں ہے اور جو اہل ہے اس منصب کا اس کوتاہ کی فکر و نظر میں جس کے تدین و تقوی اور شریعت و سنت اور فقہ اسلامی کی تفہیم پر اعتماد ہے اور جس کی نصف زندگی امارت شرعیہ کی داخلی زندگی ہے، وہ مولانا انیس الرحمن قاسمی ہیں، ان پر بغیر مداہنت اورکینہ وبغض کے ہم سب کو اتفاق کر لینے کی ضرورت ہے۔ اس لئے خاکسار اپنے احباب سے اور بہار و اڑیسہ اورجھارکھنڈ کے باشعور افراد سے دست بستہ عرض کرتاہے کہ اب امارت شرعیہ کی بقاء وتحفظ کیلئے باوقار، حلیم الطبع، شریف النفس ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمن قاسمی مدظلہ کو امیرشریعت کے باوقار منصب پر لاکر اپنے اکابر اوربزرگان دین کے لگائے ہوئے چمن کی حفاظت کو اپنا فریضہ تصور کریں۔