یوپی میں مدارس کی جانچ کا حکم ، بڑی تبدیلیوں کی تیاری

ریاستی حکومت یوپی میں مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے جا رہی ہے۔ حکومت نے مدرسہ ماڈرنائزیشن اسکیم چلانے والے مدارس کی جانچ کا حکم دیا ہے۔ حکومت نے عمارت، زمین، کرایہ نامہ، اساتذہ، طلباء وغیرہ کی موقع پر جانچ کے لیے ایک کمیٹی بنانے کو کہا ہے۔ اس سلسلے میں رجسٹرار مدرسہ ایجوکیشن کونسل نے تمام ضلع مجسٹریٹس کو خط بھیجا ہے۔ جانچ کے بعد جو رپورٹ سامنے آئے گی اس کی بنیاد پر حکومت مدارس کی تعلیم میں بڑی تبدیلیاں کرنے جا رہی ہے، جس میں جدید تعلیم پر زیادہ زور دیا جائے گا۔

 

 

 

ضلع مجسٹریٹ اب ایس ڈی ایم، بلاک ایجوکیشن آفیسر، بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر کو اس کی جانچ کا حکم دے رہے ہیں۔ ریاستی حکومت نے 15 مئی 2022 تک انکوائری رپورٹ طلب کی ہے۔

مدرسہ ماڈرنائزیشن اسکیم کے تحت اتر پردیش میں ساڑھے سات ہزار سے زیادہ مدارس چل رہے ہیں۔

 

 

یوپی کے جدید مدارس میں اساتذہ کی 8129 آسامیاں ہیں۔ ان میں سے 6455 اساتذہ انگریزی، تاریخ، جغرافیہ، سائنس جیسے مضامین پڑھانے والے ہیں۔ ان کے علاوہ دینی تعلیم والے 5339 اساتذہ ہیں۔ ریاستی حکومت کی نظریں انہی دینی تعلیم والے ٹیچروں پر ہے ۔ یوپی محکمہ تعلیم کے افسران کا کہنا ہے کہ جب مدارس میں جدید مضامین پڑھائے جارہے ہیں تو پھر وہاں دینی تعلیم والے اساتذہ کی کیا ضرورت ہے ۔

 

 

 

ان مدارس کو حکومت سے گرانٹ ملتی ہے۔ اس لیے حکومت اپنے افسران کے ذریعے یہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ مدارس میں کتنے جدید مضامین پڑھائے جا رہے ہیں اور کیا اب بھی دینی تعلیم پر زور ہے؟ کسی بھی مدرسے میں اساتذہ کی بنیاد پر یہ آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ وہاں جدید مضامین پڑھائے جا رہے ہیں یا دینی مضامین۔

یوپی میں تقریباً 588 مدارس ہیں جن میں 8129 اساتذہ اور 558 پرنسپل ہیں۔ حکومت ہر سال ان پر 866 کروڑ روپے خرچ کرتی ہے۔ لیکن حکومت کے پاس اطلاعات ہیں کہ مدارس میں بچوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔ حکومت کے پاس معلومات ہیں کہ چونکہ مدارس میں جدید مضامین نہیں پڑھائے جا رہے ہیں اس لیے وہاں کے بچے مقابلے جاتی امتحانات میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں، اس لیے یوگی حکومت چاہتی ہے کہ مدارس کے نصاب میں تبدیلیاں کی جائیں۔

 

 

 

ریاستی حکومت کے پاس اطلاعات ہیں کہ کئی جگہوں پر مدارس کے نام پر کاروبار ہو رہا ہے۔ کئی تنظیموں کے تیس سے چالیس مدارس ہیں۔ لکھنؤ میں ہی ایسے مدارس کا ایک سلسلہ ہے جہاں اساتذہ کو آدھی تنخواہ ملتی ہے جبکہ ان سے پوری تنخواہ پر دستخط کرائے جاتے ہیں۔ ایسے اساتذہ سے استعفیٰ پہلے ہی لے لیے جا چکے ہیں، تاکہ اگر وہ احتجاج کریں تو انہیں فوراً باہر کا راستہ دکھایا جائے۔

 

 

 

عام طور پر پہلی جماعت سے پانچویں جماعت تک کے مدارس میں پانچ ٹیچر دینی تعلیم والے ہوتے ہیں ۔ چھٹی کلاس سے لے کر آٹھویں تک کے مدارس میں دو دینی تعلیم والے ہیں اور ایک عام مضامین کے لیے۔ لیکن عالیہ کلاس (9ویں اور 10ویں) میں دینی تعلیم کے لیے تین اساتذہ اور عمومی مضامین کے لیے ایک استاد ہے۔ اس طرح کلاس ششم سے عالیہ کی کلاس تک دیگر مضامین پڑھانے والے اساتذہ کم اوردینی تعلیم والے زیادہ ہیں ۔ سرکار اس میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے ۔ اس سے ٹیچروں کا استحصال بھی رکے گا۔

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *